• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارتی جارحیت، قدرتی آفات نے خطے کو توجہ کا محور بنائے رکھا

5اگست 2019ء کو مودی سرکار کی جانب سے بھارتی آئین میں ترامیم کے ذریعے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے اور وہاں کرفیو نافذ کرنے کے بعد آزاد کشمیر بھی توجّہ کا مرکز بن گیا۔ 13ستمبر کو وزیرِ اعظم پاکستان، عمران خان نے دارالحکومت، مظفر آباد میں ایک عظیم الشّان جلسۂ عام سے تاریخی خطاب کرتے ہوئے بھارتی جارحیت کی صُورت میں اینٹ کا جواب پتّھر سے دینے کا اعلان کیا۔ علاوہ ازیں، وزیرِ اعظم آزاد کشمیر، راجہ فاروق حیدر خان نے مسلسل ایک ماہ تک برطانیہ، یورپ اور امریکا کے دوروں کے دوران ان ممالک کے حُکّام، اہم شخصیات اور صحافیوں سے ملاقاتوں کے علاوہ جلسوں میں مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی مظالم کو بے نقاب کیا۔

دریں اثنا، متنازع بھارتی اقدام پر آزاد کشمیر میں عوامی سطح پر بھی شدید ردِ عمل دیکھنے میں آیا۔ آزاد کشمیر کے شہریوں نے اپنے 80لاکھ محصور کشمیری بہن، بھائیوں کو خوراک و ادویہ کی فراہمی کے لیے لائن آف کنٹرول پار کرنے کا اعلان کیا اور پھر 4ستمبر کو ضلع کوٹلی کے نوجوانوں نے ایل او سی روندتے ہوئے بھارتی افواج کے مورچوں کے سامنے نماز ادا کرنے کے بعد وہاں آزاد کشمیر اور پاکستان کے پرچم نصب کر دیے۔ اس موقعے پر بھارتی فوج کی فائرنگ سے5نوجوان زخمی ہوئے۔ اسی طرح ایل او سی کے قریب جمّوں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے 50ہزار کارکنان نے دھرنا بھی دیا، جب کہ پولیس نے دھرنے کے شرکا کو ایل او سی پار کرنے سے روکنے کے لیے ان پر آنسو گیس پھینکنے کے علاوہ لاٹھی چارج بھی کیا۔ 

بعد ازاں، 16اکتوبر کو وزیرِ اعظم آزاد کشمیر کی زیرِ قیادت حکومتی اور جے کے ایل ایف کے مشترکہ وفد کی اقوامِ متّحدہ کے مبصّر مِشن سے ملاقات کے بعد لبریشن فرنٹ نے 6ماہ کے لیے دھرنا مؤخر کر دیا۔ قبل ازیں، 14فروری کو سری نگر کے علاقے، پلواما میں خود کُش حملے کے نتیجے میں 46بھارتی سیکوریٹی اہل کار ہلاک ہو گئے۔ بھارت نے حسبِ سابق اس واقعے کا الزام پاکستان پر عاید کرتے ہوئے لائن آف کنٹرول کے قریب واقع آزاد کشمیر کی آبادی پر فائرنگ اور گولہ باری شروع کر دی، جس کے نتیجے میں مجموعی طور پر 56فوجی اہل کار اور عام شہری شہید اور 253زخمی ہوئے۔ آتشیں ہتھیاروں کے استعمال سے 588مکانات مکمل و جُزوی طور پر تباہ ہوئے، جب کہ 97دُکانیں ملیامیٹ ہو گئیں۔ 

بھارتی فوج کی اس ظالمانہ کارروائی سے آزاد کشمیر کے اسپتال، تعلیمی ادارے اور مساجد بھی محفوظ نہ رہیں۔ 26فروری کو رات کے اندھیرے میں 14بھارتی لڑاکا طیّاروں نے آزاد کشمیر کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے خیبر پختون خوا کے علاقے، بالاکوٹ میں واقع جابہ نامی گائوں پر حملے کی کوشش کی، لیکن پاک فوج کی ’’للکار‘‘ پر گھبرا کر یہ طیّارے اپنا پے لوڈ گرا کر فرار ہو گئے۔ بھارت کی اس بُزدلانہ کارروائی کے اگلے ہی روز پاک فضائیہ نے ضلع بِھمبر کی تحصیل، سماہنی میں دو بھارتی جنگی طیّاروں کو مار گرایا۔ ان میں سے ایک آزاد کشمیر اور دوسرا مقبوضہ کشمیر میں گر کر تباہ ہوا۔ نیز، سماہنی میں گرنے والے طیّارے کے پائلٹ اور وِنگ کمانڈر، ابھے نندن کو پاک فوج نے اپنی تحویل میں لے لیا۔

مزید برآں، وزیرِ اعظم آزاد کشمیر نے بھارت کی غیر اعلانیہ جنگ سے متاثرہ افراد کو فوراً معاوضے کی ادائیگی کا حکم دیا۔ حکومت نے شہدا کے لواحقین کے لیے مختص رقم 3لاکھ سے بڑھا کر10لاکھ روپے کر دی، جب کہ معذور افراد اور زخمیوں کو بھی اضافی رقم دی گئی۔ علاوہ ازیں، آزاد کشمیر حکومت نے ایل او سی پر فرسٹ ایڈ پوسٹس قائم کرنے کے علاوہ ایمبولینسز خریدیں اور سڑکوں کی حالت بہتر بنائی، جب کہ حکومتِ پاکستان کی جانب سے متاثرین کے لیے 3ارب روپے مختص کیے گئے۔

آزاد کشمیر کابینہ نے ٹور اِزم پروموشن ایکٹ کی منظوری دی اور وفاقی وزارتِ داخلہ کی جانب سے آزاد کشمیر میں غیر ملکی سیّاحوں کے داخلے کے لیے این او سی کی شرط ختم کیے جانے کے بعد گزشتہ برس ریکارڈ 18لاکھ سے زاید سیّاحوں نے آزاد کشمیر کی سیر کی۔ سیّاحوں کی سلامتی یقینی بنانے اور انہیں سہولتوں کی فراہمی کے لیے خصوصی انتظامات کیے گئے، جب کہ پہلی مرتبہ ’’قومی آرکیالوجی کانفرنس‘‘ کا بھی انعقاد کیا گیا۔ کانفرنس میں شریک مُلک بھر کے اسکالرز نے آزاد کشمیر کے آثارِ قدیمہ کے حوالے سے تحقیقی مکالے پڑھے اور حاضرین کو علاقے کی ثقافت و اہمیت سے متعلق آگہی فراہم کی۔ 

مزید برآں، وزیرِ اعظم آزاد کشمیر کی خصوصی دعوت پر پاکستان ہندو کائونسل کے سرپرستِ اعلیٰ اور رُکنِ قومی اسمبلی، ڈاکٹر رمیش کُمار وانکوانی نے وفد کے ساتھ مظفر آباد کا دورہ کیا۔ اس موقعے پر محکمۂ سیاحت کی جانب سے وفد کو وادیٔ نیلم کے قدیم مندر، شاردا پِیٹھ کی بحالی کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دی گئی، جس پر شرکا نے مسرّت کا اظہار کیا۔ 5جنوری کو کشمیری عوام نے بھرپور جوش و جذبے سے ’’یوم حق خود ارادیت‘‘ منایا اور تمام اضلاع میں احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں۔ اس موقعے پر کشمیری عوام نے اقوامِ متّحدہ سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی قرادادوں پر عمل درآمد کرواتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں استصوابِ رائے کروائے۔ سالِ رفتہ میں آزاد کشمیر کی سپریم کورٹ نے پاکستان کے چاروں صوبوں کے مقابلے میں زیادہ بر وقت فیصلے کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔ 

نئے ججز کی تعیناتی کے باعث مقدّمات کے فیصلوں میں تیزی سے عوام کو ریلیف ملا۔ 5فروری کو ’’یومِ یک جہتیٔ کشمیر‘‘ کے موقعے پر کشمیر بھر میں احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں اور اس موقعے پر آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی کا خصوصی اجلاس بھی طلب کیا گیا۔ دریں اثنا، جامعات سمیت تمام تعلیمی اداروں میں تقریری مقابلوں کا انعقاد کیا گیا اور ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر کمپلیکس، مظفرآباد سے اقوامِ متّحدہ کے مبصّر مِشن دفتر تک وزیرِ اعظم آزاد کشمیر کی قیادت میں تمام جماعتوں نے احتجاجی ریلی نکالی اور انسانی ہاتھوں کی زنجیر بنائی گئی۔ 

اسی عرصے میں ’’آڈیو لیکس اسکینڈل‘‘ منظرِ عام پر آنے کی وجہ سے آزاد کشمیر سیاسی عدم استحکام سے دو چار ہو گیا۔ بعد ازاں، 23جولائی کو آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی کے اجلاس میں وزیرِ اعظم کی سردار سکندر حیات سمیت دیگر شخصیات سے معذرت کے بعد یہ معاملہ انجام کو پہنچا۔

14جولائی کی رات آزاد کشمیر کے علاقے، لیسوا میں اچانک بادل پھٹنے سے نالۂ لیسوا میں طغیانی آ گئی، جس کے نتیجے میں 24افراد لقمۂ اجل اور تین دیہات ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہو گئے۔ اس موقعے پر پاک فوج کے جوانوں نے متاثرین کو ادویہ، خوراک اور خیمے مہیا کرنے کے علاوہ زخمیوں کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے مظفر آباد اسپتال منتقل کیا۔ گرچہ حکومتِ آزاد کشمیر کی طرف سے سانحۂ لیسوا کے متاثرین کے لیے امدار کا اعلان کیا گیا، لیکن متاثرین تا حال امدادی پیکیج کے منتظر ہیں۔ 

11جولائی کو تحریکِ آزادیٔ کشمیر کے سَرخیل اور مجاہدِ اوّل، سردار محمد عبدالقیّوم خان کی چوتھی برسی اُن کے آبائی گائوں، غازی آباد دھیر کوٹ، ضلع باغ میں انتہائی عقیدت و احترام سے منائی گئی۔ دُعائیہ تقریب میں اسپیکر اسمبلی، شاہ غلام قادر سمیت آزاد کشمیر کی دیگر اہم سیاسی شخصیات اور علما و مشائخ کے علاوہ ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ وزیرِ اعظم، آزاد کشمیر کی خصوصی کوششوں کے نتیجے میں 23مارچ کو اُس وقت کے وفاقی وزیرِ خزانہ، اسد عُمر نے آزاد کشمیر کے لیے واٹر یوز چارجز فی یونٹ 16پیسے سے بڑھا کر 1روپیہ 10پیسے کرنے کی منظوری دیتے ہوئے کشمیری عوام کا دیرینہ مطالبہ پورا کر دیا۔ 

وفاقی حکومت کے اس فیصلے سے آزاد کشمیر کے محصولات میں اضافے کے سبب ترقّیاتی کاموں میں تیزی اور عوام کو ریلیف ملنے کی امید پیدا ہوئی۔ 21مارچ کو میر پور میں سابق صدر اور غازیٔ ملّت، کیپٹن جنرل سید علی احمد شاہ کی 29ویں برسی انتہائی عقیدت و احترام سے منائی گئی۔ اس موقعے پر آزاد کشمیر کی نمایاں شخصیات نے اُن کی قومی خدمات اور تحریکِ آزادیٔ کشمیر میں اُن کے کردار پر روشنی ڈالی۔ 18جون کو وزیرِ خزانہ، ڈاکٹر نجیب نقی نے مالی سال 2019-20ء کا 1کھرب 21ارب 56کروڑ رپے حجم کا میزانیہ منظوری کے لیے پیش کیا۔ 

یاد رہے کہ یہ آزاد کشمیر کی تاریخ کا سب سے بڑا بجٹ تھا، جسے بحث کے بعد بھاری اکثریت سے منظور کر لیا گیا۔ بجٹ میں آیندہ مالی سال کے ترقّیاتی پروگرامز میں 11فی صد اضافہ تجویز کیا گیا۔ علاوہ ازیں، محصولات جمع کرنے کا اختیار آزاد کشمیر حکومت کو ملنے کے بعد ابتدائی 6ماہ کے دوران آزاد کشمیر میں قائم انکم ٹیکس اور اِن لینڈ ریونیو کے محکمے نے اپنے ہدف سے 1ارب 10کروڑ روپے کا ریکارڈ اضافی ٹیکس (7ارب اور 66کروڑروپے) جمع کیا ہے۔

24ستمبر کو میر پور میں آنے والے 5.8شدّت کے زلزلے نے سانحۂ 8اکتوبر کے زخم ہرے کر دیے۔ چند سیکنڈ کے دورانیے کے زلزلے اور آفٹر شاکس نے 42انسانی جانیں نگل لیں، جن میں اکثریت خواتین اور بچّوں کی تھی، جب کہ 900سے زاید افراد زخمی ہوئے۔ زلزلے کے باعث ’’مِنی لندن‘‘ کے نام سے مشہور میرپور چند سیکنڈز میں کھنڈرات میں تبدیل ہو گیا اور مختلف علاقوں میں اربوں کی املاک کو شدید نقصان پہنچا۔ 

زلزلے کے نتیجے میں 3,010مکانات مکمل طور پر تباہ ہوئے اور 7,330کو جُزوی نقصان پہنچا، جب کہ 1,101دیگر املاک تباہ ہوئیں۔ 40سے زاید کارخانے متاثر ہونے سے تقریباً 5ہزار افراد بے روزگار ہو گئے۔ زلزلے کے باعث انفرااسٹرکچر کو بھی شدید نقصان پہنچا اور نہر پر بنے پُل تباہ ہونے سے کئی آبادیوں کا آپس میں زمینی رابطہ منقطع ہو گیا۔ تاہم، متاثرینِ زلزلہ کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے کسی قسم کی تاخیر کامظاہرہ نہیں کیا گیا۔ وزیرِ اعظم آزاد کشمیر سب سے پہلے میر پور پہنچے۔ 

انہوں نے متاثرہ علاقوں کے دورے کے دوران متاثرین کی دل جوئی کے علاوہ زخمیوں کی عیادت بھی کی۔ علاوہ ازیں، وزیرِ اعظم پاکستان، عمران خان سمیت گورنر و وزیرِ اعلیٰ پنجاب، وفاقی وزرا اور مختلف سیاسی جماعتوں کے قائدین نے بھی متاثرینِ زلزلہ سے اظہارِ ہم دردی،لواحقین سے اظہارِ تعزیّت اور زخمیوں کی عیادت کی۔ امدادی کارروائیوں میں مقامی انتظامیہ اور مختلف غیر سرکاری تنظیموں نے بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا۔ 24ستمبر کو صدر آزاد کشمیر نے میرپور اور ضلع بِھمبر کی 3یونین کائونسلز کو آفت زدہ قرار دیے جانے کا اعلان کیا اور 30اکتوبر کو حکومتِ آزاد کشمیر نے متاثرینِ زلزلہ کے لیے امدادی پیکیج کی منظوری دی۔

آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی میں اندرونِ آزاد کشمیر کے 29انتخابی حلقوں میں 4حلقوں کا اضافہ کر دیا گیا، جس کے نتیجے میں اندرونِ آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی کی نشستیں 29سے بڑھ کر 33ہو گئیں، جب کہ پاکستان میں مقیم مہاجرینِ کشمیر کی 12نشستوں اور 8مخصوص نشستوں سمیت آزاد کشمیر اسمبلی کے ارکان کی مجموعی تعداد 53ہو گئی۔ 25ستمبر کو سپریم کورٹ کے ایک عدالتی فیصلے کے نتیجے میں چوہدری محمد سعید کی نا اہلی سے آزاد کشمیر کے انتخابی حلقے، ایل اے تھری میرپور IIIکی خالی ہونے والی نشست پر 24نومبر کو ہونے والے ضمنی انتخاب میں پی ٹی آئی، کشمیر کے امیدوار، بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے 2,860ووٹوں کی برتری سے فتح حاصل کی، جب کہ مسلم لیگ (نون) کے جواں سال امیدوار، چوہدری محمد صہیب سعید کئی چیلنجز کے باوجود 14,813ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔ 

بعض طبقات نے بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کی کام یابی کا سبب پی ٹی آئی کو قرار دیا، تو بعض حلقوں نے اسے اُن کی خدمات کا نتیجہ بتایا۔ 20نومبرکو ضلع حویلی کی تحصیل، ممتاز آباد پلنگی کی نواحی بستی، نکر کے 19سالہ رہائشی تیمور راٹھور کو دورانِ حراست قتل کر دیا گیا۔ اس دل خراش واقعے پر ضلعے کے عوام سراپا احتجاج بن گئے اور انہوں نے متعلقہ تھانے کے پولیس اہل کاروں کی فوری گرفتاری اور انہیں قرار واقعی سزا دینے کے لیے جلسوں اور ریلیوں کا ایک سلسلہ شروع کر دیا۔ 

اس موقعے پر پاکستان پیپلز پارٹی، آزاد کشمیر کے مرکزی سیکریٹری جنرل، فیصل ممتاز راٹھور کا کہنا تھا کہ وہ اپوزیشن لیڈر کے توسّط سے یہ معاملہ آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی میں اٹھائیں گے، جب کہ مقتول نوجوان کے والد، حنیف راٹھور نے بھی قاتلوں کو انجام تک پہنچانے کا مطالبہ کیا۔ گزشتہ برس آزاد کشمیر میں ڈینگی وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 1,386سے تجاوز کر گئی۔ ڈینگی کے سب سے زیادہ کیسز مظفر آباد میں سامنے آئے، جن کی تعداد 1,264تھی۔

عدالتِ عالیہ میں چیف جسٹس، ایم تبسّم آفتاب علوی کی تقرری چیلنج کیے جانے پر 15نومبر کو ہائی کورٹ کے دو رُکنی بینچ نے، جو جسٹس شیراز احمد کیانی اور جسٹس صداقت حسین راجا پر مشتمل تھا، اس مقدّمے کی سماعت کی۔ جسٹس صداقت حسین راجا نے اپنے فیصلے میں ایم تبسّم آفتاب علوی کی تقرری کو غیر آئینی قرار دیا۔ 

بعد ازاں، ہائی کورٹ کے ریفری جج، جسٹس اطہر سلیم بابر کا فیصلہ بھی چیف جسٹس کے خلاف آگیا۔ فیصلے میں چیف جسٹس کی تقرری کو آئین و قانون کے خلاف قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ گرچہ ایم تبسّم آفتاب علوی کے بطور جج اور بطور چیف جسٹس ہائی کورٹ کیے گئے تمام فیصلوں کو تحفّظ حاصل ہے، تاہم وہ پینشن اور مراعات کے حق دار نہیں ہوں گے اور نہ ہی نام کے ساتھ سابق جج یا چیف جسٹس لکھ سکیں گے۔ 

ایم تبسّم آفتاب علوی کی طرف سے عبدالرّشید ترابی ایڈوکیٹ، جب کہ پٹیشنر کی طرف سے بشیر فضل ایڈوکیٹ نے وکالت کی۔ ایم تبسّم آفتاب علوی نے فوری طور پر فیصلے کے خلاف رجوع کیا، جب کہ جسٹس اظہر سلیم بابر نے بحیثیت چیف جسٹس عدالتِ عالیہ اپنے فرائض سر انجام دینا شروع کر دیے۔ 30نومبر کو دارالحکومت، مظفر آباد میں پاکستان پیپلز پارٹی کا 52واں یومِ تاسیس منایا گیا۔ 

72سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی وفاقی جماعت نے اپنے یومِ تاسیس کی تقریب کا انعقاد آزاد کشمیر میں کیا۔ اس دوران منعقد کیے گئے جلسے میں پاکستان کے چاروں صوبوں اور آزاد کشمیر سے پاکستان پیپلز پارٹی کے ہزاروں کارکنان نے شرکت کی اور چیئرمین پی پی نے کشمیری باشندوں کی قربانیوں کو زبردست انداز میں خراجِ تحسین پیش کیا۔

تازہ ترین