سکھر کی مسجد منزل گاہ کا سانحہ برصغیر کے مسلمانوں کے لئے ایک اہم واقعہ ہے جس کا تذکرہ ماضی کی تاریخ میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ مسجد منزل گاہ سکھر میں دریائے سندھ کے کنارے پرانے اور نئے سکھر کے درمیان جزیرہ سادھو بیلہ کے عین سامنے واقع ہے۔مغل شہنشاہ اکبر اعظم کے ایک نواب میر معصوم شاہ بکھری نے اس کی تعمیر کرائی تھی۔ سکھر شہر کے بالکل سامنے دریائے سندھ کے عین وسط میں ایک ہندو سادھو نے1800ء کے لگ بھگ ایک مندر ’’شری سادھو بیلہ‘‘ کے نام سے تعمیر کرایا۔
1839ء میں جب برطانوی فوج نے سکھر پر قبضہ کیا توانگریز افسران نے اپنی رہائش اور دفاتر کے لئے مساجد اور مزارات کو منتخب کر لیا۔ رچرڈ برٹن کے کہنے کے مطابق جو اولین افسران ان مقامات پر پہنچے انہوں نے مزارات کی دیواروں کو توڑ کر کھڑکیاں بنا لیں۔ برآمدوں کو مٹی اور کیچڑ سے بھر دیا اور ان کو بنگلوں میں تبدیل کر دیاگیا۔ مسجد منزل گاہ کا میدان اور اس کی عمارتیں بھی کئی برس تک ان کے استعمال میں رہیں اور وہ ریزیڈنسی کہلاتی تھی۔ 1882ء میں سکھر کے کلکٹر نے رپورٹ دی کہ اس عمارت کو دریائے سندھ کی طغیانی کی وجہ سے خطرہ لاحق ہو گیا ہے لہٰذا ان میں قیام پذیر تمام افسران کو وہاں سے ہٹا دیا گیا ہے۔
پھر 1883ء میں سپرنٹنڈنگ انجینئر نے کمشنر سندھ کو رپورٹ دی کہ ریزیڈنسی کو دوبارہ قابل رہائش نہیں بنایا جا سکتا اور سفارش کی کہ اس کو منہدم کردیا جائے۔ بالآخر اس عمارت کو گرا کر برطانوی افسروں کو وہاں سے دوسری جگہ منتقل کر دیا گیا۔ 1884ء میں ایسی تمام عمارتوں کو برطانوی افسر خالی کر گئے لیکن مسجد منزل گاہ مسلمانوں کو واپس نہیں کی اور مسلمان اس کی بجائے ایک دوسری عمارت میں نمازکی ادائیگی کرتے رہے۔
مسلمانوں نے مسجد کے قبضے کو انگریزوں سے واگزار کرانے کے لیے کوششیں جدوجہد شروع کیں۔۔ 1940ء میں پہلی باربرطانوی سرکار سے باضابطہ طور سے اسے مسلمانوں کو واپس کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ جب مسلمانوں نے اس کی بازیابی کے لئے جدوجہد شروع کی تو ہندوئوں نے اس کی مخالفت کی اور کہا کہ چونکہ یہ مسجد سادھوبیلہ کی حدود میں واقع ہے اس لئے اسے مسلمانوں کو واپس نہیں کرنا چاہئے۔ بہرحال انگریزوں نے اس مطالبے کو تسلیم نہیں کیا۔ انہوں نے مسجد کے گرد ایک کمپائونڈ وال تعمیر کی تاکہ ہندوؤں کے جذبات مجروح نہ ہوں۔
ہندو اس فیصلے سے مطمئن نہ تھے اور انہوں نے مخالفت برقرار رکھی۔1932ء میں انگریزوں نے مسلمانوں کے مطالبے کو تسلیم کرنے اور اپنے فیصلے کو عملی جامہ پہنانے کے بجائے مسجد پر تالا ڈال دیا اور چابی اپنے پاس رکھی۔ جب مسلمانوں نے دیکھا کہ کراچی میں ہندوئوں کی جانب سے طاقت کا مظاہرہ کرنے کے بعد انہیں ہنومان مندر واپس دیا گیاہے تو اس سے مسلمانوں کے ذہن میں بھی یہی تاثر ابھرا کہ اگر انہوں نے بھی اپنی مذہبی عبادت گاہ کی واپسی کے لیےجدوجہد کا راستہ نہ اپنایا تو انگریزوں کے قبضے سے مسجد کی واپسی ناممکن ہے۔
1932ء تا1936ء تک سکھر کے مسلمانوں کی طرف سے بنائی گئی مسلم ایسوسی ایشن نے مسجد کا تالا کھلوانے کے لئے جدوجہد کی۔ 1935ء کے ایکٹ کے تحت سندھ میں پہلی صوبائی اسمبلی کے انتخابات1937ء میں منعقد ہوئے۔ اس وقت دو پارٹیاںآپس میں نبرد آزما تھیں،مسلم پولیٹیکل پارٹی جس کے سربراہ سر غلام حسین ہدایت اللہ تھے اور دوسری یونائٹڈ پارٹی تھی۔ سکھر کے مسلمانوں نے سندھ کی صوبائی حیثیت بحال ہونے کے فوراً بعد مسجد منزل گاہ کے مسئلے پر اپنی تحریک شروع کی۔ اپریل1937ء میں انتخابات میں کامیابی کے بعد سر غلام حسین ہدایت اللہ کی سربراہی میںصوبائی کابینہ تشکیل دی گئی۔
سکھر کے مسلمانوں کا ایک وفد جنوری، فروری1938ء میں سر غلام حسین ہدایت اللہ سے ملا اور مسجد کی بازیابی کے لئے درخواست کی مگر اس کا کوئی خاطرخواہ نتیجہ برآمد نہ ہوا۔جبب مسلمانان سکھر نے دیکھا کہ ان کی مستقل جدوجہد نتیجہ خیز نہیں ہو گی تو انہوں نے کسی سیاسی تنظیم کے ذریعے اپنی تحریک چلانے کا فیصلہ کیا۔ ہندو تھے کہ وہ ہر قدم پر مسلمانوں کی مخالفت کر رہے تھے۔ اس کے مقابلے میں مسلمانوں کی تمام تنظیمیں مل کر بھی اپنا مطالبہ نہیں منوا سکیں۔
23مارچ1938ء کو سر غلام حسین ہدایت اللہ کی کابینہ توڑ دی گئی اور خان بہادر اللہ بخش سومرو کو 13اپریل1938ء کو ان کا جانشین نامزد کیا گیا۔ انہوں نے قلمدان سنبھالنے کے بعد ایک نوٹ لکھا جس میں انہوں نے مسجد کی عمارت کو مسلمانوں کی تحویل میں دینے کا ارادہ ظاہر کیا تھا۔اپریل1938ء کے وسط میں جمعیت العلماء کا ایک وفد سکھر گیا اور حکومت سندھ کے چیف سیکرٹری کا خط سکھر کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے حوالے کیا۔ سکھر میںکے قیام کے دوران وفد کے اراکین نے سکھر میں تقاریر کیں جن میں انہوں نے اپنی آمد کا مقصد بیان کیا۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ نئی کابینہ نے مسجد کی بحالی کا وعدہ کیا ہوا ہے لیکن اپریل1938ء اور مئی1939ء کے درمیان تک کچھ بھی نہیں ہوا۔ اب سکھر کے مسلمانوں نے بحالی مسجد کمیٹی تشکیل دی اور اس کے ذریعے مسلم لیگ پر مسئلہ حل کرنے کے لئے دبائو ڈالنا شروع کر دیا۔ اس کمیٹی نے حکومت کو الٹی میٹم دیا کہ مسجد منزل گاہ کے معاملے میں ایک مقررہ تاریخ تک حتمی فیصلہ کر دیا جائے ورنہ اپنی عبادت گاہ کی بازیابی کے لئے بھرپور طریقے سے احتجاجی تحریک چلائی جائے گی ۔
2ستمبر1939ء میں مسلم لیگ کے صوبائی سربراہ، سر عبداللہ ہارون بدات خود سکھر آئے اور ہندوئوں سے مفاہمت کی کوشش کی لیکن اس کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ مقررہ تاریخ تک مسجد کے بارے میں کسی بھی قسم کے فیصلے تک پہنچنے میں برطانوی سرکار ناکام رہی جس سے مایوس ہوکر بالآخر مسلمانوں نے یکم اکتوبر1939ء سے احتجاج شروع کر دیا۔ ادھر مسلمانوں کا ایجی ٹیشن شروع ہوا، ادھر حکومت نے مسجد منزل گاہ پر پولیس متعین کر دی۔ احتجاج کے پہلے روز تقریباً 1000مسلمان کارکن گرفتار کئے گئے۔
13اکتوبر1939ء کو سکھر کےکلکٹر نے تمام نظربندوں کو رہا کرنے کا حکم دیا نیز یہ بھی حکم دیا کہ مسجد پر متعین فورس کو ہٹا یا جائے۔ 14اکتوبر سے18اکتوبر تک مسجد مسلمانوں کے قبضے میں رہی۔ اس دوران ہندوئوں نے ایک کانفرنس منعقد کی جس کی صدارت آل انڈیا ہندو مہاسبھا کے صدر ڈاکٹر مونجے نے کی اور اس کاانعقاد دانستہ طور پر سکھر میں کیا گیا۔ اس کانفرنس میں بھگت کنور رام کے قتل کے خلاف ایک قرارداد منظور کی گئی جب کہ منظور کی جانے والی دوسری قرارداد میں مسجد منزل گاہ کے معاملے پر حکومت کی پالیسی کو کمزور قرار دیتے ہوئے سخت مذمت کی گئی۔
اس کے ساتھ ہی یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ حکومت اس مسجد کو فوراً اپنی تحویل میں لے۔ مزید برآں ہندو وزراء، ہندو پارلیمانی سیکرٹریوں اور اسپیکر سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ مستعفی ہو جائیں۔ اس کانفرنس میں یہ بھی طے پایا کہ 17نومبر تک مسجد کو خالی نہ کرایا گیا تو ہندو ممبر وزیراعلیٰ کی حمایت سے دستبردار ہو جائیں گے۔ سب سے بڑھ کر مسلمانوں کے سماجی و معاشی بائی کا فیصلہ کرتے ہوئے ان سے تمام کاروباری تعلقات منقطع کردئے۔جواب میں مسلمانوں نے اپنی تحریک کو جہادقرارر دے کرجدوجہد شروع کر دی جس میں کارکنان بڑی تعداد میںشرکت کے لیے آنے لگے۔
19نومبر1939ء کو مسجد منزل گاہ پر پولیس فورس تعینات کردی گئی۔ ہر کونے پر بیس غیر مسلح سپاہیوں کی پانچ چوکیاں، بیس مسلح سپاہیوں کی تین چوکیاں بنائی گئیں۔ ایوان میں ساٹھ مسلح سپاہی تعینات کر دیئے گئے اور ساٹھ سپاہیوں کو الرٹ رکھا گیا۔ اس پولیس فورس کی تعیناتی کا مقصد مسجد کے رضاکاروں کو حدود سے باہر رکھنا تھا۔
19نومبر1939ء کو 12بجے دوپہر کو پولیس فورس کی معیت میں ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ مسجد پہنچے اوروہاں موجود رضاکاروں کو حکم دیا کہ وہ منتشر ہو جائیں ورنہ ریاستی طاقت کا استعمال کیا جائے گا۔ اس وقت سکھر کا ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ، ٹی ٹی کوٹھا والا تھا۔ رضاکاروں نے حکم ماننے سے انکار کر دیا جس کے جواب میں اہلکاروں نے پہلے لاٹھی چارج کیا۔
آٹھ منٹ کے لاٹھی چارج کے بعد ایوان تو خالی ہو گیا لیکن اندر بھی مظاہرین موجود تھے، ان میں سے کئی ایک کو گرفتار بھی کیا گیا جن میں جی ایم سید بھی شامل تھے،جو مسجد کی بحالی کمیٹی کے رکن تھے۔گرفتار شدگان میں نعمت اللہ پٹھان، ڈاکٹر محمد یامین، آغا نظر علی خان اور کئی دوسرے کارکن شامل تھے۔ جب پولیس اپنی چوکیوں پر واپس چلی گئی تو فوج آ گئی جس نے آتے ہی تمام علاقے کے گرد خاردار تاروں کی باڑھ کھڑی کر دی ۔
یہ کام شام5بجے مکمل ہوا اس وقت سکھر کےڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے رضاکاروں سے پھر کہا کہ وہ عمارت خالی کر دیں ورنہ طاقت کا استعمال کیا جائے گا۔ ان کے انتباہ کے بعد اکا دکا آدمی وہاں سے چلے گئے جب کہ باقی تمام کے تمام اندر ہی رہے۔ ڈسٹرکٹ مجبٹریٹ نے آنسو گیس استعمال کرنے کا حکم دیا جس پر فوری طور پر تعمیل کی گئی۔آنسو گیس کے ولے پھینک کر مسجد کی عمارت خالی کرا لی گئی اور اسے خاردار باڑھ سے بند کر کے سپاہیوں کو متعین کر دیا۔ اب تقریباً ڈیڑھ سو افراد عمارت کے اندر اور تین سو کے قریب کمپاؤنڈ میں موجود تھے۔
اس تمام کارروائی کے دوران14مسلمان شہید ہوئے اور4زخمی ہوئے۔اس وقعے کے بعد سکھر سمیت دیگر علاقوں میں فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑےجن میں12مسلمان شہید اور11زخمی ہوئے جب کہ دو آدمی ضلع کے باقی حصوں میں رونما ہونے والے واقعات کے دوران شہید ہوئے اور ایک زخمی ہوا۔ اس کے مقابلے میں ترتیب وار33ہندو سکھر شہر کے اندر اور120افرادضلع کے دیگر علاقوں میں مارے گئے جب کہ ، 29زخمی ہوئے جن میں کئی رہنمائوں کو بھی گرفتار کیا گیا اور انہیں حیدرآباد سینٹرل جیل میں رکھا گیا۔
بالآخر19جنوری1940ء کو انہیں رہا کیا گیا۔ یوں ایک معرکۃ الآرا واقعہ اختتام کو پہنچاجسے ہندؤں کی ہٹ دھرمی نے جنم دیا تھا اور جس کی وجہ سے درجنوں افراد مارے گئے۔ اس سانحہ کے بعد مسلمان مسجد کا قبضہ واگزا کرانے میں کامیاب ہوئے۔ یہ مسجد آج بھی سکھر کے بندرروڈ پر واقع ہے۔ اس مں 1940ء میں جامع حمادیہ کے نام سے ایک مدرسہ قائم کیا گیا تھا جو آج بھی مذہبی درس و تدریس کا کام کررہا ہے۔