• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسٹیٹ بینک کے اعدادو شمار کے مطابق مالی سال 2019ء میں پاکستانی معیشت کی کارکردگی بحیثیت مجموعی اچھی نہیں رہی۔ اسٹیٹ بینک اور عالمی بینک کی رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی معیشت کواب بھی متعدد چیلنجز درپیش ہیں۔ آئی ایم ایف نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ پاکستانی معیشت کو ملکی و بیرونی خطرات کا سامنا ہے۔ملکی معیشت کی تیز تر ترقی کے لیے حکومت آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک اور دوست ملکوں، چین، سعودی عرب اور عرب امارات وغیرہ کی مدد سے جو اقدامات کیے ہیں، اگرچہ ان کے ثمرات عام آدمی تک پہنچنے میں وقت لگے گا۔ 

ادویات، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں سال بھر مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔ آٹے، چینی،گھی، ٹماٹر اور ترقی کی شرح نمو ساڑھے پانچ فی صد سے کم ہوکر ڈھائی فی صد کی حدوں کو چھو رہی ہے۔ گزرتے سال معیشت کی صورت حال کیسی رہی، ذیل میں اس کا مختصر جائزہ ملاحظہ کریں۔

آئی ایم ایف نے 3؍جولائی2019ء کو پاکستان کے لئے اسٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ پروگرام کے تحت6.4؍ ارب ڈالر کا قرضہ منظور کیا تھا ۔اس پروگرام کا بنیادی نکتہ حسب سابق تھا’’پہلے معیشت کو مستحکم کرو اور شرح نمو میں اضافہ اس کے بعد‘‘۔ آئی ایم ایف سے قرضہ ملنے کے بعد ظاہر ہے کہ ملک کے بیرونی اقتصادی خطرات میں کمی کی توقع ہوتی ہے جو کہ معیشت کے منظرنامے کے مستحکم ہونے کا اشارہ ہوتا ہے۔ آئی ایم ایف کے قرضے کی شرائط پر عملدرآمد کے نتیجے میں جاری حسابات کے خسارے میں مزید تیزی سے کمی آئی چنانچہ عالمی کریڈٹ ایجنسی ’’موڈیز‘‘ نے پاکستانی معیشت کے منظر نامے کو منفی سے مستحکم کردیا۔ واضح رہے کہ آئی ایم ایف سے قرضہ ملنے کے بعد پیپلز پارٹی کے دور میں اگست 2009ء میں اور مسلم لیگ ن کے دور میں جولائی 2014ء میں بھی موڈیز نے پاکستانی معیشت کے منظر نامے کو منفی سے مستحکم کردیا تھا ۔ ’’موڈیز‘‘ نے بہرحال پاکستان کی B-3کی درجہ بندی برقرار رکھی ہے جو کہ حوصلہ افزاء نہیں ہے۔ موڈیز نے مزید کہا ہے کہ :

1) موجودہ مالی سال میں معیشت کی شرح نمو 2.9فیصد رہے گی جبکہ مالی سال 2021ء میں شرح نمو صرف 3.5فیصد رہے گی۔ واضح رہے کہ موجودہ حکومت کو 5.5فیصد کی شرح نمو ورثے میں ملی تھی۔

2) موجودہ مالی سال میں پاکستان کا بجٹ خسارہ 8.6فیصد رہے گا جبکہ مالی سال 2021ء سے 2023ء تک یہ خسارہ اوسطً 7فیصد رہے گا۔ واضح رہے کہ موجودہ حکومت کو 6.6فی صد کا بجٹ خسارہ ورثے میں ملا تھا۔

3) ٹیکس دہندگان کا دائر ہ وسیع کرنا اور اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کرنا حکومت کے لئے بدستور چیلنج ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ حکومت کو معیشت عمدہ حالت میں نہیں ملی تھی ۔یہ حقیقت بھی اپنی جگہ برقرار ہے کہ موجودہ حکومت کے اقتدار میں آنے سے پہلے مالی سال 2018ء میں معیشت کی شرح نمو تیز ہوئی تھی ، برآمدات میں اضافہ ہوا تھا، افراط زر میں کمی ہوئی تھی اور جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکسوں کی وصولی، قومی بچتوں اور مجموعی سرمایہ کاری میں اضافہ ہواتھا۔ یہ بھی واضح ہے کہ موجودہ حکومت کے دور میں مالی سال 2019ء میں بیشتر معاشی اشاریوں میں منفی رحجانات نظر آئے اور بیشتر اہم اہداف حاصل نہیں ہوسکے ۔ اسی مالی سال میں معیشت کی شرح نمو سست ہوئی ،ملکی و بیرونی قرضوں کے حجم میں تاریخی اضافہ ہوا،افراط زر اور شرح سود میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا،جبکہ ٹیکسوں کی وصولی، بچتوں کی شرح، مجموعی بیرونی سرمایہ کاری ، اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر اور روپے کی قدر میں کمی ہوئی اور جی ڈی پی کے تناسب سے بجٹ خسارہ پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ رہا حالانکہ ترقیاتی اخراجات میں زبردست کٹوتی کی گئی تھی وگرنہ خسارہ مزید بڑھ جاتا۔ مالی سال 2016ء سے مالی سال 2018ء کے تین برسوں میں افراط زر کی اوسط شرح تقریباً 4فیصد تھی جبکہ مالی سال 2020ء میں یہ 11فیصد سے زائد رہ سکتی ہے۔

مالی سال 2018ء کے مقابلے میں

مالی سال 2019ء میں تجاری خسارہ

5.8؍ارب ڈالر اور جاری حسابات کے خسارے میں 6.4؍ارب ڈالر کی کمی ہوئی۔ حکومت نے آئی ایم ایف کے پاس قرضے کی درخواست تقریباً 8ماہ کی تاخیر سے پیش کی جسے آئی ایم ایف کے بورڈ نے 3؍جولائی 2019ء کو منظور کرلیا ۔اس قرضے کی منظوری اور آئی ایم ایف سے قرضے کی پہلی قسط ملنے کے چند ماہ بعدسے معیشت کے بہت سے اشاریوں میں بہتری آئی مثلاً ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر اور اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں استحکام آیا۔اسی مدت میں تجاری خسارے اور جاری حسابات کے خسارے میں مزید تیزی سے کمی ہوتی رہی جبکہ براہ راست بیرونی سرمایہ کاری میں اضافے کا رحجان رہا ۔ برآمدات میں بہرحال خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا جو کہ تشویش کا جواز فراہم کرتا ہے۔ یہی نہیں، ستمبر2018ء سے ستمبر 2019ء کی مدت میں اسٹیٹ بینک کے زر مبادلہ کے ذخائر میں 1.5؍ارب ڈالر کی کمی ہوئی مگر اسی مدت میں پاکستان کے بیرونی قرضوں و ذمہ داریوں میں 10.8؍ارب ڈالر کااضافہ ہوا۔ صاف ظاہر ہے کہ بیرونی قرضوں و و اجبات کی ادائیگی کی پاکستان کی صلاحیت کمزور ہورہی ہے۔

اگر حکومت ستمبر 2018ء میں آئی ایم ایف سے قرضے کے حصول کے لئے رجوع کرتی تو معاشی اشاریوں میں یہ بہتری جنوری 2019ء سے ہی نظر آنا شروع ہوجاتی ۔ صاف ظاہر ہے کہ موجودہ حکومت نے سیاسی بنیادوں پر آئی ایم ایف سے قرضہ لینے میں غیر ضروری تاخیر کی جس کی قیمت معیشت اور عوام کو ادا کرنا پڑ رہی ہے۔ پچھلے چند ماہ میں کچھ معاشی اشاریوں میں جو بہتری نظر آئی ہے حکومت ان کو اپنی معاشی پالیسیوں کا ثمر قرار دے رہی ہے ۔یہ حقیقت بھی اپنی جگہ برقرار ہے کہ چند معاشی اشاریوں میں بہتری لانے کے لئے جو اقدامات اٹھائے گئے ان کے نتیجے میں نہ صرف عوام پر مزید بوجھ پڑا بلکہ متعدد دوسرے معاشی اشاریوں میں خرابیاں نمو دار ہوئیں۔ 1993ء سے اقتدار میں آنے والی پانچوں حکومتوں نے آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کے بعد معاشی استحکام کا دعویٰ کیا جو دیر پا ثابت نہیں ہوا اور حکومت کی تبدیلی کے ساتھ ہی نئی حکومت کو معیشت کو بحران سے نکالنے کے لئے آئی ایم ایف سے نجاتی پیکج لینا پڑا۔ اب موجودہ حکومت بھی اسی راہ پر چل رہی ہے۔ معیشت میں پائیدار بہتری کے لئے ٹیکسوں و توانائی کے شعبوں میں بنیادی نوعیت کی اصلاحات لازمی ہیں۔اب ہم یہ بات کہنے کے لئے اپنے آپ کو مجبور پاتے ہیں کہ یہ اصلاحات نہ ماضی کی حکومتوں نے کیں اورنہ ہی موجودہ حکومت کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

مالی سال 2019ء میں معیشت کی شرح نمو.3 3فیصد رہی حالانکہ حکومت کو 5.5فیصد کی شرح نمو ورثے میں ملی تھی جبکہ 1980سے 2018ء کے 39برسوں میں پاکستانی معیشت کی شرح نمو اوسطاً4.75 فیصدرہی تھی ۔ عالمی بینک کی اکتوبر 2019 ء میں جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مالی سال 2020ء میں پاکستانی معیشت کی شرح نمو 2.4فی صد رہے گی جو کہ بھارت، بنگلہ دیش ، سری لنکا، مالدیپ، نیپال اور بھوٹان کی متوقع شرح نمو سے بھی کم ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ موجودہ مالی سال میں یہ شرح نمو تقریباً 3فیصد رہ سکتی ہے۔ موجودہ حکومت کے اقتدار میں آنے کے چند ماہ بعد سے ہم یہ کہتے رہے ہیں کہ حکومت کے اقتدار کے پہلے تین برسوں کی اوسط شرح نمو اس شرح سے بہت کم رہے گی جو اسے ورثے میں ملی تھی۔ یہ خدشہ بھی اب صحیح ثابت ہورہا ہے ۔واضح رہے کہ 7فیصد سے کم شرح نمو حاصل ہونے سے عموماًملک میں غربت و بے روزگاری میں اضافہ ہوتا ہے۔

آئی ایم ایف کے پروگرام کے تحت اٹھائے گئے اقدامات کے نتیجے میں جولائی سے نومبر2019ء کی مدت میں جاری حسابات کے خسارے میں زبردست کمی ہوئی۔ اگر یہ کمی معیشت میں اسٹرکچرل اصلاحات کے نتیجے میں برآمدات میں تیزی سے اضافہ کر کے حاصل کی جاتی تو یہ ایک بڑی اور پائیدار کامیابی ہوتی مگر ایسا نہیں ہوا۔ چنانچہ خدشہ ہے کہ کچھ برس بعد یہ بہتری برقرار نہیں رہے گی۔

بدقسمتی سے موجودہ حکومت نے بھی ان اصلاحات سے اجتناب کیا حالانکہ یہ اصلاحات حکومت کے منشور اور انتخابی وعدوں کا اہم حصہ تھیں۔ گورنر اسٹیٹ بینک نے اعتراف کیا ہے کہ بجٹ خسارے اور جاری حسابات کے خسارے کو کم کرنے کے لئے عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ ڈالا گیا، بجلی ،گیس وپیٹرولیم مصنوعات کے نرخ بڑھائے گئے اور روپے کی قدر میں کمی کی گئی اور یہ کہ ان اقدامات کے نتیجے میں افراط زر میں اضافہ ہوا چنانچہ اسٹیٹ بینک کو شرح سود میں متعدد بار اضافہ کرنا پڑا۔یہ بات نوٹ کرنا اہم ہے کہ وفاقی وزیر توانائی کا کہنا ہے کہ بجلی کے نرخ بڑھا کر حکومت نے ایک سال میں صارفین سے 118؍ارب روپے کی اضافی رقوم وصول کیں ۔

اسٹیٹ بینک اور وزارت خزانہ کے جاری کردہ اعداد وشمار و رپورٹوں کی روشنی میں چند حقائق پیش ہیں:

1۔2019 ء میںمعیشت کی شرح نمو انتہائی سست رہی جو کہ مالی سال 2010ء کے بعد سب سے کم شرح ہے۔بڑے پیمانے پر اشیاء سازی کی صنعتوں کی شرح نمو جو مالی سال 2018ء میں 6.4فیصد تھی مالی سال 2019ء میں منفی 3.6فیصد ہوگئی جو کہ مالی سال 2009ء کے بعد سب سے مایوس کن کارکردگی ہے۔دراصل اپریل 2019ء سے ستمبر2019ء کے چھ ماہ میں بڑے پیمانے پر اشیاء سازی کی صنعت سکڑتی رہی اور ستمبر 2019ء میں یہ منفی 5.6فیصد ہوگئی۔ 2)) بجٹ خسارہ ام الخبائث کہلاتاہے۔ موجودہ حکومت کے معاشی مشیر صاحبان بجٹ خسارہ کم کرنے کو اپنی ترجیح قرار دیتے رہے ہیں مگر بجٹ خسارہ جو مالی سال 2018ء میں 2260؍ ارب روپے (جی ڈی پی کا 6.6فیصد) تھا مالی سال 2019ء میں بڑھ کر 3445؍ ارب روپے (جی ڈی پی کا 8.9 فیصد) ہوگیا۔ یہ بات نوٹ کرنا اہم ہے کہ وفاق اور چاروں صوبوں کے ترقیاتی اخراجات جو مالی سال 2018ء میں 1584؍ارب روپے (جی ڈی پی کا 4.6فیصد) تھے مالی سال 2019ء میں کم ہو کر 1178؍ارب روپے (جی ڈی پی کا 3.1 فیصد) رہ گئے۔ ترقیاتی اخراجات میں کٹوتی سے شرح نمو سست ہوتی ہے اور روزگار کے مواقع کم میسر آتے ہیں۔ حکومت کے منشور کے مطابق تعلیم وصحت کی مد میں وفاق اور صوبوں نے جی ڈی پی کا 7.6فیصد خرچ کرنا تھا مگر مالی سال 2019ء میں بھی اس مد میں صرف تقریباً 3.3 فیصد خرچ کیے گئے۔اس کے علاوہ گردشی قرضے بھی بڑھتے رہے جب کہ ایف بی آر نے ریفنڈ کی مد میں بڑی رقوم روکی ہوئی ہیں چنانچہ مالی سال 2019ء میں بجٹ خسارہ عملاً 15فیصد سے زائد ہوا۔ (3) افراط زر جو مالی سال 2016ء میں 2.9فیصد ، مالی سال 2017ء میں 4.2فیصد اور مالی سال2018ء میں 3.9 فیصد تھا مالی سال 2019ء میں بڑھ کر 7.3فیصد ہوگیا۔تخمینہ ہے کہ موجودہ مالی سال میں افراط زر کی شرح 11فیصد سے زائد رہے گی۔ (4) جی ڈی پی کے تناسب سے مالی سال 2018ء میں داخلی بچتوں کا تناسب 5.1فیصد تھا جو مالی سال 2019ء میںکم ہو کرصرف 4.3فیصد رہ گیا چنانچہ قرضوں پر انحصار بڑھا۔(5)۔ 2018ء کے اختتام پر ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر 138.31روپے تھی جبکہ دسمبر2019ء کے پہلے ہفتے میں یہ شرح تقریباً 155روپے رہی۔ روپے کی قدر میں کمی سے افراط زر اور ملکی کرنسی میں بیرونی قرضوں کا حجم بڑھا مگر برآمدات میں قابل ذکر بہتری نہیں آئی جو بڑی ناکامی ہے۔ 6۔ دسمبر2018ء میں پاکستان کے مجموعی قرضوں و ذمہ داریوں کا حجم 33229؍ ارب روپے تھا جو ستمبر2019ء میں بڑھ کر 41490؍ ارب روپے ہوگیا جوکہ صرف 9 ماہ میں 8261؍ ارب روپے کے اضافے کو ظاہر کرتا ہے۔پاکستان کی تاریخ میں مجموعی قرضوں و ذمہ داریوں میں اس تیز رفتار اضافے کی کوئی مثال موجود نہیں ہے۔ 7۔ اگست 2018ء میں جب پی ٹی آئی اقتدار میں آئی اسٹیٹ بینک کا پالیسی ریٹ 7.5فیصد تھا جو آنے والے مہینوں میں تیزی سے بڑھ کر 13.25 فیصد ہوگیا حالانکہ اس وقت بھارت میں یہ ریٹ 5.15فیصد ہے۔شرح سود زیادہ ہونے کی وجہ سے دوسرے ملکوں سے ٹریزری بلزمیں جولائی سے ستمبر 2019ء میںایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی۔ اسے معیاری سرمایہ کاری نہیں کہا جاسکتا۔ 8۔ مالی سال 2019ء میں گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں براہ راست بیرونی سرمایہ کاری میں52فیصد کمی ہوئی تھی مگر جولائی سے اکتوبر2019ء تک براہ راست بیرونی سرمایہ کاری کا حجم 650؍ ملین ڈالر رہا جبکہ گزشتہ سال اسی مدت میں یہ سرمایہ کاری صرف 192؍ ملین ڈالر رہی تھی۔ 9۔ روپے کی قدر میں کمی اور برآمدکنندگان کو دی جانے والی مراعات کے باوجود مالی سال 2019ء میں گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں برآمدات میں اضافہ نہیں ہوا۔جولائی 2019ء سے اکتوبر2019ء تک تجارتی خسارے میں بھی 33فیصد اورجاری حسابات کے خسارے میں 73فیصد کمی ہوئی مگر برآمدات میں معمولی اضافہ ہوا۔یہ صحت مندعلامت نہیں ہے۔ 10۔ جاری حسابات کے خسارے میں بہتری کو حکومت اپنی بڑی کامیابی قرار دے رہی ہے۔ اس ضمن میں مندرجہ ذیل حقائق چشم کشا ہیں:

i) مالی سال 2008ء میں جاری حسابات کا خسارہ جی ڈی پی کا 8.2فیصد تھا جو کہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا خسارہ تھا ۔ صرف 3برس بعد مالی سال 2011ء میں یہ فاضل ہوگیا تھا مگر صرف 2برس بعد2013ء میں معیشت بحران کا شکار ہوگئی تھی اور حکومت کو آئی ایم ایف سے نجاتی پیکج لینا پڑاتھا۔

ii) مالی سال 2018ء میں جاری حسابات کا خسارہ جی ڈی پی کا 6.3فیصد تھا ۔ موڈیز کا کہنا ہے کہ مالی سال 2020ء اورمالی سال2021ء میں بھی یہ منفی ہی رہے گا۔

11۔ بیرونی ممالک کی ترسیلات جو مالی سال 2018ء میں19.9؍ ارب ڈالر تھیں مالی سال 2019ء میں بڑھ کر 21.8؍ارب ڈالر ہوگئیں جولائی سے اکتوبر 2019ء میں گزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے مقابلے میںترسیلات میں کچھ کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ مالی سال 2014ء سے مالی سال 2019ء کی مدت میں 115؍ارب ڈالر کی ترسیلات پاکستان آئیں چنانچہ جاری حسابات کا خسارہ 55؍ارب ڈالر رہا۔ ترسیلات کو تجارتی خسارے کی مالکاری کے لئے استعمال کرنا آگ سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ تجارتی خسارے کو کم کرنے کے لئے برآمدات میں تیزی سے اضافہ کرنا ہوگا اور غیر ضروری درآمدات کو روکنا ہوگا ۔یہ بات بھی نوٹ کرنا اہم ہے کہ بیرونی ممالک سے پاکستان آنے والی ترسیلات کا بڑا حصہ سرمایہ کاری کی طرف منتقل ہونا چاہئیے تاکہ معیشت کی شرح نمو تیز ہو۔ ترسیلات کا تقریباً 45فیصد سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے آتاہے۔ خدشہ ہے کہ منی لانڈرنگ کو روکنے کی آڑ میں استعماری طاقتیں کسی بھی وقت فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی معاونت سے ان ترسیلات کے حجم میں زبردست کمی کراسکتی ہیںجسے پاکستانی معیشت سنبھال نہیں پائے گی۔

12۔ فنانشل ایکش ٹاسک فورس نے اکتوبر 2019ء میں پاکستان کو فروری 2020ء تک گرے لسٹ میں رکھنے کا فیصلہ کیا ہے اس توسیع کو پاکستان کے لئے آخری موقع قرار دیا جارہا ہے۔ چین کا کہنا ہے کہ امریکہ اور بھارت پاکستان کو بلیک لسٹ میں ڈالنے کی کوششیںکررہے ہیں مگر چین اس کی مزاحمت کرے گا ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ فروری 2020ء میں پاکستان کا گرے لسٹ سے باہر آنے کا امکان نہیں ہے اور خدشہ یہ بھی ہے کہ مالی سال2021ء میں بھی پاکستان گرے لسٹ میں رہ سکتا ہے۔

13۔ مالی سال 2019ء میں عوام پر ٹیکسوں کا مزید بوجھ ڈالاگیا مگر اس کے باوجود اس مالی سال میں ایف بی آر کے ٹیکسوں کی وصولی کا حجم 3829؍ارب روپے رہا حالانکہ مالی سال 2018ء میں 3842؍ ارب روپے کی وصولی ہوئی تھی چنانچہ جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکسوں کی وصولی مالی سال 2018ء کے 11.1فیصد کے مقابلے میں مالی سال 2019ء میں 9.9فیصد رہی۔ جولائی 2019ء سے نومبر 2019ء کی مدت میں ٹیکسوں کی وصولی ہدف سے تقریباً211؍ارب روپے کم رہی ۔خدشہ ہے کہ موجودہ مالی سال میں ٹیکسوں کی وصولی ہدف سے تقریباً 600؍ارب روپے کم رہ سکتی ہے۔

حکومت نے انتخابات سے پہلے ایک دس نکاتی حکمت عملی کا اعلان کیا تھا۔ اس میں کہا گیا تھا کہ اقتدار میں آنے کے 100روز کے اندر عدل پر مبنی ٹیکسوں کی پالیسی نافذ کردی جائے گی ۔ اس سے قبل کے انتخابی منشور میں حکومت نے کہا تھا کہ وفاق اور صوبے ایک مقررہ حد سے زائد ہر قسم کی آمدنی پر مؤثر طور سے ٹیکس عائد کریں گے اور معیشت کو دستایزی بنایا جائے گا۔ یہ پالیسی اب تک نافذ نہیں کی گئی اور نہ ہی پانچ سالہ دور اقتدار میں نافذ ہونے کا کوئی امکان ہے ۔ 100روز کے بجائے اقتدار میں آنے کے 14ماہ بعد ٹیکسوں کے شعبے میں اصلاحات کا ایک تین سالہ پروگرام وضع کیاجارہا ہے ۔

ٹیکسوں کے شعبے میں کسی بھی اصلاحات کے پروگرام سے پہلے وفاق اور صوبوں کو ایک مقررہ حد سے زائد ہر قسم کی آمدنی پر مؤثر طور سے ٹیکس عائد کرنا ہوگا۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت کے دور میں جون 2019ء میں ایف بی آر کی جانب سے قومی اخبارات میں جواشتہارات شائع کرائے گئے تھے ان میں کہا گیا تھا کہ ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کی معیاد ختم ہونے کے بعد اثاثے ظاہر نہ کرنے کی صورت میں 7سال قید اور اثاثوں کی ضبطگی ہوگی۔ اس ضمن میں پیش رفت نظر نہیں آرہی ۔اب ضرورت اس امر کی ہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی مدد سے ٹیکس حکام سے خفیہ رکھے ہوئے ملک کے اندر موجود اثاثوں پر مروجہ قانون کے تحت ٹیکس اور جرمانہ وصول کیا جائے۔ ان اثاثوں کی تفصیلات بمعہ قومی شناختی کارڈ نمبر ریکارڈ میں موجود ہیں۔

وزیر مملکت برائے خزانہ کی حیثیت سے حماد اظہر نے دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ ان کی حکومت جو ٹیکس ایمنسٹی اسکیم جاری کرے گی اس کے تحت بیرونی ملکوں میں رکھے ہوئے کالے دھن کو پاکستان واپس لانے کی شرط پر ہی سفید کرایا جاسکے گا لیکن 2019ء میں جاری کردہ ٹیکس ایمنسٹی اسکیم میں بھی طاقتور طبقوں کے دباؤ پر لوٹی ہوئی دولت کو باہر ہی رکھنے کی اجازت دے دی گئی جو ناقابل فہم اور قومی مفادات سے متصادم فیصلہ تھا۔

بدقسمتی سے پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جو زندہ رہنے کے لئے ملکی وسائل سے زیادہ بیرونی وسائل پر انحصار کرتے ہیں۔ تحریک انصاف کے منشور میں یہ بات زور دے کر کہی گئی تھی کہ ملکی وسائل میں اضافہ کرکے معیشت کو ترقی دی جائے گی۔ حکومت کے 2013ء کے انتخابی منشور میں قوم سے جو وعدے کیے گئے تھے ان میں چند یہ ہیں: i) وفاق اور صوبے ہر قسم کی آمدنی (بشمول زرعی شعبہ،غیر منقولہ جائیداد سیکٹر اور اسٹاک ایکسچینج وغیرہ) پرٹیکس (مؤثر طور سے) عائد کریں گے۔ ii) ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ کیے بغیر ٹیکسوں کی وصولی بڑھائی جائے گی۔ iii ) صوبائی حکومت کو اس اصول پر عمل کرنا چاہئیے ’’ریاست اس جائیداد کو قومی ملکیت میں لے آئے جس کی مالیت مارکیٹ کے نرخ سے کم ظاہر کی جائے۔‘‘

iv) صحت کے شعبے میں اخراجات میں 5برسوں میں6گنا اضافہ کردیا جائے گا اور تعلیم کے شعبے میں 5برسوں میں5گنا اضافہ کردیا جائے گا۔ منشور میں مزید کہا گیا تھا کہ تعلیم اور صحت کی مد میں جی ڈی پی کا 7.6فیصد خرچ کیا جائے گا مگر اس کا نصف بھی خرچ نہیں کیا جارہا۔ v) توانائی کے بحران کو حل کرنے کے لئے صوبوں کو کردار ادا کرنا چاہئیے۔

حکومت نے 2018ء کے انتخابات سے قبل جو 10نکاتی حکمت عملی کا اعلان کیا تھا ۔اس میں کہا گیا تھا ’’ پہلے 100روز کے اند ر معیشت کی بحالی اور قرضوں پر انحصارکم کرنے کے لئے کاروبار دوست اور عدل پر مبنی ٹیکس پالیسی لاگو کی جائے گی۔‘‘ عدل پر مبنی ٹیکس پالیسی کے بنیادی نکات میں مندرجہ ذیل شامل ہوتے ہیں:

i) وفاق اور صوبوں کا ایک مقررہ آمدنی سے زائد ہر قسم کی آمدنی پر بلا کسی استثنیٰ ٹیکس مؤثر طور سے نافذ اور وصول کرنا۔ ii) معیشت کو دستاویزی بنانا اور کالے دھن کو سفید ہونے سے روکنا۔

iii) ودہولڈنگ ٹیکس کے نظام اور نان فائلر کے تصور کو ختم کرنا۔

حکومت کے مندرجہ بالا وعدوں پر اب بھی عمل کیا جائے تو پاکستانی معیشت کی شرح نمو 8-10فیصد سالانہ سے زائد رہے سکتی ہے اور ایسی معاشی ترقی بھی حاصل ہوسکتی ہے جس کے ثمرات میں عوام کو لازماً حصہ ملے وگر نہ پاکستان پر قرضوں کابوجھ بڑھتا رہے گا، معیشت بیرونی وسائل کی محتاج رہے گی ، غربت ، بے روزگاری اور عوام کی محرومیاں بڑھتی رہیںگی اور قومی سلامتی کے لئے خطرات بھی بڑھیں گے۔

تازہ ترین