کراچی فش ہاربر میں کالا پانی کے مقام پر بورڈ بلڈنگ یارڈ میں خوفناک آتشزدگی کے نتیجے میں کروڑوں روپے مالیت کی 7 لانچیں، دو ہوٹل اور 30 دکانیں جل گئیں تاہم خوش قسمتی سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
کراچی فش ہاربر سے ہزاروں ماہی گیر روزانہ سینکڑوں لانچوں پر مچھلیاں پکڑنے کے لیے سمندر میں آتے اور جاتے رہتے ہیں، یہاں سال کے 12 مہینے، ماہ کے 30 دن اور دن رات کے 24 گھنٹے کام ہوتا ہے۔
انسانوں اور کاروبار کا میلہ لگا رہتا ہے اور عید، بکرا عید، شبِ برات، محرم الحرام یا کسی مذہبی موقع اور تہوار پر کبھی چھٹی نہیں ہوتی۔
کراچی فشرمین کوآپریٹو سوسائٹی کے تحت فشری کی برتھ کے عین سامنے کا علاقہ کالاپانی کہلاتا ہے جہاں بورڈنگ یارڈ میں لانچیں بنانے کے کارخانے ہیں اور اسی مقام پر لانچوں اور ماہی گیری کے پیشے سے تعلق رکھنے والے نئے و پرانے سامان کی دکانیں اور مرمت کی ورکشاپس بھی ہیں، مختلف شہریوں کی ملکیت زیادہ تر پراپرٹیز غیرقانونی اور قبضہ کی ہیں۔
بورڈ بلڈنگ یارڈ کے ایک چوکیدار سلطان حسین کے مطابق نصف شب کو ایک بج کر 17 منٹ پر علی زر خان ریسٹورنٹ میں ایل پی جی کے 45 کلو گرام وزنی بڑے سلینڈر میں خوفناک دھماکے کے بعد آگ لگ گئی، ہوٹل سے متصل پرانے کپڑوں کے ایک کیبن نے بھی آگ پکڑ لی جسے اپنی مدد آپ کے تحت بجھانے کی کوشش کی گئی مگر سمندر کنارہ کی وجہ سے ہوا تیز تھی، جس سے ساتھ ہی واقع لانچوں کے انجن سے نکالے گئے استعمال شدہ تیل کے ڈرموں نے بھی آگ پکڑ لی، تیل کے ڈرم پھٹنے سے آگ کے شعلے آسمان سے باتیں کرنے لگے۔
تیز ہوا کی وجہ سے آس پاس کارخانوں میں کھڑی نئی لانچوں کو آگ لگ گئی، فشرمین کوآپریٹو سوسائٹی کے سیکیورٹی انچارج ناصر بونیری کے مطابق رات ایک بج کر 35 منٹ پر سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ، کے پی ٹی اور نیول فائر بریگیڈ کو اطلاع دی گئی مگر بروقت کوئی نہ پہنچ سکا جس سے بہت زیادہ تباہی ہوئی۔
سیکیو رٹی اہلکاروں کے مطابق فائر بریگیڈ کی گاڑیاں آگ لگنے کے ایک گھنٹے بعد پہنچنا شروع ہوئیں، سب سے پہلے کے پی ٹی فائر بریگیڈ کا عملہ پہنچا مگر شدید آگ ان کے قابو سے باہر تھی۔ جس کے بعد نیول فائر بریگیڈ آئی اور سب سے آخر میں سٹی ڈسٹرکٹ فائر بریگیڈ کا عملہ پہنچا تاہم اس وقت تک بہت کچھ راکھ ہوچکا تھا۔
فشری سیکیو رٹی انچارج ناصر بونیری کے مطابق آتشزدگی کے نتیجے میں نظر رسان، طارق، ظفر، ثناء، ارشاد، علی خان واہڈا اور جمشید واہڈا کی ملکیت 7 بڑی اور نئی زیر تعمیر لانچیں جل کر تباہ ہوگئیں، لانچیں جلنے سے مالکان اور کارخانوں کے نقصانات کا ابتدائی تخمینہ 10 کروڑ روپے لگایا گیا ہے۔
فشرمین سوسائٹی کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق اس خوفناک آتشزدگی کا سبب بننے والا علی زر خان ریسٹورنٹ اور اس سے متصل سپرمارکیٹ کی 18 دکانیں، ہوٹل سند باد اور اس سے متصل 12 دکانیں آتشزدگی سے مکمل جل گئی ہیں۔
انجن آئل، لنڈے کے پرانے کپڑے، موبائل فون اور اس کے سامان، چائے کے ہوٹل، ایزی لوڈ اور سبزی و فروٹس کی دکانیں جل کر تباہ ہوئی ہیں۔
فائر رپورٹ کے مطابق ایک دکان میں پڑا 10 لاکھ روپے کیش اور 15 لاکھ روپے مالیت کے بینکوں کے چیکس بھی جل گئے ہیں جبکہ دیگر کاروبار کے نقصانات کا تخمینہ لگایا جا رہا ہے۔
بورڈ بلڈنگ یارڈ ذرائع کے مطابق سالانہ اربوں روپے کا ریونیو دینے والے اس ہاربر پر حکومتی رٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔
بین الاقوامی قوانین کے مطابق ہاربر پر سگریٹ لائٹر، آگ لگانے والی کوئی چیز یا آتش گیر مادہ لانے کی سخت ممانعت ہے مگر کراچی فش ہاربر پر کچھ بھی لایا یا لےجایا جاسکتا ہے۔
لاقانونیت کو روکنا کراچی فش ہاربر اتھارٹی کی ذمہ داری ہے مگر عملی صورتحال دیکھ کر لگتا ہے کہ کسی کو کوئی پروا نہیں۔