جب مجھے خودکش حملہ آور نے فون کیا
وہ ایک انتہائی بھیانک اور خوفناک دن تھا۔ اس روز جس بےدردی سے معصوم بچوں اور اساتذہ کو خون میں نہلایا گیا اس کی ہماری ملکی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
آرمی پبلک اسکول پشاور پر ہونے والے طالبان حملے میں جس انتہا درجے کی بربریت اور سفاکی کا مظاہرہ کیا گیا اس نے پاکستانی قوم کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کو بھی ہلا کر رکھ کر دیا تھا۔ میرے لئے وہ دن کئی حوالوں سے مشکلات اور دکھوں کا باعث بنا۔
میں شاید پاکستان کا واحد صحافی تھا جسے سب سے پہلے اس واقعے کا علم ہوا۔ یہ سولہ دسمبر کی صبح تقریباً نو بجے کا وقت تھا جب مجھے افغانستان کے نمبر سے ایک کال موصول ہوئی۔
ہمیں اکثر اوقات اس طرح کی کالیں موصول ہوتی تھیں۔ مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ تحریک طالبان پاکستان کے کسی کمانڈر کی کال ہوگی۔ جب میں نے فون اٹھایا تو دوسری طرف خلیفہ عمر منصور بات کررہا تھا۔
خلیفہ عمر منصور عرف ’نرے‘ (دبلے) تحریک طالبان پاکستان کے پشاور اور درہ آدم خیل گروپ کا امیر تھا۔ وہ آرمی پبلک اسکول اور باچا خان یونیورسٹی پر ہونے والے دونوں حملوں کے ماسٹر مائنڈ بتایا جاتا تھا۔ علیک سلیک کے بعد عمر منصور نے کہا کہ ان کے کچھ حملہ آور پشاور کے کسی اسکول میں داخل ہو گئے ہیں اور میں ان کی دوسرے کال کا انتظار کروں۔
میں نے فون بند کرتے ہی ریموٹ اٹھایا اور چینلز تبدیل کرنے لگا لیکن کسی ٹی وی چینل پر کوئی خبر نظر نہیں آئی، ساتھ ساتھ یہ بھی سوچتا رہا کہ ہو سکتا ہے اطلاع غلط ہو کیونکہ شدت پسند تنظیمیں کبھی کبھار جھوٹے دعوے بھی کرتی تھیں لیکن صحافی ہونے کے ناتے ٹی وی کے سامنے ضرور بیٹھا رہا اور چینلز مسلسل تبدیل کرتا رہا۔
میں وثوق سے نہیں کہہ سکتا لیکن فون کال آنے کے تقریباً ایک گھنٹے کے بعد مجھے اچانک ایک ٹی وی چینل پر ایک ٹِکر نظر آیا جس میں وارسک روڈ پر پولیس کے ساتھ کسی جھڑپ کی خبر تھی لیکن اس سے زیادہ اور معلومات نہیں تھیں۔
ابھی یہ خبر بریک ہورہی تھی کہ شدت پسند کمانڈر خلیفہ عمر منصور کی دوسری کال آئی اور اس کی طرف سے اطلاع دی گئی کہ حملہ آرمی پبلک اسکول پر کیا گیا ہے۔ طالبان کمانڈر نے یہ بھی کہا کہ اگر آپ چاہتے ہیں تو آپ کو خودکش حملہ آور کا موبائل نمبر بھی دے سکتا ہوں جو اس وقت آرمی پبلک اسکول میں موجود ہے یا آپ کا نمبر اُسے دے دوں گا، آپ کو کال کر کے اندر کی پوری صورتحال بتا دے گا۔
میں نے اس پر کوئی بات ہی نہیں کی اور فون کاٹ دیا لیکن تھوڑی دیر کے بعد مجھے ایک نامعلوم نمبر سے کال آئی۔ مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ کس کی کال ہوگی لیکن میں نے پھر بھی فون نہیں اٹھایا۔
چند لمحوں کے بعد دوبارہ اسی نمبر سے کال آئی لیکن اس مرتبہ میں نے فون اٹھا لیا۔خودکش حملہ آور کا نام اب میرے ذہن سے نکل گیا ہے لیکن اس نے پشتو میں بات کرتے ہوئے کہا کہ انہیں ’خلیفہ صیب‘ نے میرا نمبر دیا ہے۔
میں نے بغیر سوچے سمجھے سب سے پہلے ان سے یہ پوچھا کہ آپ اسکول پر کیوں حملہ کررہے ہیں، وہاں تو سارے طلبہ ہیں، وہ تو سب معصوم ہیں، ان کا کیا قصور ہے؟ حملہ آور نے کہا ’نہیں، یہاں ان کا مرکز بھی ہے‘۔ مجھے کوئی اندازہ نہیں ہورہا تھا کہ یہ اسکول کہاں پر ہے، کیا وہاں واقعی کوئی مرکز ہے یا نہیں، وغیرہ وغیرہ۔
میں نے پوچھا کہ وہاں اندر اس وقت کیا حالات ہیں، آپ کتنے حملہ آور ہو؟ اس نے پشتو میں کہا کہ ’چالیس لاشیں گرا دی ہیں‘ جب اس نے یہ بات کہی تو میرے منہ سے بےساختہ نکلا ’ کیا یہ سب طالب علم ہیں‘ جواب آیا کہ نہیں اس میں سیکورٹی اہلکار بھی شامل ہیں۔
میری اس سے بس اتنی ہی بات ہوئی اور فون بند کردیا، جس وقت میں اس سے بات کررہا تھا تو عین اسی لمحے میں یہ بھی سوچ رہا تھا کہ یہ سب فون تو ریکارڈ بھی ہورہے ہیں۔ حملہ آور نے ہلاکتوں کے ضمن میں جو بات کی اس پر مجھے بالکل بھی یقین نہیں آیا کیونکہ اس وقت تک کسی میڈیا پر رپورٹ تو چھوڑیے کوئی افواہ بھی ایسی نہیں تھی کہ جس میں طلبہ کی شہادتوں کا کوئی ذکر ہو۔
اس وقت تک دن کے تقریباً گیارہ یا بارہ بج چکے تھے لیکن اسکول کے اندر سے تاحال کوئی مصدقہ اطلاع نہیں تھی۔
ذرائع ابلاغ کو اس وقت تک صرف اسپیشل فورسز کی دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کی خبریں مل رہی تھیں اور اسپتالوں میں زخمی لائے جارہے تھے۔ تاہم اس قتلِ عام کی پہلی مصدقہ اطلاع شام کے وقت سامنے آئی جب وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے لیڈی ریڈنگ اسپتال کے دورے کے بعد صحافیوں سے گفتگو کے دوران یہ دردناک خبر سنائی کہ اس حملے میں اب تک 80کے قریب طلبہ اور اسٹاف کے افراد شہید ہو چکے ہیں۔
اس خبر کے بریک ہوتے ہی جیسے پوری دنیا کے اندر ایک بڑا طوفان آگیا ہو اور ہر طرف اسکول پر حملے کی خبریں فلیش ہونے لگی۔
اس واقعے کے چند دنوں کے بعد مجھے ایک جگہ پر طلب بھی کیا گیا اور میری پیشی بھی ہوئی۔ مجھ سے پوچھا گیا کہ یہ کون لوگ تھے، کہاں سے فون آیا تھا، کیا کہہ رہے تھے، آپ نے کیوں فون اٹینڈ کیا، کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ حملہ آور کہاں سے آئے تھے؟ وغیرہ وغیرہ۔
میں نے کہا ’صاحب جو کچھ ہے آپ لوگوں کے سامنے ہے‘۔ وہ صاحب اچھے انسان تھے یا شاید میری گھبراہٹ نے ان کا دل نرم کردیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم آپ کو دوبارہ بھی طلب کریں گے لیکن پھر زحمت نہیں دی۔
جب بھی آرمی پبلک اسکول کے شہدا کی برسی آتی ہے تو ان معصوم بچوں کے چہرے جیسے میرے سامنے ہوتے ہیں اور دل تھامنا مشکل ہو جاتا ہے، میں ان خون میں لت پت چہروں کو یاد کرتا ہوں تو اپنے بچے سامنے آجاتے ہیں۔