خصوصی عدالت نے سنگین غداری کیس میں سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو سزائے موت کا حکم دے دیا۔
خصوصی عدالت کے سربراہ وقار سیٹھ نے سنگین غداری کیس کا مختصر فیصلہ سنایا۔
خصوصی عدالت کے 3 رکنی بنچ نے دو ایک کی اکثریت سے یہ فیصلہ دیا جبکہ اس پر ایک جج نے اختلاف کیا۔
عدالت کا کہنا ہے کہ جنرل پرویز مشرف پر آرٹیکل 6 کا جرم ثابت ہوتا ہے، تفصیلی فیصلہ 48 گھنٹے میں سنایا جائے گا۔
اس سے قبل آج خصوصی عدالت میں سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی سماعت ہوئی جس کے دوران عدالت نے استغاثہ کی شریک ملزمان کے نام کیس میں شامل کرنے کی درخواست مسترد کر دی۔
استغاثہ نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ سابق چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر، سابق وزیر قانون زاہد حامد اور سابق وزیرِ اعظم شوکت عزیز کو بھی شریک ملزم بنایا جائے۔
خصوصی عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اس پر سپریم کورٹ کا فیصلہ آ چکا ہے، آپ نے ترمیمی شکایت داخل کرنے سے متعلق وفاقی کابینہ کی منظوری لی؟
وکیل استغاثہ علی باجوہ نے جواب دیا کہ سیکریٹری داخلہ کو 12 دسمبر کو خط لکھا تھا۔
عدالت نے ہدایت کی کہ ہمارے سامنے اس سے متعلق کوئی درخواست نہیں، آپ کیس کے میرٹس پر دلائل دیں۔
وکیل استغاثہ علی باجوہ نے کہا کہ ہم 2 مزید گواہان پیش کرنا چاہتے ہیں۔
جسٹس سیٹھ وقار نے کہا کہ آپ استغاثہ ہو کر ملزم کے دلائل دے رہے ہیں، آپ پرویز مشرف کی بریت کی درخواست کی مخالفت کریں گے یا نہیں؟
وکلائے استغاثہ علی باجوہ اور منیر بھٹی ایڈووکیٹ نے کہا کہ ہم بریت کی درخواست کی مخالفت کریں گے۔
عدالت نے سماعت کے دوران متعدد بار ہدایت کی کہ استغاثہ اپنے دلائل شروع کرے۔
وکیل استغاثہ علی باجوہ نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیئر ٹرائل کا فیصلہ بھی آچکا ہے۔
جسٹس سیٹھ وقار نے کہا کہ ہمیں سپریم کورٹ کے فیصلے کو دیکھنا ہے۔
پرویز مشرف کے سابق وکیل سلمان صفدر نے عدالت میں بولنے کی اجازت مانگ لی۔
یہ بھی پڑھیئے: سنگین غداری کیس بے بنیاد ہے، مشرف کا ویڈیو پیغام
عدالت نے انہیں ہدایت کی کہ ہم آپ کو بولنے کی اجاز ت نہیں دے سکتے، آپ پہلے سپریم کورٹ سے اپنے فیصلے پر ریویو کرائیں، یہ پیچیدہ مقدمہ ہے، آپ کو اجازت نہیں دے سکتے، البتہ آپ رضا بشیر کی معاونت کر سکتے ہیں۔
جسٹس سیٹھ وقار نے کہا کہ اشتہاری کا کوئی حق نہیں ہوتا جب تک وہ عدالت کے سامنے سرینڈر نہ کرے۔
جسٹس نذر اکبر نے کہا کہ استغاثہ 100 فیصد بد دیانتی کر رہا ہے۔
پرویز مشرف کے وکیل رضا بشیر نے دلائل دیتے ہوئے عدالت سے استدعا کی کہ پرویز مشرف کو 342 کا بیان دینے کا ایک اور موقع دیں۔
جسٹس سیٹھ وقار نے کہا کہ عدالت نے موقع فراہم کیا، اب وہ وقت گزر چکا ہے، آپ کیس کے میرٹس پر دلائل دیں، آپ 342 کا بیان دیں، آپ کو سن لیا، آپ کا شکریہ۔
سنگین غداری کیس، کب کیا ہوا؟
پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کا مقدمہ نومبر 2013ء میں سابق حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ نون نے درج کیا تھا۔
بطور آرمی چیف 3 نومبر 2007ء کو ملک کا آئین معطل کر کے ایمرجنسی لگانے کے اقدام پر پرویز مشرف کے خلاف یہ مقدمہ درج کیا گیا تھا جس میں اب تک 100 سے زائد سماعتیں ہوئیں جب کہ اس دوران 4 ججز تبدیل ہوئے، عدالت نے متعدد مرتبہ پرویز مشرف کو حاضر ہونے کا حکم اور وقت دیا لیکن وہ عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔
خصوصی عدالت نے مارچ 2014ء میں پرویز مشرف پر فردِ جرم عائد کی تھی جبکہ ستمبر میں پراسیکیوشن کی جانب سے اس کیس میں ثبوت فراہم کیے گئے، تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم امتناع کے بعد خصوصی عدالت پرویز مشرف کے خلاف مزید سماعت نہیں کر سکی۔
جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف 2016ء میں عدالت کے حکم پر ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نام نکالے جانے کے بعد بیرونِ ملک چلے گئے تھے۔
مشرف کے خلاف تحقیقات ایف آئی اے نے کیں
ذرائع کے مطابق پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی تحقیقات ایف آئی اے نے کیں، جن کے دوران ایف آئی اے نے وزارتِ دفاع سے بھی رابطہ کیا۔
ذرائع نے بتایا ہے کہ ایف آئی اے نے پرویز مشرف کے خلاف مقدمے کی تحقیقات کے دوران سابق گورنر پنجاب خالد مقبول، سابق سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ، سابق سیکریٹری کابینہ اور دیگر شخصیات کے بیانات بھی لیے۔
ذرائع نے مزید بتایا ہے کہ ایف آئی اے میں تحقیقات کا آغاز انسدادِ دہشت گردی ونگ کے سربراہ خالد قریشی نے کیا، جبکہ ایک مرحلے پر موجودہ ڈپٹی چیئرمین حسین اصغر بھی ان تحقیقات سے منسلک رہے۔