• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مفتی شیخ نعمان

شریعہ ڈپارٹمنٹ، بینک اسلامی

ہماری ذمہ داری:

بیٹا یہ بجلی کا بل بھر آؤ۔ میں نے وہ بل لیا اور قریبی بینک میں بجلی کا بل جمع کروانے چلا گیا۔وہاں جاکر کھڑکی میں بل اور اس کے پیسے دیے ۔وہاں موجود شخص نے بل پر مہر لگائی، دستخط کئے۔ اور ایک حصہ کاٹ کر رکھ لیا۔دوسرا حصہ مجھے دے دیا۔یہ میرا بینک سے پہلا تعارف تھا۔کہ بجلی ،پانی اور گیس کے بل بینک میں جمع ہوتے ہیں۔ایک آدھ بار والد صاحب نے کوئی چیک دیا اور کہا کہ یہ فلاں بینک سے کیش کروا کے والدہ کو لا دینا۔وہاں گئے چیک دیا اس پر کاؤنٹر پر موجود شخص نے دو دستخط لئے اور رقم دے دی ۔جس سے معلوم ہوا کہ بینک سے پیسے بھی ملتے ہیں۔پھر وقت گزرتا رہا ۔بینک کے بارے میں مزید آگاہی ہوئی کہ بینک میں اکاؤنٹ کھلوایا جاتا ہے۔بینک قرض بھی دیتا ہے۔بینک کے پروفٹ اینڈ لاس اکاؤنٹ پر نفع بھی ملتا ہے۔

ان تمام مراحل سے ہم میں سے ہر ایک شخص ضرور گزرا ہوگا۔اور ہر ایک کا جس قدر بینک سے واسطہ ہوگا ہم بینک کو اتنا ہی سمجھتے ہوں گے۔لیکن بینک کی حقیقت کیا ہے؟بینک کا بنیادی کردار کیا ہے؟بینک کے معیشت کو کیا فائدے ہیں؟ بینک کس طرح کام کرتے ہیں؟مزیدبرآں، ایک مسلمان ہونے کے حوالے سے بینک سے تعلق رکھا جاسکتا ہے یا نہیں؟اگر نہیں تو کیوں نہیں؟ایک مسلمان ہونے کے لحاظ سے ہماری کیا ذمہ داری بنتی ہے؟ آئیے دیکھتے ہیں۔

بینک کیا ہے؟

بزنس ڈکشنری بینک کی تعریف اس طرح کرتی ہے :

ـ"ایک ادارہ جسے حکومت کی جانب سے امانتیں وصول کرنے،سود دینے،چیک منظور کرنے،قرضے دینے،کا اختیار دیا گیا ہو۔وہ مالی معاملات میں ایک واسطے کا کام کرے۔اور کسٹمرز کو دیگر مالی خدمات فراہم کرے۔"

بینک کے کام:

اوپر بیان کردہ تعریفات سے معلوم ہوتا ہے کہ بینک کا بنیاد ی کام تو پیسوں کا لین دین ہے۔بینک ایک طرف سے پیسے لیتا ہے جس میں کرنٹ اکاؤنٹ(وہ اکاؤنٹ جن پر کوئی اضافی رقم نہیں ملتی)،سیونگ اکاؤنٹ (جن پر معمولی اضافہ ملتا ہے)اورفکسڈ ڈپازٹ(جو خاص مدت تک کے لیے ہوتے ہیں اور ان پر متعین اضافہ ملتا ہے) شامل ہیں۔ دوسری طرف بینک پیسے دے رہا ہوتا ہے۔ یہ فنانسنگ معیشت کے مختلف شعبوں میں ہوتی ہے جیسے کمپنیز، چھوٹے کاروبار، زراعت، صارفین کے لیے۔ ڈپازٹ کی وصولی اور فنانسنگ کی فراہمی تو بینک کا بنیادی کام ہے۔ بینک اس کے علاوہ اپنے کسٹمر کو مالیاتی سہولیات کے لئے مختلف خدمات بھی فراہم کرتا ہے،جن میں :

٭ کسٹمر کے لیے ترسیل زر کی فراہمی کی سہولت

٭کسٹمر کے لیے فنڈ ٹرانسفر، چیک سسٹم کی سہولت

٭کسٹمر کے لیے مالیاتی سیکورٹیزکی خریدوفروخت

٭کسٹمر کے لیے انٹرنیشنل ٹریڈمیں گارنٹی،ایجنسی وصولی و ادائیگی کی سہولیات

٭کسٹمر کے لیے زرمبادلہ کی خریدوفروخت کی سہولیات

٭کسٹمر کے لیے پیسوں کی وصولی اور ادائیگی کی خدمات

٭کسٹمر کے سامان کو حفاظت سے رکھنے کی خدمات

٭کسٹمر کے لئے گارنٹی کی فراہمی

٭کسٹمر کو مارکیٹ کے بارے میں معلومات کی فراہمی وغیرہ۔

بینک کا معاشرے میں کردار:

ایک منٹ کے لئے تصور کریں کہ معاشرے میں اوپر ذکر کردہخدمات فراہم کرنے والا کوئی ادارہ نہیں ہے۔اب سوچیں، ایک عام شخص کو کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔اس کے بعد سوچیں ایک تاجرکو بینکاری خدمات کی عدم موجودگی میں کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

یقیناً آپ ایسے کاموں کی ایک فہرست بنا سکتے ہیں جن کے لئے بہرحال بینک سے واسطہ پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر پیسے کی قانونی طریقے سے بروقت، باحفاظت، بھروسے کے ساتھ منتقلی ایک ایسا کام ہے، جس کے لئے بینک کے علاوہ کوئی اور راستہ مشکل ہے۔

اس کے بعد ضروریات زندگی کے لئے خدمات جیسے گھریا سواری کے لئے سرمایے کی فراہمی، سرمایے کو مناسب جگہ لگانے کی خدمات وغیرہ۔ ایک تاجر کے لئے رقم کو محفوظ رکھنے کی خدمات،پھر موقع با موقع چیک، پے آرڈر وغیر ہ کی صورت میں رقم کی ادائیگی و وصولی کی خدمات۔

بینک کی یہ وہ خدمات ہیں جن کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ موجودہ وقت میں ان خدمات کے لئے بہرحال ایک ادارہ چاہئے چاہے، آپ اس کو بینک کا نام دیں یا کوئی اور۔ چاہے یہ خدمات ایک ادارہ فراہم کرے یا کئی ادارے مل کر فراہم کریں۔شاید یہی وجہ ہے کہ علماء کرام کی جانب سے سودی بینکاری کی مسلسل مذمت کے باوجود بینک اپنی آب وتاب کے ساتھ نا صرف موجود ہیں بلکہ ترقی بھی کررہے ہیں،کیونکہ عوام یہ سمجھتے ہیں کہ بینک کے بغیر گزارا نہیں ہے۔

بینک کا معیشت میں کردار:

بینک کا کام معاشی سرگرمیوں میں سہولت فراہم کرنا ہے۔بینک کی موجودگی میں تجارتی معاملات میں تیزی اور آسانی آجاتی ہے۔مزیدبرآں، بروقت سرمایے کی فراہمی کا ایک بڑا ذریعہ بینک ہی ہے۔ بینک معیشت سے چھوٹی چھوٹی بچتوں کو بڑی بڑی نفع بخش سرمایہ کاری میں تبدیل کرتا ہے۔خلاصہ یہ کہ معیشت کے پہیے کو چلانے میں ایک اہم کردار بینک کا بھی ہے۔

روایتی بینکاری کا پس منظر:

بینکاری کا تصور اگرچہ قدیم ہے لیکن اس کی ترقی اٹھارویں صدی میں صنعتی ترقی کے ساتھ ہوئی ہے۔یورپ سے نکلنے والی صنعتی ترقی سے ہی مشترکہ سرمائے کی کمپنیوں اور بینکوں کا موجودہ شکل میں وجود آیا ہے۔جن کا مقصد معاشرے کی منتشر بچتوںکو جمع کرکے زیادہ بہتر انداز میں استعمال میں لانا ہے۔یورپ سے ہی یہ بینک برصغیر میں آئے اور قیامِ پاکستان کے بعد پاکستان میں بینکاری کے شعبے میں تیزی سے پیشرفت ہوئی۔

روایتی بینکاری کے معاملات کی بنیاد:

روایتی بینکوںمیں پیسے کی لین دین کی بنیاد قرض ہے۔جو پیسہ بینک کو دیا جاتا ہے وہ بھی قرض کی بنیاد پر دیا جاتاہے۔دوسری جانب جو پیسہ بینک دیتا ہے۔اس کی بنیاد بھی قرض پر ہی ہوتی ہے۔

قرض اور اسلام:

جب ہم بینکاری میں قرض کی بنیاد پر معاملات دیکھتے ہیں تو اگلی بات ذہن میں آتی ہے کہ کیا قرض کا معاملہ اسلام میں جائز ہے۔جواب ہے کہ بالکل جائز ہے۔لیکن یہ بات ذہن میں رہے کہ اسلام قرض کے معاملے کو ایک ہمدردی،بھلائی والا معاملہ تصور کرتاہے۔ قرض ایک ایسا معاملہ نہیں ہے جس پر کمایا جاسکے۔ لہٰذا قرض کا لین دین تو جائزہے لیکن اصل رقم پر مشروط اضافہ لینا، دینا جائز نہیں۔ یہی سود ہے۔ (آسان ترجمہ قرآن،مفتی محمد تقی عثمانی، جلد1،صفحہ 171) جبکہ بینکاری میںقرض کو ایک تجارتی معاملے کو طور کیا جاتا ہے۔ روایتی بینک کی کمائی کا ایک بڑا ذریعہ سود ہی ہوتا ہے۔

اسلام میں سود:

اللہ تعالی قرآن مجید میں فرماتا ہے: اے ایمان والوں اللہ سے ڈرو اور اگر تم واقعی ایمان والے ہو تو سود کا جو حصہ بھی(کسی کے ذمے)باقی رہ گیا ہو اسے چھوڑدو پھر بھی اگر تم نہ کرو گے تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلان جنگ سن لو اور اگر تم (سود سے ) توبہ کرو تو تمہارا اصل سرمایہ تمہارا حق ہے نہ تم کسی پر ظلم کرو نہ تم پر ظلم کیا جائے گا۔ البقرہ آیت 278-279

یہ آیات صاف لفظو ں میں سود کے لین دین سے منع اور نہ ماننے والوں کے خلاف اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے اعلان جنگ کررہی ہیں۔

بینکاری اور ہمارا رویہ:

اب تک کی گفتگو سے یہ بات سمجھ آجانی چاہئے کہ بینکاری ایک حقیقت اور ایک ضرورت ہے۔ بینکاری کے بغیر کاروبار،معیشت کو چلانا مشکل ہے۔لیکن دوسری جانب روایتی بینکاری کا نظام سودی قرضوں کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔سود کی اسلام میں سخت ممانعت ہے۔ایسی صورتحال میں ہمارے پاس تین صورتیں ہیں:

پہلا رویہ:

یہ سوچتے ہوئے کہ بینکاری کے بغیر معیشت نہیں چل سکتی اور بینکاری سود کے بغیر ممکن نہیں، لہٰذا نظام جس طرح چل رہا ہے، اسے چلنے دیا جائے۔

دوسرا رویہ:

دوسری جانب وہ حضرات ہیں جو یہ کہتے ہیںکہ روایتی بینکاری کی بنیاد سود پر ہے۔سود اسلام میںحرام ہے۔لہٰذا روایتی بینکاری کے قریب بھی مت جائیں۔بغیر بینکوں کے زندگی گزارنا ہی بہتر حل ہے۔

تیسرا رویہ:

تیسرا رویہ اس حوالے سے یہ ہے کہ بینک کا بنیادی عمل یعنی مالیات میں واسطہ بننا ایک معاشرے ومعیشت کے لیے ضروری کام ہے۔اورایسا کام نہیں ہے جسے شریعت میںناجائز قرار دیا جائے۔باقی جس بنیاد پر یہ عمل کیا جاتا ہے یہ ناجائز ہے۔ لہٰذا کوئی حل ضرور ہوگا جس کی بنیاد پر بینک کا بنیادی عمل بھی کیا جاسکے اور سود سے بھی پاک ہو۔اس رویہ کو اپناتے ہوئے مروجہ اسلامی بینکاری کا خاکہ بنایا گیا۔آج الحمدللہ شریعت کے مطابق، سود سے پاک بینکاری کام کررہی ہے۔ 

یہ وسیع اسلامی معاشی نظام کی طرف ایک قدم ضرور ہے ،مکمل اسلامی معاشی نظام کا نفاذ نہیں ہے، لہٰذا بعض اوقات اسلامی معاشی نظام کے اہداف جیسے ایک منصفانہ نظام معیشت کاقیام یا غربت کا خاتمہ وغیرہ کے حصول کی ساری امیدیں اسلامی بینکاری سے کی جارہی ہوتی ہیں یہ درست نہیں۔ لیکن انشاءاللہ اگر ہم درست سمت میں سفر جاری رکھیںاور اسلامی معاشی نظام کے قیام کی ہمہ جہت کوششیں کریں تو انشاءاللہ مکمل اسلامی معاشی نظام بھی نافذ ہوجائے گا۔

روایتی بینکاری کو چھوڑ کر اسلامی بینکاری کو اپناکرایک اسلامی معاشی نظام کی طرف پیش رفت کے لئے ہم سب کو مل کر قدم اٹھانے چاہئے۔اگر اس اسلامی بینکاری کے نظام پر سوال ہیں تو ضرور اس پر گفتگو ہو لیکن ایک سیکھنے سکھانے والے ماحول میں نہ کہ تنقید برائے تنقید کے پیرائے میں۔

یاد رکھئے سود سے بچنا ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ہم خود بھی سود سے بچیں اور دوسروں کو بھی سود سے بچائیں۔ اگر کوئی اس حوالے سے فکر مند ہے تو بجائے اس کو تنقید کا نشانہ بنانے کے یہ سوچیں اس نے فکر کی ایک راہ عمل پیش کی۔ ہم نے کیا کیا؟ہمارا اس حوالے سے کیا عمل ہے۔ہم خود سود سے کتنا بچتے ہیں۔اللہ پاک وہ دن جلد دیکھنا نصیب فرمائے جب ہمارے سو فیصد معاشی معاملات شرعی اصولوں کے مطابق ہوں۔آمین

تازہ ترین