• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سانحہ اے پی ایس کو 5 برس بیت گئے


پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں دہشت گرد حملے کو5 سال بیت گئے، سفاک حملہ آوروں نے اسکول پرنسپل طاہرہ قاضی سمیت 150 کے قریب طلبہ اور اساتذہ کو شہید کیا تھا۔

اس سانحے نے پوری قوم کو دہشت گردی کا ناسور ختم کرنے کے لیے متحد کیا اور سیکورٹی اداروں نے کامیاب کارروائیاں کرکے وطن کو دہشت گردوں سے پاک کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔

پاکستان کی تاریخ میں 16 دسمبر 2014 وہ بدقسمت دن تھاجس نے ہر محب وطن پاکستانی کو دلگیر و اشکبار کیا، یہ وہ دن تھا جس کا سورج حسین تمناؤں اور دلفریب ارمانوں کے ساتھ طلوع ہوا، مگر غروب 132 معصوم و بے قصور بچوں کے لہو کے ساتھ ہوا۔

صبح دس سے ساڑھے دس بجے کے درمیان7 دہشت گرد اسکول کے قریب پہنچے اور اپنی گاڑی کو نذر آتش کیا۔ اس کے بعد سیڑھی لگا کر اسکول کے عقبی حصہ میں داخل ہوئے اور معصوم طالب علموں اور بےگناہ اساتذہ پر اندھادھند فائرنگ کی۔

سفاک دہشت گرد ایف سی کی وردیاں پہن کر اسکول میں داخل ہوئے، انسانیت سے سارے ناطے توڑ کر درندگی کو گلے لگانے والوں نے اسکول کے مرکزی ہال اور کلاس رومز میں گھس کر ان کلیوں کو بے دردی سے مسل ڈالا جو ابھی  کِھل بھی نہ پائی تھیں۔

واقعے میں ا سکول پرنسپل طاہرہ قاضی بھی دیگر کئی اساتذہ کے ساتھ شہید ہوئیں اور ہمیشہ کیلئے امر ہوگئی۔ حملے میں 2 دہشت گردوں نے خود کو دھماکے سے اڑالیا تھا۔

16 دسمبر 2014 کو اے پی ایس پشاور لہو لہو ہوا تو ریاست پاکستان نے رب ذوالجلال کو گواہ بنا کر یہ عہد کر لیا کہ جب تک عرض پاک سے آخری دہشت گرد کا خاتمہ نہ ہو جائے حق و باطل اور بقا و فنا کی یہ جنگ جاری رہے گی۔

اے پی ایس پر لگے زخم نے حکومت وقت کو نیشنل ایکشن پلان ترتیب دینے اور کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی کو از سر نو فعال کرنے جیسے اقدامات اٹھانے پر مجبور کیا۔

انہی اقدامات کے نتیجے میں دہشت گردوں کو نشان عبرت بنانے کیلئے فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا گیا، بلاشبہ اے پی ایس کے 132 بچوں سمیت  150 فرزندان وطن نے اپنے لہو سے وہ شمع روشن کی جس کی لو آج بھی تازہ و غیر متزلزل ہے۔

تازہ ترین
تازہ ترین