کراچی کےپوش علاقے گذشتہ کچھ برسوں سے سماج دشمن عناصر اور اغواکاروں کی زد میں ہیں۔ڈیفنس اور کلفٹن جیسے علاقوں میں پے درپے واقعات نے پولیس کی کارکردگی پرسوالات کھڑے کر دیئے ہیں۔کچھ برس قبل شاہ رخ جتوئی کی فائرنگ سے جاں بحق ہونے والا شاہ زیب ہو،اینٹی کار لفٹنگ سیل کے اہلکاروں کی فائرنگ سے نوجوان انتظار کا قتل ہو،ڈیفنس سگنل کے قریب پولیس اہلکاروں کی فائرنگ سے معصوم بچی امل عمر کا قتل ہو ،کینٹ اسٹیشن کے قریب گذری سے تعاقب کر کے پولیس اہلکاروں کی فائرنگ سے نوجوان نبیل ہود بھائی کا قتل ہو،چائنیز قونصلیٹ پر حملہ ہو ،نوجوان لڑکی بسمہ کا اغواہ یا طالبہ دعا منگی کا اغواہ،پوش علاقوں میں ملزمان کی پے درپے وارداتوں کے آگے پولیس بے بس نظر آتی ہے۔30نومبر کی شب ڈیفنس، خیابان بخاری کمرشل سے کار سوار ملزمان طالبہ دعا منگی کو اغواء کر کے لے گئ۔،ملزمان نے دعاکے ساتھ موجود اس کے دوست حارث سومرو کو فائرنگ کر کے زخمی کر دیا۔
مذکورہ واقعہ کے بعد پولیس افسران کی خاموشی نے کئی سوالات کو جنم دیا۔6اور7دسمبر کی شب دعا منگی ڈرامائی طور پر اپنے گھر پہنچ گئی تاہم تاحال کراچی پولیس کی جانب سے واقعہ کے بارے میں کوئی تفصیلی بیان یا موقف سامنے نہیں آیا ہے،پولیس نے اس سارے معاملے میں پر اسرار خاموشی اختیار کیےرکھی اور دعا منگی کے واپس گھر پہنچے کے بعد بھی پولیس معاملے کی تہہ تک نہیں پہنچ سکی۔پولیس افسران جو اپنی چھوٹی سے چھوٹی کارکردگی کو بھی بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں اتنے بڑے واقعہ پر اب تک خاموش ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ دعامنگی کیس میں میڈیا میں اب تک جو بھی سامنے آیا ہے وہ پولیس کی لائن پر چلتا رہا ،اس حوالے سے اب تک جو کچھ بھی خبروں کی زینت بنا اس میں سے کچھ بھی سچ نہیں ہے بلکہ اصل حقائق کچھ اور ہیں جسے دانستہ طور پر چھپایا جا رہا ہے۔
اب تک سامنے آنے والی تفصیلات جو کہ غیر مصدقہ اطلاعات پر مبنی ہیں، ان کے مطابق درخشاں تھانے کی حددو ڈیفنس فیز6 خیابان بخاری کمرشل پر نامعلوم ملزمان نے لڑکے کو گولی مار کر زخمی کرنے کے بعد لڑکی کو اغواء کرلیا تھا۔ پولیس کی ابتدائی تفتیش کے مطابق وہ دونوں بخاری کمرشل ایریا پر سڑک پر پیدل جا رہے تھےکہ کار میں سوار ملزمان وہاں پہنچے اور لڑکے کو فائرنگ کرکے شدید زخمی کردیا جبکہ لڑکی کو زبردستی کار میں اغوا کرکے فرار ہوگئے۔واقعہ کی ابتدائی سی سی ٹی وی فوٹیج میں لڑکی دعا منگی اورلڑکے حارث سومرو کو چہل قدمی کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔
دونوں جیسے ہی گلی میں مڑتے ہیں مسلح ملزمان فائرنگ کرکے نوجوان کو زخمی کرتے ہیں اور لڑکی کو اغوا کر لیتے ہیں۔ اس واقعہ کی دوسری سی سی ٹی وی فوٹیج میں ملزمان کی گاڑی کو واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہیں،ملزمان چلتی گاڑی کا دروازہ بند کر کے فرار ہوتے ہیں۔دعا منگی کے اغوا اور نوجوان کے زخمی ہونے کے واقعے کی تفتیش کے دوران انکشاف ہوا کہ دعا کو اغواء کرنے والے ملزمان اور پولیس کے درمیان واقعہ کے پانچ روز بعد مقابلہ ہوا تھا۔
تفتیشی حکام کے مطابق عزیزبھٹی کے علاقے میں اغواء کاروں کے ساتھیوں سے پولیس کا مقابلہ ہوا،پولیس کو دیکھ کر نقاب پوش ملزمان نے فائرنگ کی تھی جس سے دوپولیس اہلکار زخمی ہوگئےتھے۔تفتیشی حکام کو پولیس کی فائرنگ سے ایک ملزم کے زخمی ہونے کا شبہ ہے، تفتیشی حکام کے مطابق فیروزآباد کے علاقے سے چھینی گئی گاڑی اغوا میں استعمال کی گئی۔ پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ دعا منگی کے اغواء کے دوران زخمی ہونے والے اس کے دوست حارث پرکیے ہوئے فائر اور پولیس مقابلے میں ملنے والے خول میچ کر گئے ہیں۔
ملزمان نے گاڑی پر جعلی نمبر پلیٹ لگاکر واردات کی۔دعا منگی کے اغواکار اٹلی کا نمبر استعمال کرتے رہے۔ ذرائع کے مطابق دعا منگی کے اہل خانہ کو اغواکاروں نے ہر آدھے گھنٹے بعد کال کی، اغواکاروں نے دعامنگی کے وائس میسج ریکارڈ کرکے بھی اہل خانہ کو بھیجے، اغواکاروں نے دعا منگی کے والد کو تاوان کی ادائیگی کے لیے 5 دسمبر کو عزیز بھٹی پارک کے قریب بلایا تھا۔
پولیس ذرائع کے مطابق دعا کے والد تاوان کی رقم لے کر عزیز بھٹی پارک کے قریب پہنچے، تاوان کی وصولی سے پہلے موٹرسائیکل سوار پولیس اہلکار وہاں پہنچ گئے۔ انہں دیکھ کر اغواء کار فائرنگ کرتے ہوئے موقع سے فرار ہوئے۔ ان کی فائرنگ سے دو پولیس اہلکار زخمی ہوئے، مبینہ طور پر ایک ملزم بھی زخمی ہوا۔ 6دسمبر کو اغواکاروں نے دعا کے والد کو تاوان کے ساتھ بلایا، عزیز بھٹی میں ناکام مقابلہ کی وجہ سے دعا کے والد نے پولیس کو اعتماد میں نہ لیا، تاوان کی وصولی پر اغواکاروں نے دعا کو 6 دسمبر کی رات نامعلوم مقام پر چھوڑ دیا۔
ذرائع کے مطابق عزیز بھٹی پارک میں ہونے والا ناکام مقابلہ اہل خانہ کے لیے پولیس پر عدم اعتماد کی وجہ بنا۔دعا منگی کی رہائی تاوان کے بعد عمل میں آئی، تاوان کی ادائیگی جمعے6سمبر کو کی گئی اور اس کے بعد رات میں دعا گھر واپس آگئی۔اغوا میں ملوث گروہ نہایت ہائی ٹیک ہے، ساری باتیں سوشل میڈیا کے ذریعے کی گئیں اور دعا کے گھر ویڈیو کال کر کے گھر کی صورت حال کا جائزہ بھی لیا گیا۔ اغوا کاروں نے دعا منگی کے گھر ویڈیو کال کی اور گھر کا جائزہ لینے کے بعد تاوان کی رقم کم ہوئی جو اس سے قبل بہت زیادہ طلب کی گئی تھی۔
ذرائع بتاتے ہیں کہ یہ شبہ ہے دعا منگی کے اغوا میں ملوث گروہ اس سے پہلے بھی شہر میں وارداتیں کرچکا ہےاور مئی میں ڈیفنس سے ہی اغوا ہونے والی بسمہ کے اغوا میں بھی یہی گروہ ملوث تھا۔اغوا کاروں نے بسمہ کیس میں بھی اس کے گھر ویڈیو کال کی تھی اور وہ کار کی نمبر پلیٹ پر غیر ملکی نمبروں کا استعمال کر تے رہے۔بسمہ کے اغوا کو 7ماہ گزر چکے ہیں، ملوث ملزمان کی گرفتاری عمل میں نہیں آسکی۔ بسمہ کی رہائی بہت بھاری تاوان کی ادائیگی کے بعد عمل میں آئی تھی۔
تفتیشی حکام کے مطابق دعا منگی کے اغوا کے بعد تاوان طلب کرنے کے لیے یکم دسمبر کو کی گئی پہلی کال سے لے کر 6 اور 7 دسمبر کی درمیانی شب تک کا ملزمان کا آخری رابطہ واٹس ایپ کے ذریعے بیرون ملک سے کیا گیا۔ پولیس کو شبہ ہے کہ ملزمان کراچی میں اپنی فیلڈ ٹیم سے بھی سوشل میڈیا کے ذریعے ہی مسلسل رابطے میں تھے۔
ملزمان کی ہدایت کے عین مطابق اہل خانہ پولیس اور متعلقہ اداروں سے قطعی طور الگ ہوگئے تھے۔تفتیشی ذرائع کے مطابق بسمہ سلیم کی رہائی کے لیے تاوان کی ادائیگی کے معاملات بھی انٹرنیٹ پر ہی طے کئے گئے تھے۔ دعا منگی کو بھی بسمہ سلیم کی طرح رات گئے تاوان کی ادائیگی کے بعد رہا کیا گیا ہے۔ ملزمان دعا کا موبائل فون بھی اغوء کے مقام پر پھینک کر فرار ہوئے تھے۔
دوسری جانب دعامنگی کی بازیابی کے بعد پولیس نے دعا کابیان قلمبند کرلیا ہے ، رہائی کے عوض کتنا اور کہاں تاوان دیا گیا یہ بات واضح نہیں ہوسکی ۔ پولیس ذرائع کے مطابق دعامنگی نے اپنے بیان میں بتایا کہ اسے ایک کمرے میں قید رکھا گیا تھا جہاں اغواءکاروں نے ایک ہاتھ، ایک پاؤں باندھ کر بٹھائے رکھا۔اسے وہیں کھانا دیا جاتا تھا،کھانا دیتے وقت آنکھوں سے پٹی کھولی جاتی تھی،جب پٹی کھلتی تو سامنے ایک ٹی وی ہوتا تھا، جو ملزم کھانالاتا تھا وہ اپنی شناخت چھپانے کے لیے ہمیشہ اس کے پیچھے کھڑا رہتا تھا۔
اغواءکاروں نے مجھ پر کوئی تشدد نہیں کیا، رہائی کے وقت ملزمان ڈیفنس میں نجی شاپنگ مال کے قریب چھوڑ کرچلے گئے ۔ ملزمان کون تھے اس کے بارے میں اسےکوئی علم نہیں تاہم وہ تمام افراد مقامی زبان میں بات کررہے تھے ۔ پولیس ذرائع کے مطابق دعا کی واپسی کے عوض تاوان کی کتنی رقم دی گئی اور کہاں ادا کی گئی اس کے حوالے سے ابھی تک کوئی بات نہیں بتائی گئی ہے ۔
تاہم یہ تمام باتیں اور اطلاعات پولیس کی جانب سے مختلف ذرائع سے چلوائی گئیں اور اب تک اس بات کی کو ئی تصدیق نہیں ہے کہ آیا یہ تمام تر معلومات حقیقت پر مبنی ہیں یا نہیں۔آئی جی سندھ اور کراچی پولیس چیف کو اس حوالے سے ایک پالیسی مرتب کرناہو گی کی پولیس کسی بھی واقعہ کے اصل حقائق سے عوام کو آگاہ کرے بصورت دیگر ان واقعات کے غیر مصدقہ رپورٹنگ ہوتی رہے گی جس سے معاملات سلجھنے کے بجائے الجھتے چلے جائیں گے۔