• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خدائے تعالیٰ نے انسان کی حرمت کو مقدم قرار دیا ہے اور ایک انسان کے ہاتھوں دوسرے انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا ہے۔ باہمی احترام اور رواداری کو اگر معاشرے میں مروج نہ کیا جائے تو معاشرہ جاہلیت کے دور کا معاشرہ قرار پائے گا اور انسان کے ہاتھوں انسان تباہی کی طرف گامزن ہو جائے گا۔ طاقتور گروہ کمزور پر غالب آ جائے گا اور غلامی کا طوق انسان دوبارہ دوسرے انسان کے گلے میں ڈال دے گا۔ اس کے برعکس رواداری، احترام اور عزت کا دور دورہ ہوگا تو معاشرے میں ترقی ہو گی۔ باہمی احترام اور دوسرے کی حرمت کا خیال رکھا جائے گا، بھوک اور افلاس سے جان چھوٹے گی اور انسانی معاشرہ علم و ہنر کا گہوارہ قرار پائے گا۔ گزشتہ دنوں پاکستانی معاشرے کے دو باعلم طبقات میں تصادم نے پورے معاشرے کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ کالے کوٹ نے سفید کوٹ پر حملہ کر کے اپنی تعلیم کے اثرات اور ثمرات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے جس طرز عمل کا مظاہرہ کیا اس نے معاشرے کے ہر طبقے کو سوچنے پر مجبور کر دیا کہ ایک پڑھے لکھے مسلم معاشرے میں مریضوں کی جائے شفا کے ساتھ اتنا بہیمانہ اور بے رحم سلوک بھی کیا جا سکتا ہے۔ جن لوگوں کے آرام و سکون اور تکلیف سے نجات کے لیے بہترین ماحول کی ضرورت تھی ان کے اطراف میں آنسو گیس کی بو پھیلا کر ان کا سانس لینا دو بھر کر دیا گیا۔ لواحقین کو گولیوں کی تھرتھراہٹ اور شیشوں کے ٹکروں سے بچنے کے لیے پناہ لینے پر مجبور کر دیا گیا۔ جدید دور میں کیمروں کی آنکھ نے ہر عمل کو براہ راست پوری دنیا میں دکھایا۔ اک طلسم ہوشربا کے ماحول میں طبی مددگار خواتین کی آہ و بکا ٹی وی اسکرینوں پر جاری تھی اور ہر کوئی مدد کے لیے پکار رہا تھا۔ صحت کی تلاش میں اپنے عزیزوں کو لانے والے ان کے لاشے لے کر گھروں کو پہنچے اور ہر ایک سے سوال کر رہے تھے کہ وہ اپنے عزیزوں کا خون کس کے ہاتھ پر تلاش کریں۔ قانون کے محافظ وکلا جو یقیناً ایک باوقار اور معزز پیشہ سے وابسطہ ہیں، کا موقف اپنی جگہ درست ہے۔ تاہم ان کی عزت نفس کو جو ٹھیس پہنچی اس کے مداوا کے لیے جو راستہ اپنایا گیا وہ کسی طور بھی ٹھیک نہ تھا، دوسروں کو قانونی راستہ دکھانے والے کیوں قانون شکنی کی راہ پر گامزن ہوئے، اس کی وجوہات کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ وکلا کو یہ شکایت ہے کہ ان کے خلاف وڈیو وائرل کی گئی جس سے ان کی بیعزتی ہوئی جبکہ ڈاکٹروں کا موقف ہے کہ ان کے درمیان صلح ہو گئی تھی۔ لہٰذا دوبارہ جلوس لے کر حملہ آور ہونے کی ضرورت نہ تھی۔ غیر جانبدار طبقات کا خیال ہے کہ پولیس کو چاہیے تھا کہ وہ وکلا کے جلوس کو اسپتال سے دور روک لیتی اور انہیں اسپتال پہنچنے سے قبل ہی منتشر کر دینا چاہیے تھا۔ بہرحال جو بھی ہوا، اس واقعہ کے بعد بہت سی وڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل کی گئیں جن میں وکلا کو پُرتشدد دکھایا گیا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ دانستہ طور پر کیا جا رہا ہے اور وکلا کی غلطی کو بڑھا چڑھا کر دکھایا جا رہا ہے تاکہ اپنی مرضی کے نتائج حاصل کیے جا سکیں۔ کارڈیالوجی میں اور اس کے اطراف میں جو کچھ ہوا وہ قومی نقصان ہے، اس طرح کے اسپتال روز روز نہیں بنتے۔ تاہم اب جو کچھ ہوا، اس کو مستقبل کی پیش بندی کے لیے استعمال کر کے مثبت نتائج حاصل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس طرح کے واقعات دوبارہ رونما نہ ہو سکیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وکلا تنظیموں اور ڈاکٹروں کی تنظیموں کو اعتماد میں لے کر فوری طور پر عملی اقدامات کرے۔ وزیر صحت اور وزیر قانون وکیلوں اور ڈاکٹروں کے ساتھ سر جوڑ کر بیٹھیں اور ایک قابل عمل سمجھوتا سامنے لائیں تاکہ معاشرے کے دونوں پڑھے لکھے طبقات کی عزت نفس کو بھی ٹھیس نہ پہنچے اور معاملہ اپنے منطقی انجام کو پہنچ جائے۔

تازہ ترین