اسلام آباد (انصار عباسی) جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کیخلاف سنگین غداری کیس میں استغاثہ نے ستمبر 2014ء میں شواہد مکمل کرکے اپنا کام پورا کرلیا تھا لیکن مدعا علیہ کے تاخیری حربوں کی وجہ سے یہ کیس مزید پانچ سال تک کیلئے لٹکا رہا۔
کیس کے حقائق دیکھیں گے تو اس پروپیگنڈا کی نفی ہوگی کہ اسپیشل کورٹ نے پرویز مشرف کی قسمت کا فیصلہ غیر شائستہ عجلت میں کیا اور سابق آمر کو اپنا دفاع کرنے کا موقع تک نہ دیا۔
جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو سنگین غداری جیسے سخت مقدمہ کا سامنا تھا جس کا ٹرائل قانون کے مطابق تیز رفتار ہونا چاہئے لیکن فیصلہ آنے میں 6؍ سال لگ گئے کیونکہ مشرف نے تاخیری حربے استعمال کیے۔
فوجداری ترمیمی قانون (اسپیشل کورٹ) ایکٹ 1976ء کے تحت اسپیشل کورٹ کے روبرو پیش کردہ مقدمہ کا ٹرائل اسلئے نہیں روکا جا سکتا کہ کوئی ملزم بیماری کی وجہ سے غیر حاضر ہے، یا پھر ملزم یا اس کا وکیل غیر حاضر ہے، یا پھر غیر حاضری سے قبل ملزم کا رویہ ایسا ہے جس سے انصاف کی راہ میں رکاوٹ پیدا ہو، ایسی کسی بھی صورت میں اسپیشل کورٹ کی کارروائی جاری رہے گی اور ضروری اقدامات کیے جائیں گے اور ایسے ملزم کے دفاع کیلئے وکیل تعینات کیا جائے گا۔ لیکن اس واضح قانونی پوزیشن کے، مشرف کا ٹرائل 6؍ سال تک جاری رہا۔
پرویز مشرف کیخلاف سنگین غداری کا کیس 17؍ دسمبر 2013ء کو اسپیشل کورٹ کے روبرو پیش کیا گیا تھا۔ عدالت نے پرویز مشرف کو 24؍ دسمبر 2013ء کو پیش ہونے کیلئے کہا۔
تاہم، طلبی کے نوٹس جاری کیے جانے کے باوجود، اقتدار سے نکال باہر کیے گئے آمر نے مختلف بہانے کرکے پیشی نہ دی۔ تاوقتیکہ 2؍ جنوری 2014ء کو دوپہر 12؍ بجکر 15؍ منٹ پر اعلان کیا گیا کہ اگرچہ ملزم سخت حفاظت میں اپنے گھر سے عدالت میں پیش ہونے کیلئے نکلا لیکن راستے میں ملزم کو دل کی تکلیف ہوئی اور وہ وہیں سے طبی امداد کیلئے اسپتال روانہ ہوگیا۔ اسپیشل کورٹ نے یکم جنوری 2014ء کو واضح ہدایات جاری کیں کہ اگر ملزم دو جنوری کو عدالت میں پیش ہونے میں ناکام رہا تو عدالت ان کی حراست کے متعلق قانون کے مطابق فیصلہ کرے گی۔ 2
؍ جنوری سے 31؍ مارچ تک ملزم آرمڈ فورسز انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیولوجی میں بھرتی رہا حالانکہ وہاں اسے درد کش دوا دی گئی اور نہ ہی کوئی طبی ٹیسٹ ہوئے۔
ملزم کی طرف سے عدالت کو بتایا گیا کہ انجیو گرافی کی وجہ سے حالت ایسی نہیں کہ وہ عدالت میں پیش ہو سکے اور صحت کو خطرات لاحق ہیں۔
31؍ مارچ 2014ء تک ملزم کی جانب سے 13؍ متفرق درخواستیں دائر کی گئیں جنہیں عدالت نے نمٹا دیا۔ آرمڈ فورسز انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیولوجی راولپنڈی، جہاں ملزم کو بھرتی کیا گیا تھا، سے کہا گیا کہ ملزم کی حالت کے متعلق رپورٹ جمع کرائی جائے، اور 31؍ جنوری 2014ء کے آرڈر میں سوالات اور جوابات شامل ہیں۔
31؍ مارچ کو ملزم جنرل (ر) پرویز مشرف پہلی اور آخری مرتبہ عدالت میں پیش ہوئے اور نتیجتاً ان پر سنگین غداری کی فرد جرم عائد کر دی گئی۔ عدالت نے ملزم جنرل (ر) پرویز مشرف کو حراست میں نہیں رکھا لیکن نشاندہی کی کہ ’’باوجود اس کے کہ ملزم پر لازم ہے کہ وہ عدالت کے طلب کرنے پر ہر مرتبہ پیش ہوں اور وہ جواز پیش کرکے حاضر ہونے سے استثنیٰ حاصل کر سکتے ہیں۔
استغاثہ کا مقدمہ 18؍ ستمبر 2014ء کے آرڈر کے ساتھ بند کردیا گیا اور قانون کے مطابق اگلا مرحلہ ضابطہ فوجداری کے سیکشن 342؍ کے تحت ملزم کا معائنہ تھا۔ اس موقع پر (موجودہ وزیر قانون) بیریسٹر فروغ نسیم ملزم پرویز مشرف کی طرف سے پیش ہوئے اور درخواست دی کہ 536؍ مزید ملزمان کو طلب کیا جائے۔
21؍ نومبر 2014ء کے آرڈر میں خصوصی عدالت نے استغاثہ کو ہدایت دی کہ وہ شکایت میں ترامیم کرکے جمع کرائے اور سابق وزیراعظم شوکت عزیز، وفاقی وزیر زاہد حامد اور سابق چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کے نام شامل کرے۔
ان تینوں افراد نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور اس وقت کے چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا جس نے 26؍ فروری 2016ء کو حکم جاری کیا کہ جنرل (ر) پرویز مشرف اس کیس میں واحد ملزم ہیں اور اسپیشل کورٹ کا اس ضمن میں آرڈر کالعدم قرار دیا گای اور عدالت سے کہا گیا کہ وہ تیز رفتار ٹرائل کرے اور غیر ضروری بنیادوں پر کارروائی معطل نہ کی جائے۔
سپریم کورٹ کے 26؍ فروری 2016ء کے آرڈر کے بعد، اسپیشل کورٹ نے 08؍ مارچ 2016ء ملزم پرویز مشرف کو ہدایت دی کہ وہ 31؍ مارچ 2016ء کو صبح ساڑھے 9؍ بجے بذات خود پیش ہوں اور ضابطہ فوجداری کے سیکشن 342؍ کے تحت بیان ریکارڈ کرائیں۔
اس تاریخ کے آنے سے قبل ہی اور عدالتی حکم کے باوجود ملزم جنرل ملک سے روانہ ہوگئے اور قانون کا مفرور رہنے کا انتخاب کیا۔
ان کی غیر موجودگی میں اسپیشل کورٹ دو سے زیادہ مرتبہ از سر نو تشکیل دی گئی۔
مشرف کو کم از کم 6؍ مرتبہ کہا گیا کہ وہ عدالت میں پیش ہوں لیکن وہ واپس ہی نہیں آئے۔