• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

2019گزر گیا۔ قیامتوں، آفتوں، مصیبتوں اور غم و غصے کا سال، لکھتے ہوئے میرا قلم لہو سے بھر گیا ہے، دنیا بھر میں موسم کیسے بدل رہا ہے۔ قوموں، فصلوں اور انسانیت پر کیا ظلم ڈھا رہا ہے۔ وینس جو دنیا کا نایاب شہر تھا، جہاں سارا سال لاکھوں لوگ سیاحت کے لئے جاتے تھے، وہاں چاروں طرف بہتی نہر میں 7فٹ اونچا پانی ایسے آیا کہ سارے گھر اور ہوٹل پانی سے بھر گئے۔

کیلیفورنیا اور آسٹریلیا کے جنگلات میں ایسی آگ لگی کہ ہفتوں تک بجھائی نہ جا سکی۔ بہاماس طوفان سے ایسے اجڑا کہ زمین پر دیکھنے کو ایک چڑیا بھی نہ بچی، کشمیر میں ایسا زلزلہ آیا کہ دیکھتے ہی دیکھتے زمین پھٹ گئی۔

گرمی اور بارش ساری دنیا میں ایسی پڑی کہ 2019سب سے زیادہ گرم سال‘ ساری دنیا میں قرار پایا ہے۔ گلیشیر چاہے ایورسٹ کے ہوں کہ الاسکا کے، آدھے سے زیادہ پگھل چکے ہیں۔

بےوقت بارشوں کے باعث سارے ملکوں میں فصلیں تباہ ہوئی ہیں۔ بیماریاں بڑھی ہیں۔ پاکستان میں توسہ آتشہ آفتیں رہیں کہ مولیوں کا گٹھا 5روپے کا ملتا تھا اب 50روپے میں دو مولیاں ملتی ہیں۔

سیاسی طور پر دنیا بھر میں نسلی منافرت، بےمقصد جنگیں اور مہاجرت کا وہ سلسلہ چلا کہ میکسیکو سے شامی اور یمنی لوگوں پر قیامتیں گزر گئیں۔ سمندر کے ذریعے ہجرت کرنے والے، ساحلوں پر مع بچوں کے مردہ پائے گئے۔ کنٹینروں میں بند غریب جو نوکریوں کی تلاش میں لاکھوں خرچ کرکے نکلے تھے، وہ دم گھٹ کر مر گئے۔

داعش اور طالبان کے سربراہوں کو بوڑھے ریچھ نے اپنے میزائل کے ذریعے مروایا مگر ابھی تک یمن اور افغانستان کے علاوہ کشمیر بارڈر پر روزانہ معصوم لوگوں کو مروایا جارہا ہے۔

دنیا نے دو جنگیں دیکھی تھیں۔ لاکھوں لوگ مارے گئے تھے مگر اس کے بعد تیسری جنگ نےکبھی اسپین، کینیڈا میں، پورے افریقہ میں باہمی غربت، نفرتوں کا لبادہ پہن کر، فسادبرپا کیا، جس میں بچے اور خواتین شکار بنتے ہیں۔

پاکستان 1979سے اب تک دہشت گردی کے چنگل میں ایسا پھنسا ہے کہ مسجدوں، گردواروں اور مندروں میں عبادت کرتے لوگوں پر خودکش حملے ہوئے، جس میں خودکش خواتین اور بچے بھی شامل ہیں، کہ عبادت گاہیں خون سے بھر جاتی ہیں۔

موجودہ حکومت کو آئے ڈیڑھ سال ہونے کو آیا۔ نہ کوئی ضابطہ، نہ قانون، کھوکھلے دعوے۔ 119کروڑ پائونڈ، پاکستان کو مل گئے۔ کہاں ہیں؟ خاموشی، سمندر کے نیچے سے تیل نکل آیا۔ کہاں ہے؟

خاموشی، 5لاکھ نوکریاں، کہاں؟ 50ہزار مکان، کہاں؟ صحت اور تعلیم کے لئے جو دو فیصد سے بھی کم بجٹ تھا، وہ بھی خرچ نہیں ہوا۔ سندھ میں اسکول کی ٹیچروں کی اسامیاں خالی ہیں۔

سپاہی یا کلرک کی نوکری کیلئے ماسٹر پاس ہزاروں کی تعداد میں اپلائی کرتے ہیں۔ قریب کی مثال بی ڈی اے کے خاکروبوں کو 7ماہ سے تنخواہیں نہیں ملی ہیں۔ جو ادارے خسارے میں تھے، وہ اب دگنے خسارے میں ہیں۔ جو ثقافتی ادارے تھے، وہ دو سال سے بغیر سربراہ کے ہیں۔ خاموشی، سینکڑوں بچے، بچیاں بدفعلی کے بعد قتل کردیے گئے۔ سزا؟

نہیں معلوم۔ غیرت کے نام پر قتل، کسی ایک کو بھی سزا نہیں ملی۔ سینکڑوں افراد بلاجرم ثابت ہوئے برسوں سے جیل میں ہیں۔ دُہائی دیں تو کس کے سامنے، سوال کریں تو کس سے، عدالتوں سے؟

کشمیر کے اور مسلمانوں کی حالت ِزار پہ بےپناہ اچھی تقریر عمران خان نے کی، پھر کیا ہوا۔ ظالموں نے توپانچ ماہ سے کرفیو لگانے کے علاوہ اس خطے کا نام ہی بدل دیا۔ پورا ہندوستان ’’سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے‘‘ گاتا تھا۔ زبانوں کا جو حلیم پیش کیا ہے، اس میں اردو اور مسلمان شامل ہیں۔ کالی کٹ سے کولکتہ تک، سب لوگ احتجاج کر رہے ہیں۔ ستم تو یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے ہاتھ میں بھی کچھ نہیں۔

اچھا چلیں، دنیا میں کچھ اچھی باتیں بھی ہوئی ہیں۔ ڈیرے کی دو بچیاں جن کے دماغ جڑے ہوئے تھے، برطانوی ڈاکٹروں نے بے پناہ محنت اور تحقیق کے بعد، ان کے دماغ الگ کر دیے، وہ بچیاں اور ماں باپ بے پناہ خوش ہیں۔ ہالینڈ کی سولہ سالہ بچی گریٹا نے ساری دنیا کو ہلا کے رکھ دیا کہ موسم کی تبدیلیوں، جس پر بوڑھے ریچھ نے کوئی توجہ نہ دی، گریٹا نے سارے ملکوں میں اپنی آواز پہنچائی۔

اسی طرح کی یہ خبر بھی ہے کہ نائیجریا کی 74سالہ خاتون نے سات بچوں کو جنم دیا۔ کمال یہ ہوا کہ انگلینڈ میں سال میں چوتھی بار الیکشن ہوئے اور ہارنے والی پارٹی نے اپنی ہار کو تسلیم کر لیا، جبکہ اسرائیل کیا، اسپین میں بھی الیکشن ہوئے چار ماہ ہونے کو آئے ہیں حکومت ہی نہیں بن سکی ہے۔ اسی طرح افغانستان میں اشرف غنی جیت گئے ہیں اور حسب دستور عبداللہ عبداللہ ہار مان ہی نہیں رہے۔

تھائی لینڈ کی بدنام زمانہ خاتون کے لباس اور زیورات نیلام کئے جا رہے ہیں۔ انگلینڈ کی بادشاہت میں دراڑ ایک تو پرنس ایڈورڈ کے باعث پڑی ہے، دوسرے چھوٹے شہزادے نے اپنی بیوی کے ساتھ شہنشاہت سے آزاد ہوکر، کینیڈا میں کرسمس منایا۔ کچھ لوگ ہمیں یاد کرنے کو اپنی یادیں چھوڑ گئے۔

انور سجاد، رسا چغتائی، حمایت علی شاعر، خالد حسین، جمیل نقش اور ٹونی موریسن۔ ان سب کو کتابوں میں تلاش کیا کریں گے۔

کچھ فقرے جو سیاست دانوں کے طفیل، عرف عام بن گئے۔ مثلاً ’’میں نے جان اللّٰہ کو دینی ہے‘‘، ’’میں ان سب کرپٹ لوگوں کو رلائوں گا‘‘، ’’رات کو درخت آکسیجن چھوڑتے ہیں‘‘، ’’جاپان اور فرانس ہمسایہ ممالک ہیں، انہوں نے اپنے اختلافات دور کر لئے‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ واقعی انسان خطا کا پتلا ہے۔

تازہ ترین