• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لاہور میں دل کے اسپتال میں جو کچھ ہوا وہ نہ صرف قابلِ مذمت ہے بلکہ کچھ حوالوں سے اندوہ ناک بھی تھا۔ چند شدت پسند وکلا کی جو وڈیوز سامنے آئیں وہ بہت پریشان کن تھیں لیکن ڈاکٹرز کے طرزِ عمل کو کیا کہیے گا؟

حکومت اور پولیس کے رویے پر کیوں نہ ماتم ہو؟ میڈیا کی عمومی طور پر یکطرفہ کوریج کو کیسے نظر انداز کیا جائے؟ وکلا، ڈاکٹرز، انتظامیہ، پولیس اور میڈیا والے تمام کے تمام کسی نہ کسی طرح مراعات یافتہ مڈل کلاس میں شمار ہوتے ہیں، لیکن اصل نقصان کس کا ہوا؟ بےچارے مریض، جن میں سے بہت سے اسپتال آنے تک کا خرچہ بھی مشکل سے اکٹھا کر پاتے ہیں اور سرکاری اسپتالوں کی ناکافی سہولتوں پر ہی اکتفا کرنے پر مجبور ہیں، انکے ساتھ کیا بیتی، کچھ تو بیچارے جان سے بھی گئے۔

اور آگے آگے کیا بیتے گی، کہ اسپتال میں مشینری، بلڈنگ، انفراسٹرکچر کا جو نقصان ہوا، پھر ڈاکٹروں کی ہڑتالیں علیحدہ۔ دوسری طرف وکلا پورے ملک میں ہڑتال پر ہیں، انصاف کیلئے آنے والے لاکھوں سائلین خالی ہاتھ لوٹیں گے۔

اسی دوران اوکاڑہ سے ایک وکیل کے اغوا کا واقعہ ہوا لیکن بار کونسلیں خاموش اور اسلام آباد میں ہائیکورٹ بار کے سیکرٹری عمیر بلوچ کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی خبروں کی زینت بنی۔

وکلا برادری کو آج نہایت سنجیدگی سے غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹروں کی طرف سے زیادتی اگر وجہ ہو تو بھی تشدد کا جواز تو کسی صورت نہیں دیا جا سکتا۔

کسی حد تک تشدد کا کلچر سرکاری کالجوں اور یونیورسٹیوں سے ساتھ آتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھائی سے زیادہ کچھ سیاسی جماعتوں اور کچھ خود ساختہ طلبہ تنظیموں کی سیاست کی وجہ سے تشدد، دھونس اور دھمکی کا ماحول عود آیا ہے، جس کو نہ صرف سیاسی جماعتوں بلکہ ریاست کی جانب سے خاموش سرپرستی حاصل ہے کیونکہ یہ قوتیں طلبہ تنظیموں کا اپنے مخصوص مفادات کو تحفظ دینے اور سیاسی نظام میں اسٹیٹس کو کو برقرار رکھنے کیلئے استعمال کرتی ہیں۔

زیادہ تر انتہا پسندی اور تشدد کا کلچر سزا نہ ملنے کے خوف سے اور زیادہ مضبوط ہوتا ہے۔ وہیں سے یہ کلچر پروفیشنل تنظیموں کی سیاست کا حصہ بن جاتا ہے، ڈاکٹروں اور وکلا کی تنظیمیں اس مظہر کا دوسروں کی نسبت زیادہ شکار ہیں۔

اس کلچر کی وجہ سے سب سے پہلے تعلیمی اداروں سے تعلیم اور پروفیشنل اداروں سے پروفیشنلزم رخصت ہوتاہے۔ یہی اب عملی طور پر ہو رہا ہے۔

اس صورتحال کا ایک اور افسوسناک پہلو بنچ اور بار کے کشیدہ تعلقات کی صورت میں سامنے آ رہا ہے۔ ایک طرف کچھ حالیہ فیصلوں، جن کا تعلق آئین اور قانون کی بالا دستی اور پاکستان کی ناخوشگوار آئینی اور سیاسی تاریخ کے حوالے سے ہے، پر وکلا میں پہلے ہی بےچینی بڑھ رہی ہے اور دوسری طرف وکلا کی آئے روز کی ہڑتالوں اور تشدد کے واقعات سے بنچ کی طرف سے بھی تشویش دیکھی جا رہی ہے۔

مزید تشویشناک بات وکلا اور میڈیا کے تعلقات میں کشیدگی کی صورت میں سامنے آ رہی ہے۔ وکلا کو میڈیا سے یکطرفہ پروپیگنڈہ اور اہم معاملات میں قومی اور صوبائی وکلا تنظیموں کے بلیک آؤٹ کی شکایت ہے تو میڈیا کو وکلا کی جانب سے تشدد کے واقعات پر گلہ ہے۔ ان حالات میں وکلا کو سب سے پہلے اپنے طرز عمل پر غور کرنا چاہئے لیکن دوسرے اسٹیک ہولڈرز کو بھی وکلا اور آئین و قانون کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا ازالہ کرنا ہوگا۔

اس ساری افسوسناک صورتحال میں ملک کی مجموعی غیر مستحکم سیاسی صورتحال کے پیشِ نظر سازشی تھیوریاں بھی گردش کر رہی ہیں۔ اور موجودہ نظام کے تماشے کے حوالے سے جاری پُر اسراریت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کچھ لوگ افتخار عارف کی کمال کی غزل گنگناتے ہوئے بھی نظر آ رہے ہیں کہ

کہانی میں نئے کردار شامل ہو گئے ہیں

نہیں معلوم اب کس ڈھب تماشا ختم ہو گا

کہانی آپ الجھی ہے کہ الجھائی گئی ہے

یہ عقدہ تب کھلے گا جب تماشا ختم ہو گا

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین