• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کتابوں سے جڑت صرف لکھاری ہونے کے ناتے نہیں، بلکہ روح کی اُس تشنگی کے باعث ہے ،جو ظاہر کے صحرا میں گیان کی بوند کو ترستی تلاش کے رستے پر ننگے پیر بھاگ رہی ہے۔ ایسے میں قطرہ قطرہ زندگی کا ٹائٹل پیاسے مَن کی جاں افزائی کا یوں سبب بنا ،جیسے اچانک تپتے صحرا میں کنوئیں کے آثار نظر آ جائیں۔ دانش کی تہہ در تہہ سطحوں والی کتاب کھولنا ہمت کا متقاضی ہے۔ 

یوں سمجھیے،روح کنوئیں میں اُتر کر سیراب ہونے کی خواہاں، مگر اتنی استطاعت کہاں۔ اس لیے نظروں کے ڈول سے چند قطرے ہی کھینچے جاسکے۔ یہ قطرے طلب کے راستے کے مسافر کو مجنوں بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ پھر وہ کھنچا کھنچا کنوئیں میں اُتر جاتا ہے۔ 

ہم اس کتاب کے مصنف کے بارے میں بالکل بات نہیں کرنا چاہتے۔ اس لیے کہ اگر اُس کا تذکرہ شروع کر دیا، تو پھر کتاب پسِ پشت چلی جائے گی، اس شخص کی اتنی جہتیں اور رُوپ ہیں کہ صرف خاکہ ہی لکھا جاسکتا ہے اور وہ بھی کسی دن مجھ سے لکھوا لیا جائے گا، بالکل اسی طرح جیسے میرے باطن کی صلاح نے مجھ سے کتاب پڑھوائی۔ ہماری نگاہوں کے حصار میں مقید یہ کتاب، بالکل مختلف تحریر ہے۔ اس اسلوب کو کیا نام دوں یہ بھی طے نہیں ہو رہا، لیکن یہ توواضح ہے کہ صاحبِ کتاب مختلف پگڈنڈی بنا چکے ہیں۔ 

دل چسپی کا یہ عالم کہ کچھ صفحات کو ایک سے زیادہ بار پڑھنے کا شرف حاصل کیا۔ یہ کوشش سمجھنے سے زیادہ لطف و سُرور کی اس کیفیت سے راہ و رسم بڑھانے کی جستجو تھی ،جو لفظوں کی اوٹ میں رقصاں ہے۔ کوشش تو یہ بھی بہت کی کہ کچھ دانش کے موتی پلّے باندھ کر نگاہ کے چانن کا اہتمام کروں۔ اس کی دل کشی کے بارے میں لکھتی جاؤں، مگر آپ کبھی اس کی وہ مہک محسوس نہیں کر پائیں گے ،جو صرف مطالعے ہی سے ممکن ہے۔ پھر اُن تمام سوالوں کے جواب ملنا شروع ہو جائیں گے ،جو آپ کے دل، دماغ اور روح کے در پر دستک دیتے رہتے ہیں۔ وہ سوال جن کی وجہ سے آپ پریشان ہوتے ہیں ،مگر نظرانداز کر دیتے ہیں۔ 

ایسا کرنے سے شخصیت عدم توازن کا شکار ہوتی ہے۔ اچھے لوگ ہمارے آس پاس ہی موجود ہوتے ہیں اور اپنی موجودگی کا احساس پھولوں کی اس مدُھر ، تیز خوش بُو کی طرح دلاتے ہیں، جس کا راستہ روکنا ممکن نہیں ہوتا۔ خوش بُو سے بچنے کی جتنی مرضی کوشش کرلیں، وہ آپ کو حصار میں لے ہی لیتی ہے، آپ کے اندر اُتر جاتی ہے،آپ اُسے قید نہیں کرسکتے، نہ ہی بچ سکتے ہیں۔ 

ناک بند کریں گے ،تو سانس رُک جائےگی، زندگی ختم ہو جائے گی، مگر خوش بُو قائم رہے گی اسی طرح اچھے لوگوں کے روشن لفظوں سے دُوری اختیار کر کے زندگی آگے نہیں بڑھ سکتی۔ اللہ نے کچھ لوگوں کو خاص ذمّےداری عطا کی ہوتی ہے کہ وہ اپنی گفتگو اور عمل سے اچھائی کی طرف مائل کرتے ہیں۔ یہی معاملہ ان محبت بھرے اور معجزاتی لفظوں کا بھی ہے، جن کا ہجوم کئی دن ہمارے ارد گِرد رہا۔ 

ہم پریشانی کے عالم میں رہے کہ ان میں سے کون سے لفظ چُنیں، کس موضوع پر بات کریں، کس موضوع کو نظر انداز کریں کہ ایک مضمون میں ان تمام موضوعات پر بات کرناذرا مشکل ہی ہے۔ہم نے کئی بار کتاب کھولی، پڑھنے کا ارادہ کیا اور پھر بند کر کے رکھ دی۔ اس لیے کہ سرسری ورق گردانی سے تفہیم نہیں ہو پا رہی تھی ،پھر اس کتاب کو ہماری آنکھوں نے اسکین کر کے دل کی فائل میں رکھا اور روح نے پڑھا اب روح کی باتوں کی تفہیم روح ہی کرسکتی ہے۔ باطن کے راز باطن کا تفتیشی ہی معلوم کر سکتا ہے۔

آج کی دنیا نے ٹیکنالوجی میں بہت ترقّی کر لی ،مگر وہ لفظوں کی محتاج ہے۔ جو لفظ دل میں نقب لگانے میں کام یاب ہو جائیں ،وہ برکت والے کہلاتے ہیں۔ ان کا ڈھانچا ضرور عام لفظوں جیسا ہوتا ہے، مگر اندر کرامتیں پنہاں ہوتی ہیں۔ بالکل ایسے لفظ ہمیں ’’قطرہ قطرہ زندگی‘‘ کے ہر صفحے پر منتظر ملے، کیوں کہ مَیںبھی اُن سے مِلنے کی مُشتاق تھی ، سو اُنہوں نے رازوں کی پوٹلی ہمارے سامنے رکھ دی اورخودہی پردے ہٹتے چلےگئے۔ موضوع منظر کی طرح بدلتے رہے۔ ہر لفظ ایک دستک کی مانند لگا، جو پہلے دل کا دَر کھولنے کی سعی کرتا ہے اور پھر روح کی جانب آغاز ِ سفرکرتا ہے۔ 

حیرت کی بات یہ ہے کہ اس کتاب کے لفظ مجھے اس سے اگلی منزل کی طرف لے گئے ،جو رِدھم، سُر، دھمال اور رقص درویشاں کی منزل تھی۔ وحدانیت کا ایک بہت بڑا دائرہ ،جس میں لفظ چاندنی کے ہیولوں کی طرح محوِ رقص تھے ۔ جس طرح جسم کے بغیر روح کاملاپ ممکن نہیں، اسی طرح لفظ ہی اس کیفیت کی طرف لے جانے کا سبب بنتے ہیں ،جہاں زبان کا داخلہ ممنوع ہے۔ عشق ایک لفظ ہے ،مگر اپنی حدود میں پوری کائنات رکھتا ہے۔اس کتاب میں درج الفاظ، عشق کے سمندر کے قطرے ہیں۔ 

جن کا دیدار طلب کو مزید بڑھاتا ہے۔ پیاس کی شدّت میں کمی ہوتی ہے، مگر ذائقے کی حلاوت اس سمندر کی طرف کھینچے لیے جاتی ہے، جو تَن مَن کو سیراب کردے۔ یہی تو مصنّف کا مدّعا ہے، اُس نے مختلف داؤ آزمائے ہیں۔ وہ نصیحت کرتا ہے ،نہ صلاح دیتا ہے۔ ہاں کچھ خُوب صُورت منظر دِکھا کر، اپنی آپ بیتی کا لمحہ شامل کر کے ترغیب دیتا ہے۔

متذکرہ کتاب ،دل اور روح کی آواز بن کر دیگر دِلوں اور روحوں تک رابطہ بنانے کی ایک کوشش ہے۔ جس طرح دل سے نکلنے والی بات دل تک پہنچتی ہے، یقینا ًیہی معاملہ روح کا بھی ہے۔ ہم سب کی روحیں آپس میں کسی ایک مقام پر خاص جُڑت رکھتی ہیں۔ جب ہم اپنے آپ کو اتنا کثیف کر لیتے ہیں، اپنے اِردگِرد خواہشات کی باڑیں لگا لیتے ہیں، تو دل کے آئینے میں محبوب نظر آنا بند ہو جاتا ہے۔ جب ہم اُسے نہ دیکھ سکیں، تو پھر روح کے رابطے بھی منقطع ہونے لگتے ہیں۔ مصنف ایک ایسی نوکری پر فائز ہے کہ جس میں ہر لمحہ چوکنّا رہنا پڑتا ہے اور ظاہر پر زیادہ توجہ دینی پڑتی ہے، لیکن خدا کے خاص کرم سے اس نے اپنے باطن کی رہنمائی کو اپنا مُرشد مانا ہے، اسی لیے ہر وقت ظاہر کے ساتھ باطن کی صدائیں اُسے سنائی دیتی ہیں۔ 

جی ہاں ،میری مراد کیپٹن ریٹائرڈ لیاقت ملک سے ہے۔ جس کی آنکھیں اِس لمحے ان لفظوں میں جھانک رہی ہیں۔ اُسے خبر ہے کہ لوگ اس کے لفظوں سے اپنے دامن کو سیراب کر رہے ہیں۔ مَیں حیرت زدہ ہوں اور یہ حیرت مجھے کئی نئے امکانات کی طرف لے کر جا رہی ہے۔ سوچ کا محور اصل رُوٹ ہے، اس پر رواں ہونے کا نقشہ اس کتاب میں دیا گیا ہے، چھوٹے چھوٹے موڑ حادثات کا باعث بن سکتے ہیں۔ اپنی ’’مَیں‘‘ کو مٹانے اور نظر کے آئینے کو شفاف رکھنے کا طریقہ بتایا گیا ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتیں جنہیں ہم نظر انداز کر دیتے ہیں، وہی بڑی مصیبتوں کا باعث بنتی ہیں، جمع ہو کر طوفان کا رُوپ دھارتی ہیں۔ انہی سے زندگی کا حُسن اور جلوہ منسلک ہے، انہی میں تمام راز پوشیدہ ہیں۔ 

صرف ظاہر ہی سب کچھ نہیں ،باطن بھی بہت اہم ہے۔ ان کے درمیان رابطے کی سوئی کا خیال کرنا ہے، یہ ہو جائے تو تپتا صحرا بھی گلشن محسوس ہونے لگتا ہے۔ دل کے دیے میں عشق کا شعلہ جلتے رہنا ضروری ہے۔ وہیں سے نظر کو رزق نصیب ہوتا ہے۔ اس میں کیپٹن لیاقت ملک کی آپ بیتی بھی شامل ہے۔ جب آپ زندگی کے رازوں سے بھرے قطروں سے راہ و رسم کریں گے تو آپ کے اپنے دل پر دستک ضرور سنائی دے گی۔ ’’ہو‘‘ کا نعرہ بھی روح کے دالانوں میں گونجے گا۔ 

اگر آپ دروازہ کھولنے میں کام یاب ہوگئے ،تو یہ حرف دیے بن کر آپ کی زندگی میں چانن بھر دیں گے اور پھر زندگی بوجھ نہیں ،بشارت محسوس ہونے لگے گی۔ ورنہ شب و روز کا سفر جاری رہتا ہے، مگر اُسے زندگی نہیں کہہ سکتے۔

تازہ ترین