• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مریم نواز کیخلاف کوئی کیس نہیں،عدالت سے توقع حکومت سے نہیں، عطا تارڑ

مریم نواز کیخلاف کوئی کیس نہیں،عدالت سے توقع حکومت سے نہیں، عطا تارڑ 


کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کےپروگرام ”نیا پاکستان “ میں میزبان شہزاد اقبال سے گفتگو کرتے ہوئے ن لیگ کے رہنما عطا تارڑ نے کہا ہے کہ مریم نواز کے خلاف کوئی کیس نہیں ،ہمیں عدالت سے توقع ہے حکومت سے نہیں ہے،تجزیہ کار سلیم صافی نے کہا کہ ن لیگ کی خاموشی کی وجہ بالکل واضح ہے،تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا کہ جسٹس کھوسہ کو آئین اور قانون کی بہت سمجھ تھی ،سابق صدرسپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن رشید اے رضوی نےکہا کہ جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس کھوسہ کے ادوار انتہا پسندی پر مبنی تھے۔ ن لیگ کے رہنما عطا تارڑ نے مریم نواز کی ای سی ایل سے نام نکالنے کی اور درخواست کے حوالے سے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ9 دسمبر کو ہائی کورٹ میں پہلی درخواست دی گئی تھی اور ہماری عدالت سے استدعا یہ تھی کے ہمیں عدالت سے توقع ہے کیونکہ وفاقی حکومت کے وزرااس پر اپنا موقف پیش کرچکے ہیں اور وقتاً فوقتاً بیانات کے ذریعے کہہ چکے ہیں کہ وفاقی حکومت اجازت نہیں دے گی ہفتے کو جو رٹ پٹیشن دائر کی گئی ہے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ ہم نے کورٹ سے رابطہ کیا تھا عدالت نے7 دنوں کا وقت دیا تھا لیکن وفاقی حکومت ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کرسکی اور ہمیں توقع بھی نہیں ہے۔مریم نواز کے خلاف کوئی کیس نہیں ہے میرٹ پر ان کی ضمانت ہوئی ہے وہ ابھی کسی ادارے کو مطلوب نہیں ہیں جب بھی ان کو بلایا گیا ہے انہوں نے ہمیشہ تعاون کیا ہے ہمیں جب بھی بلایا جائے گا ہم حاضر ہوجائیں گے ان کا اس وقت سارا فوکس والد کی تیمار داری ہے چھ ہفتے کی درخواست ہم نے فی الفور ریلیف کے لئے دی ہے لیکن ہماری ترجیح یہ ہے کہ ہمارا نام ای سی ایل سے مستقبل بنیادوں پر نکالا جائے ہمیں عدالت سے توقع ہے وفاقی حکومت سے نہیں ہے ۔سینئر تجزیہ کار سلیم صافی نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ خاموشی کی وجہ تو بالکل واضح ہے ان کے ساتھ وعدہ یہ ہوا ہے کے فروری مارچ تک آپ کی اس ڈھیل کو ہم ڈیل میں بدل دیں ایک تو وہ خوف ہے ان کو کہ کہیں ڈھیل واپس نہ ہوجائے اور دوسراہماری ڈیل سبوتاژ ہوجائے مولانا کے ساتھ بھی یہ ہوا اور پیپلز پارٹی کے ساتھ بھی یہی ہوا ہے دوسری جانب عمران خان پوری طرح یہ کوشش کررہے ہیں کہ وہ جو سی بی ایم ہیں اور یہ جو ایک دوسرے کو ڈھیل کا سلسلہ ہے اس کو سبو تاژ کریں تاکہ یہ ڈھیل ڈیل میں نہ بدلے کیونکہ ڈیل کا مطلب یہ ہوگا کہ عمران خان کی چھٹی اس لئے انہوں نے اس دوران شہباز شریف وغیرہ کے ساتھ خصوصی سختی شروع کردی ہے یہ تو ماضی میں بھی ہوا تھا کہ شہباز شریف نے مریم نواز کوبھی خاموش کیا تھا اور نواز شریف بھی خاموش تھے نواز شریف مولانا کی اے پی سی میں بھی نہیں آرہے تھے۔مریم نواز پوری طرح آن بورڈ ہیں تو اس وجہ سے وہ خاموش ہیں وہ والد کی بیماری کی وجہ سے خاموش نہیں ہیں شہباز شریف خاموش اس لئے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو عمران خان سے زیادہ بہتر متبادل اور تابعدار ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔بدقسمتی یہ ہے کہ نہ سیاسی جماعتیں ماضی سے سیکھتی ہیں نہ ادارے ماضی سے سیکھتے ہیں آج ن لیگ کی قیادت کو چاہئے کہ یہ یو ٹرن لینے سے قبل مریم نواز کی قیادت میں خواجہ آصف، عرفان صدیقی یہ سارے انقلابی اٹھ کے وہ چوہدری نثار سے معافی مانگنے چلے جائیں چوہدری نثار کو بھی اس بات کی سزا مل گئی کہ وہ کہہ رہے تھے کہ یہ پنگے نہ لو اب ادھر کا یو ٹرن دیکھیں مسلم لیگ ن کا اور دوسری طرف عمران خان کا یو ٹرن لے گئے کہ وہ 2007ء سے مشرف کو غدار کے الفاظ سے یاد کررہا تھا وہ ان کو آرٹیکل 6 ہونا چاہئے تو ہر طرف یو ٹرن یو ٹرن۔اگر کوئی اپنے آپ کو سیاستدان یا رہنما کہتا ہے تو وہ اپنے آپ کو ایک لمحے کے لئے بھی ملکی معاملات سے لاتعلق نہیں رہ سکتاسیاست میں چھٹیاں نہیں لی جاتیں مسلم لیگ ن کا مسئلہ یہ ہے کے یہ ہمیشہ قیام کے وقت سجدے میں چلے جاتے ہیں اور سجدے کے وقت قیام کی کوشش کرتے ہیں ان سے آج اتنا بھی نہیں ہوتا کے ان سے وفاداری کی وجہ سے شاہد خاقان اور رانا ثناء اللہ جیل میں ہیں ان کی ایک پیشی پر ہی مریم نواز چلی جائیں ۔سینئر تجزیہ کارسہیل وڑائچ نے کہا کہ ہم جو بھی جائزہ لیں اس کے مثبت اور منفی دونوں پہلوؤں کا جائزہ لینا چاہئے جسٹس کھوسہ بہترین لیگل مائنڈ تھے ایسے لوگوں میں شمار تھے جن کو آئین و قانون کی بہت سمجھ تھی بڑے بڑے فیصلے جرأت اور بہادری سے دیئے سوموٹو کے اختیار کو جو جسٹس ثاقب نثار کے دور میں مذاق بن گیا تھا اس کو انہوں نے ختم کیااپنی نمود و نمائش انہوں نے ختم کی۔ دوسرا ان میں یہ پہلو تھا کے وہ تاریخ میں اپنا کوئی مقام پیدا کرکے جانا چاہتے تھے تو آخری دنوں کے ان کے فیصلوں میں یہ چیز نظر آئی ہے اور اس سے پہلے دووزرائے اعظم کو گھر بھیجناجن کی آئین میں گنجائش نہیں تھی انہوں نے خود اپنی تشریح کرکے ان وزرائے اعظم کو گھر بھیجا ۔ ان کے فیصلوں میں ان کی دانش نظر آئی،جسٹس گلزار کے زمانے میں معاملات شاید سلجھیں گے لیکن کئی معاملات جن پر ان کا اسٹینڈبڑا سخت ہوگااس سے شاید معاملات الجھ بھی جائیں۔سابق صدرسپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن رشید اے رضوی نےکہا کہ جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس کھوسہ کے ادوار انتہا پسندی پر مبنی تھے۔184/3 میں یہ ایک فیصلہ نہیں ہے یہ ایک چیف جسٹس نے نہیں کہاہے ریگولرائز کرنا چاہئے جو سپریم کورٹ رولز1990ء ہے 1980ء ہے اس میں یہ تبدیلیاں کرنا پڑیں گی کے184/3 کس طرح سے ریگولیٹ ہوں گی ایک آدمی پر چھوڑیں گے تو گزشتہ دو چیف جسٹس کی مثالیں آپ کے سامنے ہے۔میزبان شہزاد اقبال نے پروگرام میں اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ مصلحت یا مجبوری ڈیل یا دباؤ یا ن لیگ کی سیاسی حکمت عملی ،مسلم لیگ ن پرویز مشرف کے خلاف فیصلے پر کچھ کیوں نہیں بول رہی ن لیگ کے قائدین کی اس خاموشی پرکئی سوالات اٹھ رہے ہیں ن لیگ کا خاموش رویہ ڈیل کے تاثر کومضبوط کررہا ہے اورن لیگی رہنما خود اس تاثر کی تصدیق کررہے ہیں جو جماعت اس کیس کی سب سے بڑی مدعی تھی جسے مشرف کے اقدامات سے سب سے زیادہ نقصان ہواجس کے قائد کو طیارہ ہائی جیکنگ کیس میں جیل میں ڈالا گیا اور اس کے بعد جلا وطن کردیا گیا وہ جماعت اس کے سربراہ پورے معاملے پرخاموش کیوں ہیں کیا ن لیگ کی خاموشی کسی ڈیل کانتیجہ ہے یا کوئی ایسی مجبوری یا دباؤ ہے جس کی وجہ سے ن لیگ خاموش ہے یا یہ واقعی کسی سیاسی حکمت عملی کی وجہ سے ہے ایک سیاسی جماعت کا کام ہے کے وہ مختلف سیاسی اوربین الاقوامی مسائل پراپنی حکمت عملی اور رائے واضح کرے یہ سیاست ہے کوئی کاروبار نہیں کے حالات کے حساب سے خاموش رہا جائے یا خاموشی کو توڑ دیا جائے اور خاص طور پر وہ جماعت جو کچھ عرصے پہلے تک آئین اور قانون کی بالادستی کی تحریک چلانے کا دعویٰ کرتی تھی نواز شریف یہ کہتے رہے تھے کہ وہ پہلے نظریاتی نہیں تھے مگر اب وہ نظریاتی بن گئے ہیں مگر آج نواز شریف اور ان کی جماعت ایک ایسے فیصلے پر خاموش ہے جو انہوں نے خود ہی شروع کیا تھا۔  

تازہ ترین