• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

72 سالہ پرانا جواز نریندر مودی نے منسوخ کردیا، ریاست جموں کشمیر دفعہ 370 کے خاتمہ کے ساتھ آزاد و خودمختار ہوگئی، مقررین

نیو یارک (نمائندہ جنگ) امریکہ اور کینیڈا میں مقیم متحرک کشمیری تارکین وطن کے نمائندوں کا دو روزہ تاریخی کنونشن نیو یارک کے ایک مقامی ہوٹل میں اختتام پذیر ہوگیا۔ سرینگر سے تعلق رکھنے والے مندوبین نے شرکا کو تازہ ترین صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئےبتایا کہ محاصرے اور پابندیوں کے باعث وادی کشمیر میں معمولات زندگی بدستور مفلوج ہیں، کشمیری قیادت پابند سلاسل ہے مگر تمام تر مشکلات کے باوجود کشمیری عوام اپنی آزادی کی شناخت، امن اور ریاستی وحدت کی بحالی کیلیے اپنی پُرامن جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے۔ کنونشن کی منفرد بات یہ تھی کہ اس میں نہ اسٹیج تھا نہ لمبی چوڑی تقریریں، مندوبین نے ایجنڈے پر سیر حاصل گفتگو کی۔ کنونشن کے ماڈیریٹرز کے فرائض انجام دینے والوں میں ڈاکٹر فیروز، خولہ صدیقی، پروفیسر حمیرہ گوہر، معین کاک اور نزہت پنڈت نے اپنی ماہرانہ کاوشوں کا بھر پور مظاہرہ کیا ۔ طٰحی مجیب کی تلاوت قرآن پاک سے تقریب کا آغاز ہوا۔ کشمیر گلوبل کونسل بورڈ کے صدر فاروق صدیقی نے کنونشن میں مکالمہ کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ مندوبین کی رائے کے مطابق ہونگے۔ انہوں نے دستاویزات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ بات ہر کوئی ذہن میں رکھے کہ دفعہ 370کے خاتمہ کے ساتھ ہی ریاست جموں کشمیر آزاد و خود مختار ہوگئی ہے۔ کشمیریوں کو اپنی اس آزادانہ حیثیت کو دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہئے اور مطالبہ کیا جانا چاہئے کہ جموں کشمیر کے عوام کو ان کی آزادی اور وطن پر امن طور واپس لو ٹایا جائے۔72 سالہ پرانے اس جواز کو جسے بھارت بنیاد بنا کر یو این میں لے گیا وہ 5 اگست 2019کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے منسوخ کر دیا ہے۔ اب دنیا کو باور کرایا جائے کہ جموں کشمیر دو نہیں تین جوہری طاقتوں پاکستان، بھارت اور چین کے درمیان گھرا ایک ایسا علاقہ ہے جس کے لوگ آزادی چاہتے ہیں۔ بدقسمتی سے جغرافیائی محل وقوع اور حکومتوں اور لیڈروں کی غلط پالیسیوں ذاتی مفادات سے جموں کشمیر تقسیم ہو کر تین ہمسایہ ایٹمی طاقتوں کے درمیان زمین کے ٹکڑے کا جھگڑا بن کر رہ گیا ہے۔ اس موقع پر بورڈ ڈائریکٹر ڈاکٹر الطاف حسین قادری نے کہا کہ چین، بھارت اور پاکستان کو کشمیری لیڈر شپ کے ساتھ افہام و تفہیم کے ذریعے اسے حل کرکے جنوبی ایشیا کو ایک اور تباہ کن جنگ سے بچانا چاہئے۔ اس موقع پر انہوں نے کنونشن میں راجہ مظفر کی طرف سے جموں کشمیر سینیٹ کے قیام کی تجویز کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ وہ ذاتی طور کشمیر کے لئے ایک جلا وطن حکومت کے قیام کے حق میں تھے مگر کنونشن میں شریک ساتھیوں کی رائے کے احترام میں اپنی تجویز پر زور نہیں دے رہے۔ انہوں نے کہا کہ یقیناً ایک ایسے سیاسی ڈھانچے کی ضرورت ہے جس پر عوام کا اعتماد ہو عوام کے وہ نمائندے اس سیینٹ میں چنیں جائیں جو ان کی (کشمیری عوام کی) خواہشات اور اُمنگوں کی ترجمانی کرتے ہوں نہ کہ بھارت و پاکستان کے مؤقف کی تائید و ترجمانی، جموں کشمیر ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس بہاؤالدین فاروقی کے فرزند اٹارنی مفتی شوکت فاروقی نے کہا کہ سینیٹ کا قیام وقت کی اہم ضرورت ہے اور یہ کہ وہ کشمیر سینیٹ کے قیام کے ساتھ جڑے آئینی و قانونی پہلوئوں کا جائزہ لینے کیلئے قانونی ماہرین سے مشورہ کر کے جامع رپورٹ بورڈ میں پیش کرینگے۔ بورڈ ڈائریکٹر راجہ مظفر نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ کشمیر کا کوئی فوجی حل موجود نہیں ہے لیکن میرا ماننا ہے کہ ’’بھارت کی ضد اور5اگست کو فوج کشی کر کے ہی حالات کو بگاڑنے کا موجب بنا۔ انہوں نے فاروق صدیقی کی گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ وہ پوزیشن ہے جس پر عالمی اداروں حکومتوں کو بھارت پاکستان اور کشمیریوں کے درمیان مکالمہ کرانا چاہئے تا کہ مسئلہ کا قابل عمل حل نکل سکے۔ بھارت نے فوجی جارحیت کی ہے اس کے فوجی اقدام کو اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہئے۔ یہ ایک اٹل حقیقت ہے جسے حد بندی لائن کے دونوں جانب تسلیم کیا جا چکا ہے۔ کنونشن میں باہر سے آئے مندوبین نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا اور کہا کہ سچ یہ بھی ہے کہ بھارت اب وہ بھارت نہیں رہا جو کبھی اظہار رائے کیلئے آزاد سمجھا جاتا تھا۔ قاضی مجیب، مسز ثریا صدیقی، مس ارئکا کھوکھر، مسز فاطمہ، مسز رفعت پروین، ناز بٹ، ملک حنیف اعوان، انجینئر قاسم کھوکھر، مسٹرپنڈت، عنایت میر اور مسز رابعہ قاضی نے بھی اظہار خیال کیا۔ کنونشن میں فیصلہ کیا گیا کہ جموں کشمیر سینیٹ کے قیام پر مشاورت کا حلقہ وسیع کیا جائے اور تین ماہ کی معینہ مدت کے اندر سارے عمل کو مکمل کرتے ہوئے28 اور29مارچ 2020کوڈیلاس ٹیکساس میں گرینڈ کنونشن منعقد کر کے کشمیر کی تاریخ کی پہلی عظیم تر سینیٹ کے قیام کا اعلان کیا جائے۔سیینٹ کے قیام سے جموں کشمیر کی سب ہی سیاسی جماعتوں کو متحرک ہو نے کا موقع ملے گا۔ جموں کشمیر میں جمہوری سیاسی جدوجہد کے عمل کو طاقت کے زور سے کچلنے کی کوششیں ماضی میں بھی ناکام ہوئیں آئندہ بھی ہوں گی۔ سینیٹ کیسے وجود میں آئے گی اور اس کا دائرہ کار اور طریقہ کار کیا ہو گا اس کی تفصیلات مشاورت کا عمل مکمل ہونے پر جاری کی جائیں گی۔

تازہ ترین