چہار سو ایک شور برپا ہے۔ دشمنانِ پاکستان ارضِ وطن کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے کے درپہ ہیں۔ کچھ اندرونی عاقبت نااندیش قوتیں اور کچھ کج فہم بیرونی آقائوں کی آغوش میں بیٹھ کر پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی سازشوں میں مصروف ہیں۔ یہ حقیقت تو روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ جب بھی کسی ملک کو تباہ کرنا مقصود ہو تو اُس ملک اور اُس ملک کے اداروں کے درمیان خلیج حائل کر دی جاتی ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں وہ کام جو دشمن کیا کرتے ہیں وہ اپنوں نے سرانجام دیئے ہیں۔ وہ اپنے کون ہیں؟ مجھے اُن کا نام لینے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے۔ پاکستان کے باشعور عوام بخوبی جانتے ہیں کہ اداروں اور عوام کے درمیان تصادم کے خواب دیکھنے والے ارضِ وطن کے لئے آستین کے سانپ ثابت ہوئے ہیں۔ ایوانِ اقتدار سے محروم ہونے والوں نے کبھی عدالتوں کے وقار پر اُنگلی اُٹھائی تو کبھی افواجِ پاکستان کو ہدفِ تنقید بنایا۔ افسوس صد افسوس کہ اقتدار کے بُھوکے اور پیاسے لوگ یہ بات کیوں بُھول جاتے ہیں کہ جس ریاست کا دفاعی نظام کمزور کر دیا جائے پھر اُس ریاست کے عوام کی نہ جان سلامت رہتی ہے اور نہ ہی مال۔ نہ ہی عزت کی ضمانت دی جا سکتی ہے اور نہ ہی آبرو کی مگر افسوس کہ خوش قسمت پاکستان کے چند بدقسمت سیاسی بازی گروں نے کبھی اِس فلسفے کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ امرِ واقعہ یہ ہے کہ یہ بات تو پاکستان کا ہر فرد جانتا ہے کہ یہ وطن جان و مال کی ہر قربانی دے کر حاصل کیا گیا تھا لیکن بقائے پاکستان کے لئے ہماری فوج بےمثال اور مثبت کردار نبھا رہی ہے۔ پاک فوج کی مثال ایسے گھنے درخت کی سی ہے جس کے سائے تلے پاکستانی قوم آزادی کی سانس لے رہی ہے۔ پاک فوج کے حفاظتی دستے ہماری سرحدوں پر دن اور رات چوکس رہتے ہیں، عوام کو چین کی نیند فراہم کرنے کے لئے اپنی نیندیں قربان کیے رہتے ہیں۔ دنیا میں ایسے ممالک بھی ہیں جو اپنی افواج پر سالانہ کھربوں ڈالر خرچ کرتے ہیں اور ایسے بھی جن کی عسکری تاریخ صدیوں پر محیط ہے، مگر جب بات معیار کی ہو تو سرِفہرست اُس ملک کی فوج کا نام آتا ہے جسے قائم ہوئے ابھی صرف بہتر سال ہوئے ہیں اور جس کے وسائل بھی بہت محدود ہیں۔ یوں تو ہماری فوج ہر لحاظ سے صف اول میں شمار ہوتی ہے مگر بعض ایسے اعزازات بھی ہیں جو دنیا کی تاریخ میں صرف پاکستانی فوج کے پاس ہیں۔ اور اسی وجہ سے پاک فوج پوری دنیا میں عظمت اور شجاعت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہے، جو کہ پوری قوم کیلیے باعث فخر ہے۔
دنیا کی نظر میں دہشت گردی کا مرکز تصور کیے جانے والے پاکستان کے قبائلی علاقہ جات آج افواجِ پاکستان کے عزم اور قربانیوں سے امن و محبت کا گہوارہ بن چکے ہیں۔ قیامِ پاکستان سے لے کر 1980کی دہائی کے آغاز تک پاکستان کی مغربی سرحد پر واقع قبائلی علاقہ جات کو برطانوی سامراج کے چھوڑے ہوئے فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن کے تحت چلایا جارہا تھا۔ انتظامی اور ترقیاتی اعتبار سے یہ اہم ترین خطہ کسی بھی حکومت کی ترجیح میں شامل نہیں رہا، اور یوں بالآخر افغانستان میں روسی مداخلت نے اسے مزاحمتی تحریک کا مرکز بنا دیا۔ یہ علاقہ افغان جنگجوئوں کی تربیت اور اُنہیں مسلح کرنے کا مقام قرار پایا، جنوبی وزیرستان کے صدر مقام وانا کے مضافات میں دوران فوجی آپریشن ملنے والے وسیع و عریض تربیتی مراکز اس کا واضح ثبوت ہیں۔2003 کے فوجی آپریشن کے بعد بھی جنوبی وزیرستان کسی حد تک ایک پرسکون علاقہ تھا، تاہم تواتر سے ہونے والے ڈرون حملوں کے باعث یہاں امن و امان کی صورتحال مخدوش تر ہوتی چلی گئی، پاک افغان سرحد پر واقع شمالی وزیرستان، جنوبی وزیرستان اور خیبر ایجنسی سمیت سات ایجنسیوں کو عسکریت پسندوں کی محفوظ پناہ گاہ سمجھا جانے لگا اور یہاں دہشت گردوں اور سیکورٹی فورسز کے مابین جھڑپ کے واقعات معمول بنتے چلے گئے۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے اسی علاقے میں جنم لیا جبکہ پاکستان کی اکثر کالعدم تنظیموں کا مرکز بھی یہ علاقہ رہا۔
پاک فوج نے2009 میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور اس کے سربراہ بیت اللہ محسود کے خلاف آپریشن راہ نجات کا آغاز کیا۔ اس آپریشن کے دوران 72ہزار خاندان بےگھر ہوئے، لیکن اس کے باوجود آگ و خون کا کھیل امن وامان کی صورتحال کو تار تار کرنے میں ریاست کا پیچھا کرتا رہا، اور پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے حملے نے حکومت پاکستان اور سیکورٹی اداروں کو احساس دلایا کہ پانی سر سے گزر چکا ہے۔ جس پر نیشنل ایکشن پلان کے تحت اس علاقے کو مرکزی قومی دھارے میں لانے کا فیصلہ کیا گیا، حکومتی کمیٹی بنی اور قبائلی اصلاحات کا پیکج تیار ہوا۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان کی بصیرت اور دور اندیشی کے باعث گزشتہ برس قومی اسمبلی میں 31ویں آئینی ترمیم کے ذریعے فاٹا کی تمام 7شورش زدہ ایجنسیوں کا صوبہ خیبرپختونخوا کے ساتھ انضمام ہو چکا ہے، خیبرپختونخوا سے انضمام کے بعد پولیس نے لیویز فورسز کی جگہ لے کر فاٹا کی ذمہ داری سنبھال لی ہے، اور یہاں سول و فوجداری عدالتوں نے کام شروع کردیا ہے۔ یہاں پولیس اسٹیشن تعمیر کیے جارہے اور مقامی لوگوں کو پولیس میں نوکریاں دی جارہی ہیں۔ حکومت کا فاٹا پر آئندہ10 برسوں میں 10کھرب روپے خرچ کرنے کا منصوبہ ہے جبکہ صحت، تعلیم، انفرا اسٹرکچر، مواصلات، امن و امان، سیکورٹی اور سیاحتی شعبوں میں پہلے ہی ترقیاتی کام کا آغاز ہو چکا ہے۔
اسکولوں کے لیے عمارتیں زیر تعمیر ہیں، اسپتال تعمیر کیے جارہے ہیں جبکہ وزیراعظم پاکستان عمران خان روزانہ کی بنیاد پر ان علاقوں کے ترقیاتی پروگرام کی خود نگرانی کرتے ہیں۔ جنوبی وزیرستان میں موبائل فون سروسز کی فراہمی یقینی بنائی گئی ہے، اس کے بعد اسے باجوڑ میں بھی فراہم کیا جائے گا۔ درہ آدم خیل کی دکانوں پر جہاں چھوٹے ریوالوروں سے لے کر کلاشنکوفوں تک ہر قسم کی بندوقیں بکتی تھیں، اور جو کہ پشاور اور دیگر شہروں میں پرتشدد حملوں میں استعمال ہوتیں، یہاں آج اسلحہ خانوں کی جگہ لائبریریاں قائم ہورہی ہیں، اور لائبریری میں آنے والے افراد کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ جنوبی وزیرستان ایجنسی میں قائم ہونے والے دو کیڈٹ کالج فاٹا کے طلبا کو اچھی اور معیار ی تعلیم کے زیور سے آراستہ کر رہے ہیں جس کی وجہ سے آج فاٹا کے نوجوان پاک فوج سمیت ملک کے دیگر اداروں میں جا کر خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ افواج پاکستان ہر محاذ پر پاکستان کی حفاظت کے لئے اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔ ایسے میں وزیراعظم پاکستان عمران خان کی بصیرت کو بھی داد دینا پڑے گی جنہوں نے پہلی مرتبہ وطنِ عزیز کو مضبوط سے مضبوط تر اور ناقابل تسخیر بنانے کے لئے اداروں اور عوام کے درمیان پُل کا کردار ادا کیا ہے۔ یہ پہلی جمہوری حکومت ہے جوعوام کے دِلوں میں اداروں کے احترام کو جاں گزیں کر رہی ہے اور ایسے میں ملک دشمن قوتیں اپنی ناکامی پر نوحہ کناں ہیں۔