اسلام آباد (انصار عباسی) وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے پشاور کے بس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) کیس میں تحقیقات شروع کر دی ہے۔
منگل کو دی نیوز کے رابطہ کرنے پر ایجنسی کے ترجمان نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ بی آر ٹی کیس میں تحقیقات پہلے ہی پشاور ہائی کورٹ کی ہدایات کے مطابق شروع کی جا چکی ہیں۔ کے پی حکومت اعلان کر چکی ہے کہ وہ پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کیخلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرے گی تاکہ ایف آئی اے کی تحقیقات کو روکا جا سکے۔
اگر تحقیقات جاری رہیں تو خدشہ ہے کہ پی ٹی آئی اور کے پی میں اس کی حکومت کو زبردست ہزیمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
نہ صرف کے پی کے وزیر اطلاعات شوکت یوسف زئی نے کہا ہے کہ صوبائی حکومت پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کرے گی بلکہ کے پی کے ایڈووکیٹ جنرل شمائل احمد بٹ بھی گزشتہ ہفتے کہہ چکے ہیں کہ حکومت پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کیخلاف رواں ہفتے سپریم کورٹ میں ا پیل دائر کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ وقار احمد سیٹھ اور جسٹس احمد علی پر مشتمل دو رکنی بینچ نے 14؍ نومبر کو بی آر ٹی کے حوالے سے فیصلہ سنایا تھا اور ایف آئی اے کو ہدایت دی تھی کہ پروجیکٹ کی تحقیقات کی جائیں اور 45؍ روز میں رپورٹ جمع کرائی جائے۔
2018ء میں پشاور ہائی کورٹ نے نیب کو بی آر ٹی کی تحقیقات کا حکم دیا تھا لیکن اس کے بعد کے پی حکومت نے سپریم کورٹ سے رجوع کرکے حکم امتناع لے لیا۔ 5؍ ستمبر 2018ء کو اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار کی زیر قیادت سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد رکوا دیا تھا۔
سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ اسی دن آیا تھا جس دن نیب پشاور ہائی کورٹ میں اپنی رپورٹ جمع کرانے والا تھا۔
جسٹس وقار احمد سیٹھ کی جانب سے پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالنے کے بعد، انہوں نے ایک اور جج جسٹس مسرت ہلالی کے ہمراہ نیب کو ہدایت دی تھی کہ وہ بی آر ٹی پروجیکٹ کی بڑھتے تخمینے اور حکومت کی نا اہلی کے متعلق تحقیقات 6؍ ماہ میں مکمل کرے۔
ایک مرتبہ پھر 14؍ نومبر کو پشاور ہائی کورٹ نے ایف آئی اے کو تحقیقات کا حکم دیا اور پروجیکٹ میں ہونے والی بد انتظامی اور غلط اقدامات، فزیبلٹی رپورٹ کے بغیر ہی پروجیکٹ کے آغاز، جعلی اور دھوکہ دہی پر مشتمل فنانشل ماڈل، خراب پلاننگ کے نتیجے میں پروجیکٹ کا تخمینہ 35؍ فیصد تک بڑھنے جیسے معاملات کی نشاندہی کی۔
’’ممکنہ سوالات‘‘ اور ’’غور طلب باتیں‘‘ اس فیصلے میں شامل تھیں اور ایف آئی اے سے کہا گیا تھا کہ وہ ان پر دھیان دے؛ اس میں ممکنہ طور پر مشکوک معاہدوں، کرپشن اور اعلیٰ سیاسی اور بیوروکریسی کے کھلاڑیوں کے درمیان گٹھ جوڑ کے امکانات کا ذکر کیا گیا تھا۔
فیصلے میں کہا گیا تھا کہ پی ٹی آئی حکومت نے یہ پروجیکٹ کسی بصیرت اور منصوبے کے بغیر ہی شروع کر دیا، اور یہ سوال بھی اٹھایا کہ مناسب انداز سے فزیبلٹی اور پی سی اون کے بغیر ہی اس پروجیکٹ پر کام کیوں شروع کیا گیا۔ فیصلے میں ’’غور طلب باتیں‘‘ کے حصے میں جو چونکا دینے والی باتیں کہی گئی ہیں وہ یہ ہیں:… پرویز خٹک اور ڈی جی پی ڈی اے وٹو، اعظم خان اور ڈی جی پی ٹی اے اسرار، شہاب علی شاہ اور شاہ محمد، وزیر ٹرانسپورٹ کے درمیان کیا گٹھ جوڑ ہے؟
مطلوبہ شیئرز میں ہیرا پھیری کیلئے یہ گٹھ جوڑ کیسے قائم ہوئے؟ وزیراعلیٰ ہائوس میں ہفتہ وار اجلاس ہوتے تھے۔ پروجیکٹ پر مناسب رابطہ کاری نہ ہونے کی وجہ سے قومی خزانے کو نقصان ہوا۔
اس بات کی تحقیق ضروری ہے کہ کنسلٹنسی کے حصول اور دیگر اہم معاملات کے فیصلے اس وقت کیے گئے جب اس پروجیکٹ کی منظوری ہی نہیں دی گئی تھی۔ ایک کنسلٹنگ کمپنی (کالسنز اینڈ مقبول) کی خدمات کیوں حاصل کی گئیں جب اس کمپنی کو پنجاب میں ایسے ہی ایک پروجیکٹ کیلئے بلیک لسٹ کر دیا گیا تھا۔
کنسلٹنگ کمپنی (کالسنز اینڈ مقبول) نے سیکریٹری ٹرانسپورٹ، ڈی جی پی ڈی اے اور کمشنر پشاور کو مہنگی گاڑیاں دیں۔ جب ان افسران کے پاس اپنی گاڑیاں ہیں تو انہوں نے یہ گاڑیاں کیوں قبول کیں؟
وزیراعلیٰ کے اجلاس میں کس نے 220؍ بسیں خریدنے کی منظوری دی؟ مسابقتی لحاظ سے دیکھا جائے تو پنجاب میں طویل روٹس کیلئے صرف 65؍ بسیں کیوں استعمال کی جا رہی ہیں؟
بی آر ٹی ٹریک کیلئے لوہے کے جنگلے (آئرن گرل) کا ٹھیکہ انتہائی مہنگا تھا اور ایک بیوروکریٹ اور ایک سابق صوبائی وزیر اس ٹھیکے میں شراکت دار تھے۔ پی ڈی اے کی جانب سے معیار اور مقدار کی جانچ کیے بغیر ہی ٹھیکے کی رقم پیشگی اور مکمل ادا کی گئی۔
مالی لحاظ سے اس ٹھیکے کو مزید منافع بخش بنانے کیلئے لوہے کے جنگلے کا ڈیزائن تبدیل کیا گیا۔ بی آر ٹی پروجیکٹ کی نگرانی کیلئے پروجیکٹ مینجمنٹ یونٹ (پی ایم یو) نامی ادارہ قائم کیا گیا تھا جو جون 2019ء کو ختم کر دیا گیا حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ منصوبے پر اب بھی کام جاری ہے۔
ارادہ یہ لگتا ہے کہ مستقبل میں اگر کوئی انکوائری / انوسٹی گیشن ہو تو اس کے امکانات کو ختم کرنے کیلئے ریکارڈ تباہ کر دیا جائے۔ تفصیلی انجینئرنگ ڈیزائن کیلئے نچلی سطح کے کنسلٹنٹ کی خدمات حاصل کی گئیں اور یہ لوگ اتنے بڑے پروجیکٹ کو سنبھالنے کی قابلیت نہیں رکھتے تھے۔
پروجیکٹ کی نگرانی (سپرویژن) کا کام بھی اسی کنسلٹنسی کمپنی کو دیدیا گیا۔ روزِ اول سے ہی تمام سرگرمیاں بے ترتیب رہیں جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ موجودہ ڈھانچہ ضایع ہوگیا اور اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا جا سکا۔
پروجیکٹ کا بنیادی ٹھیکہ نچلی سطح پر مزید چھوٹے ٹھیکے داروں کو (Sublet) دیدیا گیا نتیجتاً کام کا معیار تباہ ہوگیا کیونکہ چھوٹے ٹھیکے داروں کے پاس کام کی مطلوبہ مہارت نہیں۔
باعث شرمندگی وقت وہ تھا جب یہ بات سامنے آئی کہ تعمیر شدہ یونٹس کو ضایع کرنا پڑے گا ساتھ ہی بس سروس منصوبے کی پرسکون انداز سے تعمیرات کیلئے مطلوبہ باتوں پر عمل نہیں کیا گیا۔
پشاور ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں ’’غور طلب باتیں‘‘ کے حصے میں کہا ہے کہ پی ٹی آئی کی بصیرت سے عاری حکومت نے ایک ہی شہر پر کی صورت میں حاصل کی گئی رقم خرچ کر دی اور دور افتادہ علاقوں کے لوگوں کو نظر انداز کر دیا۔
فیصلے میں پروجیکٹ اور اس پر عملدرآمد کی خامیوں اور خلاف ورزیوں کو بھی نمایاں کیا گیا ہے۔