• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
  • کمرے میں بسی خُوشبو مانوس سی لگی، اِسی کمرے میں کبھی بِملا رہتی تھی
  • جسے محل کی قید سے رہائی دلوائی، وہ اپنی جھونپڑی تک پہنچ نہیں پائی
  • اِک دَربدر، خاک بسر… اور عشقِ مجازی سے عشقِ حقیقی تک کا سفرِ مسلسل

کچھ دیر ہال پر سنّاٹا سا چھایا رہا۔ نواب تیمور کا سر چکرا گیا ’’یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔ شہریار کو کیسے پتا کہ مہرو…نہیں نہیں، آپ کو ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔‘‘ مَیں نے غور سے شہریار کی طرف دیکھا، جو سر جھکائے بیٹھا تھا۔ ’’مَیں یہی بات شہریار کی زبان سے سُننا پسند کروں گا۔‘‘ شہریار نے نفی میں سر ہلایا۔ ’’آپ نے یہ اندازہ کیسے لگایا، یہ آپ کا وہم ہے۔‘‘ ’’ہاں…میرا وہم بھی ہوسکتا ہے، مگر آج مَیں نواب صاحب کی اجازت سے اُس کمرے میں گیا تھا، جس میں مہرو نے کچھ ہفتے گزارے تھے۔ سب سے پہلے مجھے اس کمرے میں بَسی خوشبو کچھ مانوس سی محسوس ہوئی، جیسے رنگوں کی مخصوص بُو میں کسی پرفیوم کی ملاوٹ کردی جائے۔ 

یہ احساس صرف چند لمحوں کے لیے ہوا، کیوں کہ کمرا بہت دنوں سے بند تھا اور جیسے ہی مَیں نے باہر کا اور بالکونی کا دروازہ کھولا، باغ سے آتی ہوا اس خُوشبو کو فوراً اُڑا لے گئی اور جب میں نے بالکونی سے باہر جھانکا، تو دُور باغ میں مجھے ایک گوشے میں رکھا تمہارا پرانا کینوس اسٹینڈ دکھائی دیا، جو باہر پڑے پڑے بارشوں، موسم کی سختیوں سے خاصا بے رنگ، بدنُما ہوچکا ہے۔ تبھی مجھے یہ احساس ہوا کہ تم نے بِملا کے تصوّر کو کسی روز اچانک ہی اپنے سامنے زندہ کھڑے دیکھ لیا تھا۔ یہ وہی کمرا تھا، جہاں کبھی بِملا رہتی تھی اور پھر مہرو کو بھی اسی کمرے میں رکھا گیا۔ 

جن تصویروں میں لڑکی کے ماتھے پر بندیا ہے، وہ ساری بِملا کی ہیں، لیکن جن چند تصویروں میں بندیا ماتھے پر نہیں اور بال مخصوص انداز میں پیچھے چُٹیا کی صُورت باندھنے کے بجائے کُھلے چھوڑے گئے ہیں، وہ مہرو کی تصاویر ہے اور اُس کے کمرے میں پائی جانے والی رنگ اور عطر کی مِلی جُلی خُوشبو تمہارے کپڑوں سے آتی ہے۔ یہ تمہارا کوئی خاص پرفیوم ہے، جو تم استعمال کرتے ہو اور جب بھی تمہیں موقع ملتا ہے، تم سب سے نظر بچا کر اُس کمرے میں جاتے ہو، چاہے ہفتوں بعد ہی سہی، لیکن اگر تمہیں اب بھی اس بات سے انکار ہے، تو میں دوبارہ اپنی بات نہیں دہرائوں گا، کیوں کہ میں جانتا ہوں کہ ایک سچّا آرٹسٹ کبھی جھوٹ نہیں بول سکتا۔‘‘ کمرے میں خاموشی چھاگئی۔ نواب تیمور نے بے چینی سے پہلو بدلا۔ 

کچھ لمحوں بعد شہریار نے سر اٹھایا، تو اس کی پلکیں بھیگی ہوئی تھیں۔ ’’آپ کا اندازہ درست ہے۔ وہ دوسری لڑکی، جو میری تصویروں میں کسی کا انتظار کررہی ہے، وہ مہرو ہی ہے۔‘‘ نواب تیمور حیرت و استعجاب کی کیفیت میں بہت زور سے چلّایا، ’’کیا.....؟ شہریار تم.....‘‘میں نے آنکھوں، آنکھوں میں نواب سے خود پر قابو رکھنے کی درخواست کی، مگر اُس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ کیا کر گزرے۔

شہریار کی کہانی مختصر تھی۔ اُس نے بتایا کہ باپ کے آئے روز کے طعنوں اور ماں کی بےجا فکروں، پریشانیوں سے گھبرا کر اُس نے سارا سارا دن خود کو کمرے میں بند رکھنا شروع کردیا تھا تاکہ نہ وہ باپ کے سامنے آئے اور نہ باپ اُسے نفسیاتی مریض، ناکارہ، نالائق ہونے کے طعنے دے۔ اُسے پینٹ بھی کرنا ہوتا، تو وہ رات کے آخری پہر کمرے سے نکل کر اپنی بالکونی یا باغ وغیرہ کی طرف نکل جاتا اور صبح دھوپ نکلنے سے ذرا پہلے تک پینٹ کرکے کمرے میں واپس آجاتا۔ ایک دن وہ اسی ذہنی دبائو میں صبح سویرے محل کے اس ممنوعہ حصّے کی طرف نکل آیا، جہاں جانے پر اُن دنوں سخت پابندی تھی۔ وہ فجر سے کچھ دیر پہلے کا وقت تھا، محافظ بھی تھک ہار کے سوئے پڑے تھے۔ 

ویسے بھی باغ کے ان درمیانی راستوں تک گھر والوں کے سوا کسی کی رسائی نہیں تھی اور گھر میں تھا ہی کون، نواب بیگم اور شہریار۔ شہریار ٹہلتے ٹہلتے نواب کے خاص مہمان خانے کی پچھلی سمت والے باغ میں آنکلا۔ ارادہ تصویر کَشی ہی کا تھا، لہٰذا اس نے ایک سنسان گوشہ چُنا۔ ایزل پرکینوس سجایا۔ صبح کی روشنی ابھی رات کے اندھیرے کی پکڑ میں تھی، ہوا ہلکی اور خوش گوار تھی۔ شہریار کو صبح کا یہ ابتدائی وقت مصوّری کے لیے بہت پسند تھا۔ اُس نے برش اُٹھایا اور تبھی اس کی نظر دُور کُھلتی مہمان خانے کے کسی کمرے کی بالکونی پر پڑی۔ شہریار کے ہاتھ سے برش گر گیا۔ یہ تو وہی تھی، بِملا..... مگر وہ اور اس کا خاندان تو رات کے وقت شہریار کو دکھائی دیتےتھے، اس وقت …کیسے…؟ شہریار نے تین چار بار پلکیں جھپکائیں کہ کہیں وہ کوئی خواب تو نہیں دیکھ رہا یا اس کا تخیّل اتنا زورآور ہوگیا ہےکہ اب صبح کے اُجالے میں بھی اُسے یہ ہیولے دکھائی دینے لگے ہیں، لیکن نہیں، یہ کوئی واہمہ نہیں تھا۔ 

اُس لڑکی کی اداس نظریں کسی کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے اچانک شہریار پر پڑیں، تو وہ گھبراکر، گھونگھٹ نکال کے فوراً اندر کمرے کی طرف پلٹ گئی۔ اور تبھی شہریار بھی ہوش میں آگیا کہ یہ تو کوئی جیتی جاگتی لڑکی ہے، جو اُسے دیکھ کر گھبرا کے اندر بھاگ گئی۔ شہریار اُسے دیکھ کر بہت بے چین ہوگیا تھا۔ اور پھر اگلے روز وہ دانستہ اُسی وقت اور اُسی جگہ اُس اَن جان لڑکی کا منتظر کھڑا تھا۔ اُس کے بعد تو یہ انتظار اُس کا معمول بن گیا۔ پہلے پہل تو وہ لڑکی اُس کے ڈر سے باہر نہیں آئی، مگر پھر اُس کی مجبوری نے اُسے اشاروں کنایوں میں شہریار سے مدد مانگنے پر مجبور کردیا۔ 

اس نے شہریار کے لیے ایک کاغذ پر مختصر پیغام لکھ کر نیچے پھینکا کہ وہ یہاں قید ہے اور شہریار سے منّت کی کہ وہ اُس کی یہاں سے نکلنے میں مدد کرے۔ چوں کہ محل کے محافظ اور نوکر شہریار کی راتوں میں مٹرگشت اور دیوانوں کی طرح اِدھر اُدھر بھٹکنے کی عادت سے پہلے ہی واقف تھے، لہٰذا کسی کو شک بھی نہیں گزرا کہ شہریار یوں آدھی رات کو اچانک بِنا بتائے کس گوشے کی طرف نکل جاتا ہے۔ دھیرے دھیرے وہ لڑکی شہریار کے دل میں گھر کرتی چلی گئی۔ اس بے چاری کو تو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ جس ظالم کی قید میں ہے، وہ کوئی اور نہیں، خود شہریار کا اپنا باپ ہے۔

شہریار جانتا تھا کہ محل کی سنگین پہرے داری سے مہرو کو نکالنا تقریباً ناممکن ہے، مگر اُس نے مہرو سے وعدہ کرلیا تھا کہ وہ اُسے اُس کی محبت سے ملوانے کے لیے، جو ممکن ہوا کرگزرے گا۔ شہریار نے بالکونی میں ڈالنے کے لیے رسّی کا انتظام تو کرلیا تھا، مگر یہ کمند ڈال کر وہ اس قیدی شہزادی کو چھڑوا کر لےبھی جاتا، تو کہاں۔ تبھی اُسے پتا چلا کہ اُس کا باپ چند دن کے لیے شہر سے باہر جارہا ہے۔ شہریار اُسی دن کے انتظار میں رُکا ہوا تھا اور پھر اگلے روز فجر کی اذانوں سے پہلے محل کے پچھلے حصّے میں اسٹاف کوارٹرز میں سے ایک کوارٹر کے دروازے پر تین چار بار ہلکے انداز، مگر عجلت اور گھبراہٹ میں کسی نے دستک دی۔ 

مکین نے پریشانی میں دروازہ کھولا، تو باہر اپنے شاگرد شہریار کو ایک گھبرائی ہوئی لڑکی کے ساتھ کھڑے دیکھ کر خود استاد اکبر کے ہوش اُڑ گئے۔ شہریار نے بِنا کچھ کہے تیزی سے مہرو کو گھر کے صحن میں دھکیلا اور خود اندر آکر اپنے اتالیق کو ساری بات الف سے ی تک سُنا دی۔ اکبر نے بچپن سےلےکر آج تک شہریار کو اپنا شاگرد نہیں، بیٹا مان کر اُس کی پرورش اور تربیت کی تھی، مگر آج وہ اپنے استاد سے بہت بڑی قربانی کی بھیک مانگ رہا تھا۔ استاد اکبر کو اچھی طرح پتا تھا کہ اس لڑکی کو اپنےگھر میں پناہ دینے کا کیا انجام ہو سکتا ہے، مگر شہریار کے اپنے سامنے بندھے ہاتھ وہ چاہ کر بھی نہیں کھول پایا۔ کیوں کہ اُس کا شاگرد اُسے بہت پیارا تھا۔ ویسے بھی اب وہ ریٹائر ہوچکا تھا اور محل سے اس کی رخصتی کی تاریخ مہینہ بھر پہلے ہی طے ہوگئی تھی۔ وہ صرف نواب تیمور کی واپسی کا انتظار کررہا تھا کہ آخری بار اس سے مل کر ہمیشہ کے لیے رخصت ہو کر اپنے آبائی قصبے منتقل ہوجائے، جو نواب پور سے دو دن کی دُوری اور مسافت پر تھا۔

استاد اکبر کے گھر میں اُس کی بیوی اور جوان بیٹی، بس کل یہی تین فرد تھے۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ اس چوتھے رکن یعنی مہرو کو کہاں چُھپایا جائے اور محل سے کیسے نکالا جائے۔ اسٹاف کوارٹرز کے لیے محل کی پچھلی سمت بھی ایک چھوٹا سا گیٹ تھا، جسے عام اسٹاف خود اور ان کے آنے جانے والےملاقاتی اور مہمان دن کے وقت استعمال کرتے۔ رات کو یہ گیٹ بند کر دیا جاتا تھا۔ دن اور رات دونوں اوقات میں وہاں بھی محافظ عقبی دروازے کے ساتھ بنے ایک گارڈ روم میں ہمہ وقت موجود رہتے۔ دن کو تو سرسری جائزہ لیا جاتا، مگر رات کو عشا کے بعد جب وہ چھوٹا دروازہ بند ہوجاتا، تب اگر کسی کو محل کے اندر آنا یا جانا ہوتا، تو اُس کا باقاعدہ ایک رجسٹر میں اندراج کروانا ضروری تھا۔ استاد اکبر کی بیوی اور بیٹی دونوں گھر سے نکلتے وقت برقع اوڑھا کرتی تھیں اور یہ بات سبھی کے علم میں تھی۔

اُس دن دھوپ نکلتے ہی استاد کی بیوی اور بیٹی باقی آتی جاتی عورتوں کی کسی ٹولی میں بازار سے سودا سلف لینے نکلیں، لیکن کسی کو یہ خبر نہ ہوئی کہ اُن دو سیاہ برقعوں میں ملبوس عورتوں میں سے ایک مہرو ہے، جسے اکبر کی بیٹی شائستہ کا برقع پہنا کر آتی جاتی عورتوں کے جھرمٹ میں باہر نکالا گیا ہے۔ مہرو کو اکبر کی بیوی نے اپنی ایک منہ بولی بہن کے گھر پہنچایا، جو قریبی بازار سے پرے ایک محلے میں تھا۔ اور عذر یہ پیش کیا کہ مہرو اُس کی رشتے دار ہے، اپنے گھر والوں سے ناراض ہوکر بِنا بتائے چلی آئی ہے اور شوہر کی ناراضی کے ڈر سے وہ فی الحال مہرو کو اپنے گھر نہیں لے جاسکتی۔ ایک آدھ دن میں اپنے گھر والے کو ساری صورتِ حال بتا کر وہ مہرو کو اپنے ساتھ لے جائے گی۔ محل واپسی کے لیے بھی اکبر کی بیوی نے یہی طریقہ استعمال کیا اور چند محلّے دار عورتوں کی دوسری ٹولی میں شامل ہوکر بازار سے چند چیزیں خرید کر انہی کے ساتھ محل کے پچھلے دروازے سے اندر داخل ہوگئی اور کسی کو یہ خبر نہ ہوسکی کہ جانے والی دو میں سے وہ ایک ہی واپس لوٹی ہے۔

دھوپ چڑھتے ہی جب نواب کی خادمہ نے تیسری چوتھی مرتبہ جاکر مہرو کے کمرے کے دروازے پر دستک دی، جس کی مہرو روزانہ رات کو سوتے وقت اندر سے کنڈی لگا لیتی تھی، مگر گھنٹہ بھر گزرنے کے بعد بھی دروازہ نہ کُھلا، تو خادمہ نے شور مچا دیا۔ نوکروں نے لاک توڑ کر اندر دیکھا، تو وہاں مہرو کا نام و نشان تک نہ تھا۔ چاروں طرف ہلچل سی مچ گئی۔ نواب بیگم کے بھی ہوش اُڑ گئے۔ فوراً مہرو کی تلاش میں کھوجی دوڑائے گئے، مگر مہرو تو جیسے ہوا میں تحلیل ہوکر غائب ہوگئی تھی۔ تیسرے دن نواب بھی واپس محل پہنچ گیا اور یہ قیامت خیز خبر سُنتے ہی محل میں جیسے ایک بھونچال سا آگیا۔ اندر ایک ایک گھر، ایک ایک کمرا، کونا کُھدرا چھان لیا گیا۔ عملے کے کوارٹرز کی بھی بیسیوں مرتبہ تلاشیاں لی گئیں۔ پہرے پر موجود محافظوں کو تہ خانے میں بند کرکے مار مار کر لہولہان کردیا گیا، مگر مہرو کی خبر نہ ملی۔ استاد اکبر نے تیسرے دن نواب سے رخصت چاہی، مگرنواب کو اپنا ہوش ہی کہاں تھا۔ اکبر کو اجازت مل گئی۔ اکبر کی بیوی اور بیٹی آخری بار نواب بیگم سےجاکر ملیں۔ اور پھر جب وہ تینوں تانگے میں محل سے اپنے سازوسامان کے ساتھ رخصت ہورہے تھے، تو شہریاردُور کھڑا انہیں دیکھ رہا تھا۔ 

استادِ معظم نے جاتے جاتے شہریار سے صرف اتنا کہا کہ وہ اس کی امانت کی آخردَم تک حفاظت کرے گا، لیکن اُسے بھی قسم ہے کہ اب اُس کا نیا پتا، جو وہ صرف شہریار کو بتا کر جارہا ہے، اُس کی خبر وہ موت تک کسی کو نہیں دے گا۔ کیوں کہ اکبر نے یہ طے کرلیا تھا کہ وہ اب اپنے آبائی گھر واپس نہیں جائے گا بلکہ اُس لڑکی کو اُس کی منزل پر پہنچا کے اپنی بیوی اور بیٹی کے ساتھ گم نامی کی زندگی بسر کرنےکسی اور طرف نکل جائے گا تاکہ اگر محل میں کبھی کسی کو اس بات کی خبر ہو بھی جائے کہ شہریار نے اکبر کی مدد سے مہرو کو محل پار کروایا ہے، تو بھی وہ کبھی اکبر اور اُس کے خاندان تک نہ پہنچ سکیں۔

شہریار کی کہانی ختم ہوچُکی تھی، لیکن اُس کے خاموش ہونے کے بعد اُس محل میں جانے کتنی کہانیاں جنم لینےوالی تھیں۔ نواب تو اپنی جگہ یوں ڈھے گیا کہ مجھے لگا اب کبھی اُٹھ نہیں پائے گا۔ اُس کا چہرہ سُرخ اور سانس بپھری ہوئی تھی۔ شہریار باپ کی طرف پلٹا۔ ’’مَیں جانتا ہوں، میں آپ کا مجرم ہوں اور مجھے آپ کی دی ہر سزا قبول ہے، مگر مَیں نے وہی کیا، جو میرے دل کو ٹھیک لگا۔‘‘ ایک باپ کے سامنے اُس کا جواں سال بیٹا ملزم بن کر سرجھکائے کھڑا تھا اور اُس کا جرم بھی تو بہت بڑا تھا، ’’جرمِ محبت‘‘ کیا المیہ تھا کہ باپ اور بیٹا دونوں ہی محبت کربیٹھے تھے، مگر اُن میں سے ایک نے اپنی محبت کو عُمر بھر کے لیے قید کیا، تودوسرے نےاُسے نئی زندگی دے دی۔ نواب تیمور کی آنکھیں سُرخ اور جسم غصّے، پشیمانی سے لرز رہا تھا۔ دفعتاً وہ ایک جھٹکے سے اٹھا اور ہم دونوں سے بِنا نظریں ملائے تیز تیز قدم اٹھاتا ہال سے نکل گیا۔

تبھی مجھے دوسری جانب ہال سے منسلک کمرے اور ہال کی تقسیم کے لیے ڈالے گئے بڑے پَردوں کے پیچھے کچھ ہلچل سی محسوس ہوئی اور مجھے ہمیشہ اپنے اردگرد دو گھورتی آنکھوں کا بھید بھی مل گیا۔ وہ نواب کی بیوی تھی، جو ہمہ وقت ایک بے چین، فکرمند ماں کی حیثیت سے اپنے لاڈلے شہریار پر نظر رکھتی تھی۔ کاش، وہ یہ پہرہ اُس وقت بھی دیتی، جب شہریار نصف شب محل کی بھول بھلّیوں میں بھٹکتا رہتا تھا۔ مجھے ایسا محسوس ہوا، جیسے نواب بیگم اپنے شوہر کی دل جوئی کے لیے اُس کے پیچھے لپکی ہے۔ شہریار اُسی طرح افسردہ، پشیمان سا بیٹھا تھا۔ ’’مَیں نے آپ سے کہا تھا ناں، مَیں کبھی ایک اچھا بیٹا ثابت نہیں ہوسکوں گا۔ مَیں نے ایک بار پھر اُن کا دل دُکھادیا ہے۔ جانےاب وہ کبھی مجھے معاف کرپائیں گے یا نہیں۔‘‘ ’’تمہاری جگہ اگر مَیں بھی ہوتا تو یہی کرتا، مگر تم نے جِسے اس محل کی قید سے رہائی دلوائی تھی، وہ واپس اپنی جھونپڑی نہیں پہنچ پائی۔ 

مَیں اُسی مہرو کی تلاش میں یہاں تک آیا تھا‘‘۔ شہریار پریشانی سےکھڑا ہوگیا۔ ’’کیا… یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ مہرو اپنے گھر نہیں پہنچی، تو پھر وہ کہاں گئی۔ استاد معظم نے تو مجھ سے یہی وعدہ کیا تھا کہ وہ یہاں سے جاتے ہی سب سے پہلے مہرو کو اُس کے ٹھکانے تک پہنچائیں گے۔‘‘ مَیں نے شہریار کو مہرو کے گھر سے لے کر اپنے یہاں تک آنے کی ساری رُوداد سُنادی۔ شہریار سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ ’’تو پھر وہ لوگ کہاں گئے، مجھے میرے استاد نے جو پتا لکھوایا تھا، وہ وہاں بھی نہیں ہیں۔ مَیں نے کئی بار اپنے طورپر معلوم کروایا، خط لکھے، تار بھیجے، تحفےتحائف دینے کے بہانے یہاں سے قاصد بھی روانہ کیے، مگر ہر بار وہاں سے یہی جواب آیا کہ اِس پتے پر اب کوئی نہیں رہتا۔ یاخدایا! وہ لوگ کہاں چلے گئے، کہیں کوئی حادثہ نہ ہوگیا ہو۔‘‘ مَیں نے گہری سانس لی۔ ’’تم اگر مجھ پر اعتبارکرسکتے ہو، تواپنےاتالیق کا پتا مجھے لکھوادو۔ میرے پاس زیادہ وقت نہیں ہے اورمیرا مقصد صرف مہرو کو تلاش کرکے اُسے، اُس کے اپنوں تک پہنچانا ہے اور تم اپنے والدین کو راضی رکھنے کی کوشش کرو۔ دنیا میں صرف اولاد سے نہیں، کبھی کبھار والدین سے بھی غلطیاں ہوجاتی ہیں۔ اولاد کا حُسن سلوک انہیں راہِ راست پر لاسکتا ہے۔ اِس وقت ان دونوں کو تمہاری ضرورت ہے۔‘‘

شہریار نے ایک کاپی پینسل منگوائی اور اس پر کچھ لکھ کر خاموشی سےمیری جیب میں ڈال دیا۔ ’’ایک بات کا دھیان رکھیے گا۔ کوئی آپ کا پیچھا کرتے ہوئے استادِ معظم تک نہ پہنچ جائے۔ اگر انہیں کچھ ہوا، تو مَیں خود کو معاف نہیں کر سکوں گا۔‘‘ اُسی وقت ایک نوکر ہڑبڑایا ہوا اندر آیا۔ ’’وہ جناب! آپ کے کمرے میں جو مہمان ٹھہرا ہوا ہے، اُس کی حالت کچھ ٹھیک نہیں۔ محل کے ڈاکٹر صاحب کو بلوایا ہےمنیجر صاحب نے۔ وہ آپ کو بھی بلا رہے ہیں۔‘‘ مَیں اور شہریار تیزی سے باہر لپکے۔ بخت خان کی حالت واقعی بہت خراب تھی۔ ڈاکٹر نے تھرمامیٹر دیکھا۔ ’’اِنہیں تیز بخار ہے۔ 

شاید رات سردی لگی ہے،مجھے تو نمونیا لگتا ہے۔ بہرحال، میں دوا تجویز کردیتا ہوں۔‘‘ بخت خان نے نقاہت سے آنکھیں کھولیں ’’تم ٹھیک ہے ناں عبداللہ خاناں …‘‘ مَیں نے اُسے تھپکی دی ’’فکر مت کرو، سب ٹھیک ہے…‘‘ شام کو مَیں نےنواب تیمور سے واپسی کی اجازت چاہی، تو وہ بے چین سا ہوگیا۔ ’’ایسی کیا جلدی ہے، ابھی تو آپ کی مہمان نوازی بھی نہیں کرپایا میں۔ اور آپ کے ساتھی کی حالت بھی تو ٹھیک نہیں ہے۔ ‘‘ ’’میرا جانا ضروری ہے نواب صاحب! اور کمال صاحب بھی تو پریشان ہوتے ہوں گے۔ آپ براہِ مہربانی ہمیں اُن کے گھر پہنچادیں۔‘‘ نواب خاموش ہوگیا اور بادل نخواستہ اگلی صبح ہمیں محل کی گاڑی میں کمال صاحب کے بنگلے پر پہنچا دیا گیا۔ کمال صاحب یوں گلے ملے، جیسے میرے آنے کی امید ہی کھو بیٹھے ہوں۔ ’’سچ پوچھو میاں، تو میں واقعی ڈر گیا تھا۔ نواب تیمور جیسے آدمی سے کچھ بھی توقع کی جاسکتی ہے۔‘‘ مَفیں نے بخت خان کو ان کے حوالے کیا۔ اسے باربار غنودگی کے دورے پڑنے لگے تھے اور بخار تھاکہ اترنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ نواب کے زندان خانے میں گزاری شدید سرد راتوں کی ٹھنڈ اُس کی ہڈیوں میں اترچکی تھی۔ مَیں دن رات اس کی تیمارداری میں الجھا رہا۔ 

کمال صاحب بھی میرے ساتھ مصروف رہے، مگرانہوں نے بخت کے بارے میں کوئی سوال نہیں کیا۔ آخر ساتویں دن بخت خان نے نقاہت بھری آنکھیں کھولیں، تو مَیں نے اُس کا ہاتھ تھام کر کہا ’’تمہیں کچھ دن یہاں آرام کرنا ہوگا بخت خان۔ وعدہ کرو، میرے واپس آنے تک یہاں سے کہیں نہیں جائوگے۔‘‘ وہ پریشانی سے بولا۔ ’’تم کدھر جارہا ہے عبداللہ خاناں۔‘‘ میں نے اُسے بتایا کہ میرا مہرو کے پیچھےجانابہت ضروری ہے۔ شہریار نے استاد اکبر کا جو پتا دیا ہے۔ مجھے اب اگلی کڑی وہیں سے مل سکتی ہے۔ بخت خان میری قسم کے آگے مجبور ہوکر رہ گیا اور مَیں اُسے کمال صاحب کےحوالےکرکے رات کے اندھیرے میں نواب پور اسٹیشن آپہنچا۔ یہاں سے مجھے دو ٹرینیں بدل کر اکبر کے شہر پہنچنا تھا۔ مَیں نے خود کو پوری طرح چُھپا رکھا تھا اور کمال صاحب کے گھر سے نکلتے وقت بھی پوری احتیاط کی تھی کہ کوئی مجھے دیکھ نہ لے، ٹرین آچکی تھی۔ مَیں ٹکٹ لے کر اپنے ڈبے کی طرف بڑھا، مگر ٹھیک اُسی وقت پیچھے سے کسی نے مجھے آواز دی۔ ’’ہم سے مل کر نہیں جائیں گے جناب۔‘‘ مَیں گھبرا کر پلٹا۔ (جاری ہے)  

تازہ ترین