قیام پاکستان سے قبل شکارپور خوبصورت باغات، رنگا رنگ ثقافتی تفریح گاہوں، کتب خانوں، تعلیمی اداروں اور علمی و ادبی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔ اسی وجہ سے اس شہر کو سندھ کا پیرس کہا جاتا تھا۔ یہاں بڑے بڑے ہندو تاجر اور اعلیٰ تعلیم یافتہ شخصیات کی بدولت دور دور تک اس کا شہرہ تھا۔ شیخ ایاز کے اجداد کا تعلق اسی شہر سے تھا۔ ان کا خاندان سندھ کے نامور صوفی بزرگ حضرت شاہ فقیر اللہ علوی کے دستِ مبارک پر مشرف بہ اسلام ہوا۔شیخ ایاز کے والد غلام حسین شیخ نے تین شادیاں کیں، تیسری بیوی دادن سے شیخ مبارک حسین 2 مارچ 1923 ء بمطابق 14 رجب 1341ھ بروز جمعہ سندھ کے تاریخی شہر شکارپور میں پیدا ہوئے۔
شیخ مبارک حسین نے بعد میں دنیائے ادب میں شیخ ایاز کے قلمی نام سے شہرتِ دوام حاصل کی۔ ان کے والد لاء ایجنٹ تھے اور اپنی پیشہ ورانہ مصروفیت کے تحت ہندوستان بھر میں گھوما کرتے تھے۔غلام حسین شیخ کو اردو اور فارسی ادب کے مطالعہ کا خصوصی ذوق و شوق تھا اور ان کے پاس ان زبانوں کی منتخب کتابوں اور رسالوں کا بڑا ذخیرہ موجود تھا، لہٰذا شیخ ایاز کو بھی اردو اور فارسی ادب کا ذوق ورثہ میں ملا تھا۔ زمانہ طالبِ علمی میں کلام اقبال سے گہری دلچسپی پیدا ہوئی اور سندھی شعراء خصوصاً شاہ عبد اللطیف بھٹائی، سچل سرمست اور سامی کا کلام بھی خوب پڑھا اور خود بھی شعر کہنے لگے، ساتھ ہی کہانیاں لکھنے میںبھی دلچسپی پیدا ہوئی۔
انہوں نے میٹرک اور انٹرمیڈیٹ تک کی تعلیم شکارپور میں حاصل کی۔ 1943ء میں کراچی کے ڈی جے کالج میں داخلہ لیا اور بی اے کی تعلیم کا سلسلہ شروع کیا۔ انہیں فلسفہ اور فارسی سے خاص رغبت تھی۔ مالی مشکلات کے سبب بی اے کرنے کے بعد کچھ عرصہ ملازمت کی۔ پھر سندھ یونیورسٹی سے ایم اے اور ایل ایل بی کی ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد کراچی میں وکالت کا باقاعدہ آغاز کیا۔ 1950ء کی دہائی کی ابتدا میں سکھر کو اپنا مستقر بنا لیا۔
شیخ ایاز کو بچپن ہی سے لکھنے پڑھنے کا شوق تھا، چنانچہ پہلی غزل سندھی زبان میں لکھی اور کھیئل داس فانی کو دکھائی جنہوں نے نہ صرف شیخ ایاز کی حوصلہ افزائی کی بلکہ مشورہ دیا کہ وہ حاجی محمود خادم کی عروض پر لکھی ہوئی کتابوں کا مطالعہ کریں اور شاعری کی مشق کو جاری رکھیں۔
محمد ابراہیم جویو کے مطابق شیخ ایاز کی پہلی غزل نما نظم چودہ برس کی عمر میں 1938ء میں شکارپور سے شائع ہونے والے رسالے ’سدرشن‘ میں شائع ہوئی تھی۔ قیام پاکستان کے آس پاس جب شیخ ایاز تعلیم کے سلسلے میں کراچی میں مقیم تھے تو یہاں انہیں جدید اور روشن خیال ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں کے ایک وسیع حلقے کی قربت حاصل ہو گئی تھی۔ ڈی جے کالج اور کراچی شہر میں سندھی ادبی سرکل اور انجمن ترقی پسند مصنفین کی منعقدہ نشستوں میں شرکت کے مواقع بھی انہیں میسر ہوئے۔
ان اجلاسوں میں ڈاکٹر ہوت چند مول چند گربخشانی، پروفیسر رام پنجوانی، دیا رام منشا رامانی، ڈاکٹر سدا رنگانی، کاکو بھیرومل، لال چند امر ڈنومل اور عثمان علی انصاری جیسے سینئر لوگ اور گوبند مالھی، نارائن شیام، عبد الرزاق راز اور سوبھو گیان چندانی جیسے ہم عصر لکھنے والے اور دانش ور بھی شریک ہوتے تھے۔
شیخ ایاز 1976ء تک سکھر میں کامیابی سے وکالت کرتے رہے۔ 13 جنوری 1976ء کو وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو نے انہیں سندھ یونیورسٹی کا وائس چانسلر مقرر کیا۔ وہ اپنے عہدے کا چارج سنبھالتے ہی شاہ عبد اللطیف بھٹائی کے مزار پر حاضری دینے گئے۔ انہوں نے سندھ یونیورسٹی میں قائم انسٹی ٹیوٹ آف سندھیالوجی کی ترقی کے لیے بڑا کام کیا۔ سندھ کے نوجوان ادیبوں اور شاعروں کے علاوہ اردو کے عالم اور ادیبوں کی خدمات مستعار لیں۔ انہوں نے فیڈرل ایجوکیشن سیکریٹری کی مدد سے غیر ملکی اسکالرشپ حاصل کیں۔
اساتذہ اور ملازمین کی رہائش کے لیے نئے کوارٹر اور بنگلے تعمیر کرائے۔ تمام لائبریریوں کے لیے نئی کتابیں اور ہزاروں رسائل و جرائد اندرون و بیرونِ ملک سے خریدے۔ ان کی نگرانی میں یونیورسٹی کے مختلف شعبہ جات کی جانب سے تحقیقی جرائد کا اجرا عمل میں لایا گیا۔وہ 22 جنوری 1980ء تک اپنے عہدے کی مدت پوری کرنے کے بعد سندھ یونیورسٹی اور جامشورو شہر کو الوداع کہتے ہوئے واپس سکھر چلے آئے اوردوبارہ وکالت شروع کی ۔
شیخ ایاز سندھی اور اردو دونوں زبانوں میں اظہار کی بے مثال تخلیقی صلاحیت رکھتے تھے۔ ’بوئے گل نالہ دل‘ کے نام سے جولائی 1954ء میں شائع ہونے والا ان کا پہلا مجموعہ کلام ہے جو ان کی اردو شاعری ہی پر مشتمل تھا۔ اس مجموعے میں شامل منظومات نے ندرت خیال، تازگی، جدت آفرینی اور اثر پذیری کی بنا پر اردو کے ادبی حلقوں کو چونکا دیا تھا۔
شیخ ایاز تخلیقی اظہار کی بے پناہ صلاحیتوں کے حامل فن کار تھے اور جدید نظم و نثر کی جملہ اصنافِ ادب میں نت نئے تجربات کرنے پر قدرت رکھتے تھے۔ چنانچہ جدید سندھی ادب کے متعدد پہلوؤں پر ان کی تخلیقی شخصیت کا پرتو صاف دکھائی دیتا ہے۔ جدید سندھی افسانے کے باب میں بھی وہ اس ہراول دستے میں شامل رہے ہیں لیکن قیام پاکستان کے بعد شیخ ایاز آہستہ آہستہ افسانہ نگاری سے دور ہوتے چلے گئے اور شاعری کی دیوی دن بہ دن ان پر مہربان ہوتی گئی اور انہوں نے آنے والے چند عشروں میں اپنے شاعرانہ کمالات سے سندھی ادب میں انمٹ نقوش چھوڑے۔
قیام پاکستان کے وقت شیخ ایاز ایک نوجوان، پُر جوش اور انقلاب پسند شاعر کی حیثیت سے جانے پہچانے جاتے تھے۔ حیدرآباد سے 1955-56ء میں اختر انصاری اکبرآبادی نے ماہنامہ ’نئی قدریں‘ اور حمایت علی شاعر نے ماہنامہ ’شعور‘ کا اجرا کیا تو ان جریدوں میں ایاز کی منظومات کے علاوہ ان کی شاعری اور شخصیت پر بھی مضامین شائع ہوئے۔ 1956ء میں سندھی ادبی بورڈ کے سہ ماہی جریدے ’مہران‘ میں شیخ ایاز کے سندھی ابیات اور کافیوں وغیرہ کو نمایاں طور پر شائع کیا، اس طرح سندھ کی قدیم شعری اصناف کو نئی زندگی ملی اور ایاز کی سندھی شاعری اور نثر نگاری جدید سندھی ادب کی پہچان بن گئی۔
ون یونٹ کے قیام پر سندھی اہل قلم اور دانشوروں کی جانب سے سخت رد عمل ظاہر ہوا۔ خصوصاً سندھ میں ایک مزاحمتی تحریک نے جنم لیا۔ اس تحریک نے صرف سیاسی طور پر ون یونٹ کی مخالفت نہ کی بلکہ سندھی تشخص اور قومیتی شناخت کا تاریخی شعور بھی پیدا کیا تھا۔ وطن پرستی اور حب الوطنی شروع ہی سے سندھی شاعری کے بنیادی رجحانات رہے ہیں۔ اس دور میں ایاز کا گیت ’’سندڑی تی سرکیرنہ ڈیندو‘‘ (سندھ پر سر کون نہ دے گا ) سندھ کے گوشے گوشے میں گونجا اور ایاز کی شاعری کو بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی۔
شیخ ایاز کثیر التصانیف ادیب تھے۔ ان کے شعری مجموعوں میں یونریري اکاس،کلھی پاتم کينرو، ڪکي جو ٻيجل یوليو، وجون وسن آيون، ڪکپرتو کن کري،لژیو سج لکن ۾، پتن توپور پورکري،ٹکراٹٹل صليب جا، پن چن بجاٹان،، واتون قلن چانئیون، چند چنبيلي ول، رت تي رم جھم، الودائي گيت،سمیت دیگر تصنیفات شامل ہیں۔ اس کے علاوہ جیل کی یادداشتیں ساھيوال جيل جي ڈ ڊائري (پروفیسر کرن سنگھ نے اس کتاب کو اردوکے قالب میں ڈھالا ہے جو ’’ساہیوال جیل کی ڈائری‘‘ کے نام سے مکتبہ دانیال کراچی نے شائع کیا ہے)، خودنوشت سوانح ، افسانوی مجموعوں میں سفيد وحشي، کان پوء، جي تند برابر توريان و دیگرشامل ہیں۔
اردو شاعری کے دو مجموعے ’بوئے گل نالہ دل‘ اور ’نیل کنٹھ اور نیم کے پتے‘ شائع ہو چکے ہیں۔ ’حلقہ میری زنجیر کا‘ ان کی شاعری کا اردو ترجمہ ہے جسے اردو کی نامور شاعرہ فہمیدہ ریاض نے نہایت خوش اسلوبی سے اردو میں منتقل کیا ہے۔ اس کے علاوہ ان کے خطوط پر مشتمل مجموعہ بھی ہے۔ ان تمام تخلیقات کے علاوہ ان کا سب سے بڑا کارنامہ شاہ عبد اللطیف بھٹائی کے مجموعہ کلام ’شاہ جو رسالو‘ کا منظوم اردو ترجمہ ہے جو ’رسالہ شاہ عبد اللطیف بھٹائی‘ کے نام سے شائع ہوا، اس ترجمہ کو سندھ یونیورسٹی نے 1963ء میں شائع کیا تھا، اس کے اب تک متعدد ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ ان کی دیگر کتابوں میں اسان جي سند(شیخ ایاز کا مرتب کیا ہوا افسانوں کا مجموعہ جس میں مختلف سندھی افسانہ نگاروں کے افسانے شامل ہیں)،یگت سنگ کي قاسي (منظوم تمثیل)، خط انٹرويو تقريرونـ۱، خط انٹرويو تقريرونـ۲ شامل ہیں۔
شیخ ایاز ان عظیم فن کاروں میں شامل ہیں جو اپنی زندگی ہی میں Legend بن جایا کرتے ہیں۔ شیخ ایاز کو یہ افتخار بھی حاصل ہے کہ انہوں نے نہ صرف سندھی زبان کی شعری روایت کو آگے بڑھایا بلکہ اس میں نئی معنویت، جہتیں اور نئے امکانات بھی پیدا کیے ہیں۔ کلاسیکی شعری روایت کی بازیافت نے انہیں سندھی زبان و ادب کی تاریخ میں جاوداں کر دیا ہے۔ شیخ ایاز کی شاعری کے تراجم ہندی، اردو، فرانسیسی، جرمن،سرائیکی، انگریزی اور پنجابی زبانوں میں ہو چکے ہیں۔
انہوں نے دو شادیاں کیں جن میں سے انہیں چار بیٹے اور چار بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ اپنی زندگی کے آخری سال کراچی میں گزارے۔ دوست احباب سے الگ تھلگ اور دل کی بیماری کے باوجود وہ آخر وقت تک لکھتے رہے۔ بالآخر 28 دسمبر 1997ء کو کراچی میں اس جہانِ فانی سے کوچ کر کے دنیائے ادب کو ہمیشہ کے لیے سوگوار کر گئے۔ انہیں بھٹ شاہ میں شاہ عبد اللطیف بھٹائی کے مزار کے پاس کرار جھیل کے کنارے سپردِ خاک کیا گیا۔