• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

قانون دانوں کے ہاتھوں انسانیت قتل، لاہور کے سیکڑوں وکلاء دل کے اسپتال پر چڑھ دوڑے، ایمرجنسی، ICU اور وارڈ میں توڑ پھوڑ، 3 مریض جاں بحق

قانون دانوں کے ہاتھوں انسانیت قتل


لاہور (نمائندہ جنگ، مانیٹرنگ سیل، نیوز ایجنسیاں) لاہور میں سیکڑوں وکلاء امراض قلب کے اسپتال پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی پر چڑھ دوڑے، بڑی تعداد میں مشتعل وکلاء آپریشن تھیٹر، آئی سی یو اور وارڈ میں گھس گئے، اسپتال کی قیمتی مشینیں اور دیگر آلات توڑ دیئے،عملے کو تشدد کا نشانہ بنایا، مریضوں کے آکسیجن ماسک اتار دیئے، اسپتال میں ہنگامے اور توڑ پھوڑ کے دوران طبی امداد نہ ملنےسے 4 مریض جاں بحق ہوگئے، وکلا نے ہنگاموں کے دوران پولیس موبائل، ڈاکٹرز اور مریضوں کی گاڑیاں بھی جلا دیں، وکلاء نے وزیر اطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان پر بھی تشدد کیا، وکلا کو منتشر کرنے کیلئے پولیس نے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کی شیلنگ کی، ہنگامے کے دوران پتھرائو، شیلنگ اور لاٹھی چارج سے متعدد ڈاکٹرز، شہری، لواحقین اوروکلا ءزخمی ہوگئے۔ 

پولیس نے متعدد وکلا کو گرفتار کر لیا۔ رپورٹس کے مطابق وکلا ءاور ڈاکٹروں کے درمیان جاری تنازع کے باعث گزشتہ روز پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میدان جنگ بن گیا جسکے باعث مریض اور ڈاکٹرز اور انکے لواحقین محصور ہو کر رہ گئے۔ اس دوران 70سالہ مریضہ گلشن بی بی سمیت 7مریض جان بحق بھی ہوگئےجبکہ ڈاکٹرز، مریضوں، نرسز، لواحقین اور شہریوں نے بھاگ کر جانہیں بچائیں۔ بعد ازاں رینجرز کو طلب کیا گیا، جسکے بعد درجنوں وکلا ءکو گرفتار کرلیا گیا۔ ،جس کے بعد وکلاءنے جی پی او چوک پر رات گئے تک احتجاج کیاجبکہ درجنوں مریضوں کو تشویشناک حالت میں منتقل کردیا گیا اس دوران صوبائی وزیر اطلاعات کو مبینہ طور پر اغوا ءکرنے کی کوشش اور تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا جبکہ متعدد صحافیوں پر بھی تشدد کیا گیا۔ جو شہری وکلاء گردی کی موبائلز ویڈیو بنانے کی کوشیش کرتا تو اسے بھی موبائل چھین کر تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔ تفصیلات کے مطابق پی آئی سی میں چند روز قبل وکلا اور پیرا میڈیکل اسٹاف کے درمیان تنازع کے دوران وکلاء پر تشدد کیا گیا جس پر وکلاء کی جانب سے نامعلوم افراد پر دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا جس پر وکلا ءقیادت نے احتجاج کیا کہ متعلقہ ملزمان کو گرفتار کیا جائے تاہم ڈاکٹروں کی جانب سے مزاحمت کی گئی جبکہ یہ لڑائی پیرامیڈیکل کی تھی لیکن ڈاکٹرز اس میں کود گئے اور یہ معاملہ طول اختیار کر دیا اور متعلقہ ذمہ داران کو گرفتار نہیں کیا گیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پولیس نے پی آئی سی کے پیرا میڈیکل اسٹاف کے ظفر سمیت 4 اہلکاروں کو حراست میں لے لیا،جنہیں بعد ازاں چھوڑ دیا گیا جسکا وکلا ءکو رنج تھا، اس دوران ڈاکٹرز نےوکلاء سے معذرت کیلئے پریس کانفرنس بھی کی لیکن وکلا ءنے موقف اختیار کیا کہ پہلےذمہ داران کو گرفتار کیا جائے بعد ازاں معافی ہوگی اس دوران گزشتہ روز پی آئی سی کے ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کےگذشتہ رات ڈاکٹر عرفان کی جانب سے جلسےمیں اشتعال انگیز خطاب کرتے ہوئے وکلاء برادری کی تضحیک اور تمسخر اڑایا گیااور ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی تھی۔ جس پر وکلا ءکی ایک بڑی تعداد تقریباً گیارہ بجے دن پی آئی سی کے گیٹ پر اکٹھی ہونی شروع ہوئی جس نے کچھ دیر بعد ہی اسپتال کی ایمرجنسی میں داخل ہو کر پتھرائو شروع کردیا اس دوران ڈاکٹرز سمیت دیگر اسپتال کا عملہ مریضوں کو چھوڑ کر بھاگ گیا تاہم وکلا ءنے اسکے باوجود ایمرجنسی گیٹ میں داخل ہو کربعض مریضوں کے ماسک اور انہیں لگی خون اور ادویات کی ڈرپس بھی اتار دیں جس پر لواحقین اپنے مریضوں کو ریسکیو کرتے ہوئے ہاتھوں میں ڈرپس پکڑے اسپتال سے بھاگتے نظر آئے۔ اس دوران وکلاء کی تعداد میں مزید اضافہ ہوا تو انہوں نے تقریباً ایک گھنٹے تک اسپتال کے تمام دروازے اور شیشے توڑ دیئے۔ اس دوران پولیس مکمل خاموش تماشائی کا مظاہرہ کرتی رہی جس پر شہریوں نے مطالبہ کیا کہ اگر پولیس فوری وکلاء کو روکتے تو یہ معاملہ اتنی شدت اختیار نہ کرتا، اس دوران میڈیا پر وکلاء گردی کی کارروائیاں براہ راست دکھائی گئیں۔ تو پولیس حکام نے نوٹس لیا تو بھاری تعداد میں لاہور بھر کیے تمام تھانوں اور پولیس لائنز سے پولیس کو طلب کرلیا گیا۔ پولیس کی جانب سے واٹر کینن کو بھی بلا لیا گیا، ابتدائی طور پر اینٹی رائڈ فورس کے اہلکاروں کو طلب کیا گیا جن سے معاملہ کنٹرول نہیں ہوا تو فوری طور پر ڈی آئی جی آپریشنز، ڈی آئی جی انوسٹی گیشن سمیت دیگر افسران موقع پر پہنچے تو وکلاء نے ڈ ی آئی جی انوسٹی گیشن کو بھی محصور کرلیا جس پر پولیس نے لاٹھی چارج شروع کردیا تو وکلا ءنے بھی پتھرائو شروع کیا اس دوران ڈاکٹروں کی جانب سے بھی پتھرائو شروع ہوگیا، جس سے متعدد ڈاکٹرز اسپتال کا عملہ نرسز اور وکلاء زخمی ہوگئے، جس پر وکلاء مزید بپھر گئے اور انہوں نے اسپتال کے باہر کھڑی پولیس وین کو آگ لگا دی جبکہ درجنوں گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کو بھی ڈنڈے مار کر توڑ دیئے۔ 4گھنٹے تک میدان جنگ بنے رہنے کے بعد صوبائی وزیر اطلاعات فیاض چوہان اور صوبائی وزیر صحت یاسمین راشد بھی موقع پر پہنچ گئیں۔ اس دوران فیاض الحسن چوہان میڈیا سے گفتگو کرنے لگے تو وکلاء نے انہیں بھی بالوں سے پکڑ کر کھینچا اور ان پر تھپڑوں کی بارش کر دی اور انہیں لیکر جانے لگے تو فیاض الحسن نے بھاگ کر جان بچائی۔ بعدازاں فیاض الحسن نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وکلاء کی جانب سے مجھے اغواء کرنے کی کوشش کی گئی ہے جبکہ وکلاء نے آج جو کام کیا ہے اس حوالے سے ان کیخلاف سخت قانونی کارروائی کی جائیگی۔ اس دوران یاسمین راشد کو بھی اسپتال میں محصور کر دیا گیا اور وہ واپس نکلنے لگیں تو انہیں بھی نہیں نکلنے دیا گیا، جب صورتحال کنٹرول سے باہر ہوئی تو پنجاب حکومت نے رینجرز کی خدمات طلب کیں۔ اس دوران وکلاء نے جیل روڈ کو بلاک کر کے ٹائروں کو آگ لگا دی تو رینجرز نے فرنٹ لائن پر آ کر وکلاء کو احتجاج کرنے سے روکا تو وکلاء بھاگ نکلے تاہم پولیس نے بھاگ بھاگ کر وکلاء کو گرفتار کرنا شروع کر دیا جبکہ متعدد وکلاء پر پولیس نے لاٹھی چارج کیا تو انکی حالت نازک ہوگئی جبکہ بعض وکلاء جیلانی پارک کے راستے فرار ہوگئے، بعض وکلاء کوٹ اتار کر اپنی پہچان چھپا کر بھی فرار ہوگئے۔ پولیس نے گرفتار وکلاء کو نامعلوم مقامات پر منتقل کر دیا۔

تازہ ترین