یہ غالباً یکم نومبر 2007ء کی بات ہے جب مجھے پتا چلا کہ حکومت ایمرجنسی نافذ کرنے جا رہی ہے، میں نے ملک قیوم جو اس وقت اٹارنی جنرل تھے، سے رابطہ کیا اور پوچھا کہ کیا واقعی حکومت ایسا کرنے جا رہی ہے؟ جواباً ان کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ کوئی اور راستہ ہی نہیں بچا۔ میں نے انہیں سمجھایا کہ اس سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ جتنے ججوں سے حکومت کو مسئلہ ہے، پانچ، چھ، سات، آٹھ، ان کے خلاف ریفرنس دائر کر دیا جائے، ایمرجنسی پلس کا آئین میں کوئی تصور نہیں اور میرے خیال میں یہ فیصلہ درست نہیں۔ انہوں نے میری بات غور سے سنی اور اس پر کافی دیر بحث بھی کرتے رہے لیکن پھر 3نومبر 2007ء کو حکومت نے ایمرجنسی نافذ کر دی اور تمام ججوں کو گھر بٹھا دیا گیا۔ اس کے بعد وکلا تحریک چلی اور پھر افتخار چوہدری سمیت تمام ججوں کو بحال کرنا پڑا۔ لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ جو معاملات تھے، یہ قانونی سے زیادہ سیاسی تھے اور سیاست میں تشریحات اور طرح سے کی جاتی ہیں، اس میں قانونی معاملات کی طرح پیچیدگیاں تلاش نہیں کی جاتیں۔ اب اس کیس کو بنیاد بنا کر جو پرویز مشرف کو انتہائی غداری کے جرم میں سزائے موت کی سزا سنائی گئی ہے، میرے خیال میں قطعاً درست نہیں۔ ابھی حال ہی میں بورس جانسن جو برطانیہ میں دوبارہ وزیراعظم منتخب ہوئے ہیں، نے پارلیمنٹ کو معطل کر دیا تھا لیکن برطانوی سپریم کورٹ نے اسے بحال کر دیا۔ اب اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ بورس جانسن پر غداری کا کیس بنا دیا جائے۔ پرویز مشرف کو جو سزا سنائی گئی وہ آئین کی معطلی پر ہے۔ لیکن اُن تین لوگوں مخدوم علی خان، ملک قیوم اور زاہد حامد، جنہوں نے اس حوالے سے قانونی مسودہ تیار کیا، کو شاملِ تفتیش کرنا تو دور کی بات ان کا بیان لینا بھی ضروری نہیں سمجھا گیا۔ پھر اُس وقت کے وزیراعظم اور اس وقت کی کابینہ نے اس کی توثیق کی تھی، چاروں اسمبلیوں میں اس کے حق میں قرارداد پاس کی گئی تھی۔ اب کیا یہ ممکن ہے کہ ایک آدمی کو تو لٹکا دیں لیکن باقیوں کو چھوڑ دیں کہ ان پر زور نہیں چلتا۔
ریاست اور ریاستی قوانین بہتے دریا کی طرح ہیں، اس میں نیا پانی آتا رہتا ہے، نئے واقعات ہوتے ہیں اور نئی حکمتِ عملیاں ترتیب پاتی ہیں۔ ماضی میں پھنسے رہنا ہرگز کوئی عقلمندی نہیں ہے۔ عمر خیام نے کہا تھا کہ جس لمحے میں آپ جی رہے ہیں، وہی لمحہ آپ کا ہے، نہ ماضی آپ کا ہے، نہ مستقبل آپ کا ہے۔ ہمیں بھی پہلے لمحۂ موجود کی فکر کرنی چاہئے۔ اگر ہم ماضی کے گڑے مردے اکھاڑنے لگیں تو معاملات خرابی کی طرف بڑھنے لگتے ہیں مثلاً جب افتخار چوہدری بحال ہو کر واپس آئے تو انہوں نے آتے ساتھ ہی سو کے قریب ججوں کو گھر بھیج دیا۔ اب آئین میں ججوں کو گھر بھیجنے کی ذمہ داری سپریم جوڈیشل کونسل پر ہے لیکن افتخار چوہدری نے اس کی خلاف ورزی کی، اسی طرح یوسف رضا گیلانی صاحب گواہ ہیں کہ انہیں آرٹیکل 19کہ ججوں کی تقرری پارلیمانی کمیٹی کرے گی، پر بلیک میل کیا گیا، ججوں کی تنخواہیں بڑھانے پر دبائو ڈالا گیا، افتخار چوہدری نے اپنی مرسڈیز گاڑی کے لیے پوری حکومت کو مجبور کیا، اب کیا انہیں ہم غداری کیس میں سزا دیدیں؟ افتخار چوہدری کے فیصلوں کے نتیجے میں کارکے کیس میں ریاستِ پاکستان کو ایک بلین ڈالر جبکہ ریکوڈک میں تقریباً چھ بلین ڈالر جرمانہ ہوا۔ تین سو ملین ڈالر سے زیادہ پاکستان نے وکیلوں کی فیسیں بھریں، اسٹیل مل سمیت ایسے اور بہت سے معاملات ہیں کہ پاکستان کو اربوں، کھربوں کا نقصان ہوا۔ اب کیا افتخار چوہدری اور ان کے ساتھی ججوں کا غداری کیس میں ٹرائل کرنا چاہئے؟ ماضی میں رہ کر ہم معاملات کو درست نہیں کر سکتے،اب ہمیں صرف آگے کی طرف دیکھنا چاہئے۔
میرے خیال میں حالیہ بحران کا آغاز تب ہوا جب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تحریکِ لبیک پاکستان کے دھرنا کیس میں فیصلہ سناتے ہوئے آئی ایس آئی اور اس کے سربراہ کے کردار پر لمبی چوڑی توضیحات دیں۔ اسی طرح فاٹا اور دیگر علاقوں سے پکڑے گئے دہشت گردوں سے متعلق بریت کے پے درپے فیصلے آئے جس پر عسکری حلقوں کو سخت اعتراضات تھے۔ اسی دوران آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کا معاملہ آیا اور پھر پرویز مشرف کی سزائے موت کا فیصلہ۔ ان سب فیصلوں کے تسلسل سے یہ تاثر ملا کہ فوج کے ادارے کے خلاف ایک منظم مہم چلائی جا رہی ہے۔ مہذب دنیا میں ایسا نہیں ہوتا، وہاں تمام ادارے اپنی حدود کا پاس رکھتے ہیں لیکن ہم نے دیکھا کہ عدلیہ نے کئی بار اپنی حدود سے تجاوز کیا، مثلاً ابھی ایک کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے موٹروے پر ہیوی بائیک چلانے کی اجازت دینے کا فیصلہ سنایا ہے۔ یہاں پر میرا سوال یہ ہے کہ ان ججوں کے پاس کیا ایکسپرٹیز ہیں کہ ہائی ویز پر موٹر بائیکس چلنی چاہئیں یا نہیں۔ جو کام عدلیہ کا نہیں وہ عدلیہ کو نہیں کرنا چاہئے، جو مقننہ کا نہیں، وہ مقننہ کو نہیں کرنا چاہئے، جو فوج کا نہیں وہ فوج کو نہیں کرنا چاہئے۔ تمام ادارے اپنے اختیارات کی حدود کا تعین کریں گے تو ہی ہم اس ملک میں ایک مستحکم جمہوری نظام دیکھ سکتے ہیں وگرنہ یہاں دھینگا مشتی، جو بڑے عرصے سے جاری ہے، مزید جاری رہے گی، جس کے ہم قطعاً متحمل نہیں ہو سکتے۔
اس وقت پاکستان کی ساٹھ فیصد سے زیادہ آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے، اگر ہم پرانی غلطیاں ہی دہراتے رہے تو ہماری ملکی مسائل پر توجہ نہیں رہے گی، اگر اس وقت ہم اپنی معیشت پر توجہ نہ دے سکے، بیروزگاری کے سیلاب کے آگے بند نہ باندھ سکے تو ملک میں انارکی پھیل جائے گی۔ اس لیے اداروں کو مل بیٹھ کر مسائل کا حل نکالنا ہو گا اور امریکہ کی ’’نیو ڈیل‘‘ کی طرز پر نیو ڈیل کرنی چاہئے۔ اپنے اپنے اختیارات کو پہچاننا چاہئے اور یہ طے کرنا چاہئے کہ کون سا ادارہ کہاں اور کیا رول ادا کرے گا اور کیا نہیں کرے گا۔ عدلیہ، فوج، اپوزیشن اور حکومت، ان چاروں کو مل بیٹھ کر، سوچ بچار کرکے یہ طے کرنا ہوگا کہ ہماری حدود کیا ہیں، ، دوسرے اداروں سے وابستہ اپنی توقعات سامنے رکھ کر نیا عمرانی معاہدہ کرنا ہو گا کہ کون سے کام ہمارے کرنے والے ہیں اور کون سے نہیں۔ اسی طرح ہم پاکستان کو ایک مضبوط جمہوری اور فلاحی مملکت بنا سکتے ہیں۔