سائیکالوجسٹ کہتے ہیں کہ پاگل پن ایک بیماری ہے جس میں پاگل شخص اپنے اردگرد کے لوگوں سے تعلق توڑ دیتا ہے۔ تو کیا ہمارے حکمران خدانخواستہ اس بیماری کے شکار تو نہیں ہو چکے ہیں؟ جہاں ان کا تعلق اپنے گردو پیش اور اپنے عوام سے ختم ہو چکا ہے۔
کل شام گھر لوٹا تو برآمدے میں والدہ محترمہ کو ایک درمیانی عمر کی عورت سے محوِ گفتگو پایا۔ خاتون کے ساتھ 4بچے بھی تھے جو برآمدے کے سامنے صحن میں ایک دوسرے کیساتھ کھیل کود میں مشغول تھے۔ ایک چھوٹا بچہ خاتون نے گود میں اٹھایا ہوا تھا جو مسلسل رو رہا تھا۔ میں اماں کو سلام کرنے کے بعد اپنے کمرے میں چلا گیا۔
کچھ دیر بعد امی جان اس خاتون کو رخصت کرنے کے بعد اندر تشریف لائیں اور فرمانے لگیں کہ اس خاتون کا نام سحر تھا اور وہ سات بچوں کی والدہ ہیں۔ سب سے بڑا بیٹا دس سال کا تھا۔ اس کا شوہر باچا خان چوک کوئٹہ میں فروٹ کی ریڑھی لگاتا تھا۔ زندگی اچھی گزر رہی تھی کہ ایک دن وہ بم دھماکے کے نتیجے میں شہید ہوگیا اور انکی زندگی تاریک ہوگئی اور بات فاقوں تک آ پہنچی ہے۔
اسی سلسلے میں کچھ مدد لینے آئی تھی۔ والدہ محترمہ نے کچھ پیسے دے کر اس کی وقتی ضرورت کو پورا کر دیا۔ میں نے پوچھا اماں کیا حکومت نے حکومتی کمپنسیشن پالیسی کے تحت ان کی مدد نہیں کی تھی؟ کہنے لگی اس بیچاری کو یہ کیا معلوم ہے، اس نے تو میاں کو بڑی مشکلوں سے دفنا دیا تھا۔
سحر کو مرحوم شوہر کا حکومتی کمپنسیشن کیوں نہیں ملا اور اس جنگ میں لقمہ اجل بننے والے عام شہریوں کے لئے کمپنسیشن کے حصول کا طریقہ کار کیا ہے؟ کیا حکومت ایسے لوگوں کا ڈیٹا خود جمع کرکے مدد کرتی ہے یا پھر لواحقین کو خود درخواست دینا پڑتی ہے۔
یہ معلوم کرنے کے لئے ہوم ڈیپارٹمنٹ پہنچا، انڈر سیکرٹری کمپنسیشن کے کمرے میں اتفاقاً ایک سال قبل 18ستمبر 2018کو ضلع قلعہ سیف اللہ بازار میں ٹارگٹ کلنگ میں شہید ہونے والے تین لیویز اہلکاروں میں شامل سپاہی عبدالکبیر کے والد سے ملاقات ہوئی۔ میں نے پوچھا کہ کمپنسیشن کیس میں کوئی مشکل تو پیش نہیں آئی تو کچھ بتانے کے بجائے وہ کبھی میری طرف تو کبھی انڈر سیکرٹری کے طرف دیکھتے رہے۔
ان کے کمرے سے باہر آئے تو کہنے لگے کہ بیٹا میں خود شرمندگی محسوس کررہا ہوں کہ آج مجبور ہوکر اپنے بچے کے خون کا معاوضہ طلب کررہا ہوں۔ 6ماہ تک اس امید پر تھا کہ حکومت خود یہ کام کریگی اس واقعہ کے ایک سال کے بعد ابھی دو ہفتے قبل کمپنسیشن کی مد میں بڑی مشکل سے 20لاکھ روپے دیئے گئے ہیں جبکہ منظوری 50لاکھ روپے کی ہوئی ہے۔
30 لاکھ کی رقم دینا باقی ہے۔ ابھی لیویز کے پاس مجھے دینے کے لئے پیسے نہیں ہیں، ایک سال سے اپنی جیب سے خرچہ کرکے 12مرتبہ کوئٹہ آیا ہوں اور ہر دفعہ کم از کم 5ہزار روپے خرچہ آیا ہے۔ شہادت کے دن کے بعد سے آج تک بچے کی تنخواہ بند ہے جبکہ حکومتی پالیسی کے تحت شہید کی تنخواہ جاری رہتی ہے۔
آپ میرے بچے کے ساتھ شہید ہونے والے لیویز اہلکار خیراللہ کیلئے بھی آواز اٹھائیں۔ اُس کے کیس کا اب تک فیصلہ نہیں ہوا ہے، اُس کا خاندان مشکلات میں گھرا ہوا ہے۔ اس طرح کے دیگر سینکڑوں کیسز ہیں جن کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔ میں حیران ہوں کہ یہ کیسا صوبہ ہے کہ اس میں شہید کا والد بھی پریشان اور زندہ شخص کا والد بھی۔
حکومت کو عوام کے مسئلے سے کوئی سروکار نہیں، کمپنسیشن کمیٹی ضلع کی سطح پر ڈپٹی کمشنر کی سربراہی میں کام کرتی ہے جس کے بعد کسی جاں بحق یا زخمی شخص کے کاغذات چیک کرنے کے بعد ہوم ڈیپارٹمنٹ کو ارسال کیے جاتے ہیں جہاں چھان بین کے بعد دوبارہ کیس تیار ہوتا ہے۔
سمری سیکرٹری فنانس اور چیف سیکرٹری بلوچستان سے ہوتی ہوئی وزیراعلیٰ کے پاس مہینوں میں پہنچ جاتی ہے جس کی منظوری کے بعد عام شہری کو مرنے کی صورت میں پندرہ لاکھ جبکہ شدید زخمی کو پانچ لاکھ اور معمولی زخمی کو 2 لاکھ روپے ادا کیے جاتے ہیں جبکہ سرکاری ملازم کی سمری صرف فنانس ڈیپارٹمنٹ تک جاتی ہے۔
کمپنسیشن کے اِس مشکل اور بظاہر اپنوں کے خون کا سودا کرنے والے اس عمل میں پندرہ لاکھ روپے لینے کے لئے متاثرہ خاندان کو مختلف مراحل سے گزرنے کے ساتھ سرکاری بابوؤں کی مٹھیاں بھی گرم کرنا پڑتی ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کے پاس صوبے میں دوردراز علاقوں میں شادیوں میں شرکت کے لئے سرکاری ہیلی کاپٹر کے استعمال کے لئے تو ماہانہ لاکھوں روپے قومی خزانے میں موجود ہیں۔ کمپنسیشن کی عمل کو مزید آسان بنانے کی ضرورت ہے۔
ڈپٹی کمشنر کو یہ اختیار دیا جائے کہ وہ جانچ پڑتال کے بعد متاثرین کو فوری پیسے جاری کرے اگرچہ یہ رقم مرنے والے کسی شخص کی زندگی کا مداوا تو نہیں کر سکتی لیکن مالی بدحالی سے خاندان کو وقتی ریلف دے سکتی ہے۔ بیشک بعد میں یہ حکومتی کارروائی کی جاتی رہے لیکن میں سوچنے لگا کہ کیا میں ایک پاگل خانے میں ہوں؟ جہاں سب پاگل اچھا کھا پی رہے ہیں۔
ایک دوسرے سے گپ شپ کر رہے ہیں۔ اُنہیں صحت کی بہترین سہولیات میسر ہیں۔ انہیں بےروزگاری کا کوئی اندیشہ نہیں ہے۔ اور اس پاگل خانے میں سب پاگلوں نے اپنے سردار پاگل کو پگڑی پہنائی ہوئی ہے اور واہ واہ کر رہے ہیں۔ آپ بھی سوچئے اور میں بھی سوچتا ہوں۔