پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت بننے کے بعد سے لیکر اب تک گڈگورننس نہ ہونے پر بڑی تنقید کی جا رہی تھی جس کی ایک بڑی وجہ بلاوجہ احتساب کی زد میں آنے کے خوف سے بیوروکریسی کا اپنا کام ٹھیک طریقے سے نہ کرنا تھا، کوئی بھی اعلیٰ افسر کسی کام کی اونرشپ لینے کیلئے تیار نہیں تھا۔
انتہائی اہمیت کے حامل کیسوں کی سمریاں مکمل ہونے کے باوجود ادھوری رہتی تھیں کیونکہ محکموں کے انتظامی سربراہ اُن پر اَن دیکھے خوف کی وجہ سے دستخط نہیں کرتے تھے۔ وزیراعظم عمران خان نے حالات کو بھانپتے ہوئے گڈگورننس اور احتساب کا ٹاسک دیکر میجر(ر) اعظم سلیمان کو چیف سیکرٹری بنا کر پنجاب بھیجا جنہوں نے آتے ہی سب افسران پر واضح کر دیا کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں،
کوئی سفارش نہیں چلے گی، نیک نیتی اور دلیری سے کام کریں لیکن یاد رکھیں کہ اختیارات اور کام کرنے کی مکمل آزادی کے ساتھ محاسبہ بھی ہوگا۔ چیف سیکرٹری نے کہا کہ کام کرنے والے کو عزت ملے گی، بلاوجہ فائلیں نہ روکیں جس فائل سے زیادہ ڈر لگتا ہے،
قانونی تقاضے پورے کرکے مجھے دیں، میں دستخط کروں گا۔ میجر(ر) اعظم سلیمان نے یہ بھی کہا کہ گڈگورننس، پبلک سروس ڈلیوری اور شفافیت کی باتیں بار بار نہیں کروں گا، اب کام کرنے کا وقت آگیا ہے۔
چیف سیکرٹری نے آئی جی پنجاب کے ہمراہ صوبے کے مختلف اضلاع کے اچانک دوروں کا بھی اعلان کیا جس کا باقاعدہ آغاز کر دیا گیا ہے۔ اپنے اعلان کے 20روز بعد ہی چیف سیکرٹری نے آئی جی کے ہمراہ پہلا دورہ گوجرانوالہ کا کیا جہاں انہوں نے ایکسین لوکل گورنمنٹ اور ایکسین بلڈنگز حافظ آباد کو ٹھیکوں کی فیئر ٹینڈرنگ نہ کرنے پر معطل کرکے اُن کے خلاف پیڈا ایکٹ کے تحت محکمانہ کارروائی کے احکامات دیے۔
اُن دونوں افسران نے کہا کہ ہم پر مقامی سیاسی شخصیات کا پریشر تھا تو چیف سیکرٹری نے کہا اُن کے نام بتائو کیونکہ اب احتساب سے کوئی نہیں بچ سکے گا۔ اسموگ پیدا کرنے والے 292فیکٹریاں سیل کرکے ایئر کوالٹی انڈیکس کو بہتر بنانے اور پٹرول پمپوں پر 2روپے فی لٹر قیمت کم کروا کر عوام کو ریلیف دینے پر ڈپٹی کمشنر سہیل اشرف کو شاباش بھی دی گئی۔
چیف سیکرٹری کے ہمراہ ایڈیشنل چیف سیکرٹری داخلہ مومن علی آغا اور آئی جی شعیب دستگیر نے پولیس اور قانون نافذ کرنے والوں کو عوام کے جان ومال کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے ہر ممکن کوششوں کی ہدایات بھی دیں۔ میجر(ر) اعظم سلیمان نے گڈگورننس اور احتساب کے اعلان کے بعد اب عملدرآمد اور فالو اَپ بھی شروع کر دیا ہے۔
پنجاب کے نظام میں بہتری کیلئے آئی ٹی کے شعبے کی خدمات حاصل کی جا رہی ہیں۔ پنجاب کے تمام محکموں کو ای فائلنگ کا موثر نظام بنانے کیلئے پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ سے خودی رابطوں کا کہا گیا ہے۔ محکمہ داخلہ میں قائم مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم کے ذریعے حساس معلومات اور آفیشل سیکرٹس کو محفوظ بنانے کے عمل کا آغاز کیا جا رہا ہے۔
تمام انتظامی سیکرٹریوں نے اپنے دفاتر کے باہر لگے بورڈ عوام سے ملاقات کیلئے 2گھنٹے کا وقت لکھوا دیا ہے، ہر انتظامی سیکرٹری اب دفتری اوقات میں سے دو گھنٹے عوامی شکایات سنے گا۔ انتظامی امور کے تشکیل کو جاری رکھنے کیلئے ہر سیکرٹری کے علاوہ ڈویژن اور ضلع کی سطح پر کمشنر اور ڈپٹی کمشنروں مالی اور انتظامی اختیارات نچلے درجے تک منتقل کرنا شروع کر دیئے ہیں۔ اس سے قبل ان تمام اقدامات کیلئے اعلان کئے جاتے تھے اور ایس او پیز بھی موجود تھے لیکن سروس ڈلیوری، گڈگورننس اور فوری احتساب کیلئے کوئی ہنگامی میکنزم نہیں بنایا گیا۔
پنجاب میں ان اقدامات کا اچھا فیڈ بیک آنا شروع ہوا ہے جس کی واضح مثال چیف سیکرٹری اور انکی ٹیم کے دورۂ فیصل آباد کے دوران ملی ہے۔ اب پنجاب کے تمام ڈویژنوں اور اضلاع کی انتظامیہ بھرپور طریقے سے ایکٹیو نظر آرہی ہیں اور سب کی کوشش ہے کہ وہ گڈگورننس میں دوسرے ضلع سے برتری لے جائیں۔ پنجاب کی انتظامیہ کے یہ دورے زبانی جمع خرچ اور لیکچر ہی نہیں بلکہ جو احکامات دیے جاتے ہیں بعد میں ان کا فالو اَپ بھی لیا جا رہا ہے جس میں کامیابی پر شاباش اور ناکامی پر سزا بھی ملے گی۔
پنجاب میں اعلیٰ عہدوں پر بیٹھے بیوروکریٹس اسلئے بھی مطمئن نظر آ رہے ہیں کہ اب بلاوجہ تقرر و تبادلوں کا سلسلہ بھی ایک عرصہ تک رکا رہیگا جبکہ پالیسیوں اور نظام کو آگے لے جانے میں جو تسلسل چاہتے تھے، وہ بھی میسر آئیگا۔ چیف سیکرٹری کی اونر شپ ملنے کے بعد اب وہ کسی دبائو کے بغیر اپنے کام بخوبی سرانجام دیں گے۔
چیف سیکرٹری نے بڑی سوچ سمجھ کر اپنی ٹیم بنائی ہے اور امید کی جا رہی ہے کہ وہ سسٹم میں تبدیلیاں لانے میں بھی کامیاب ہو جائیں گے کیونکہ ناکامی اب کوئی آپشن نہیں۔