ملک میں علم پر مبنی معیشت کے لیے چند قدم بڑھائے گئے،بعض جامعات کی درجہ بندی بہتر ہوئی،پہلا نینوٹیکنالوجی مرکز قائم ہوا، سائنسی و تحقیقی سرگرمیاں گزشتہ سالوں کی نسبت تیز رہیں
گزشتہ کئی سالوں کی طر ح سال 2019ء میں بھی سائنس کے مید ان میں کافی دریافتوں اور تحقیقات کے جھنڈے گاڑے گئے ۔اس سال بھی سائنس کا زرخیز میدان سیراب ہوا ہے ، کیوں کہ آج کا دور سائنس و ٹیکنالوجی کا دور ہے، علم پر مبنی معیشت کا دو ر ہے ۔ تعلیم ، سائنس و ٹیکنالوجی میں ترقی ملک کی ترقی ہے ۔ 2019ءمیں پاکستان نے اس شعبے میں جو کامیابیاں حاصل کی ہیں ان میں سے چنددرج ذیل ہیں۔
قومی ٹاسک فورس 'ٹیکنالوجی پر مبنی علمی معیشت کا قیام
سب سے پہلے مختلف اہم شعبہ جات کو متحرک کرنے کے لئے ٹاسک فورسیں قائم کی گئی ایک قومی ٹاسک فورس 'ٹیکنالوجی پر مبنی علمی معیشت " (Technology Driven Knowledge Economy Task Force) قائم ہوئی ۔اس کا پہلا اجلاس رواں سال جنوری میں منعقد کیا گیا تھا ۔ اس ٹاسک فورس کی جانب سے تیسرا اہم منصوبہ پاکستان میں مصنوعی ذہانت اور اس سے ملحقہ تکنیکی شعبہ جات میں اعلٰی درجے کے تحقیقی و جدت طرازی کے ایک بڑی تعداد میں مراکز کا قیام ہے ۔ مصنوعی ذہانت اور وابستہ ٹیکنالوجی کے میدان میں ایک دہائی کے اندر عالمی مارکیٹ تقریباً 15 کھرب امریکی ڈالرز تک پہنچنے کی امید ہے۔
تیزی سے بڑھتے ہوئے اس شعبے میں پاکستان کے لئے بہت اچھا موقع ہے کہ ایک قیادت کے طور پر ابھر کر سامنے آئے ۔ کمپیوٹر سائنس میں ہر سال تقریبا پچیس ہزار گریجویٹس فارغ التحصیل ہوتے ہیں ، ان میں سے 10 فی صد کو بھی اس میدان میں ہم اعلٰی درجے کے عالمی اداروں میں بھیج کر تربیت کروا دیں، تو اس کے بڑے ثمرات حاصل ہو سکتے ہیں ۔قومی سطح پر ایک میگا پروجیکٹ تیار کرکیا گیاہے ۔ اس منصوبے کی لاگت 162 ارب روپے ہے جو اگلے آٹھ سالہ دور پر محیط ہے ۔
اس کے تحت ایک لاکھ پیشہ ورافراد کو تربیت کے لئے ملک سے باہربھیجا جائے گا ۔ اس اقدام سے بہت قوی امید ہے کہ آئی ٹی میں پاکستان کی بر آمدات میںکئی ارب ڈالر سالانہ کا اضافہ ہو گا جو پاکستان کو موجودہ اقتصادی مشکلات سے باہر نکالنے میں ایک اہم کردار ادا کرے گا۔ ایک اور اہم منصوبہ اسکول، کالج اورجامعات کی سطح پر بڑے پیمانے پر اوپن آن لائن کورس (Massive Open Online Courses, MOOCs) شروع کیا گیا ہے اس میں ایم آئی ٹی (MIT)، ہارورڈ (Harward) ، اسٹینفورڈ (Stanford) وغیرہ جیسی بڑی جامعات کے کورسز شامل ہیں ۔
تحقیقی اشاعت کا تجزیہ
یو این ڈی پی ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس (2018) کے مطابق پاکستان 189 ممالک میں ہیومن ڈویلپمنٹ پر 150 نمبر پر ہے ، جبکہ 157 ممالک میں سے 134 نمبر پر ہے۔ عالمی بینک کے ڈیٹا بیس کے مطابق 192 ممالک میں پاکستان کی مجموعی قومی آمدنی (فی کس خریداری کی طاقت کے برابر) کی درجہ بندی میں 140 ہے جو بنیادی طور پر سائنس کے میدان میں ترقی میں رکاوٹ کی وجہ ہے۔ سائنس پر مبنی تعلیم ، تحقیق اور ترقی کے شعبے میں محدود وسائل کے باوجود ، مجموعی طور پر ناکافی مالی اعانت کے باوجود بھی مستقل ترقی ہوئی ہے ، اور پاکستان کی سرکاری اور نجی شعبے کی چندجامعات کی بین الاقوامی درجہ بندی میں بہتری آئی ہے۔
پاکستان سے قدرتی اور سماجی سائنس کے زمرے میں اکتوبر 2019 تک مجموعی طور پر کُل 17,499 اشاعتیں شایع ہوئیں۔ اس تعداد میں تحقیقی مضامین ، جائزے کے کاغذات ، کانفرنس کارروائی کے کاغذات اور اعلٰی اور کم عنصر میں شائع ہونے والے خطوط اور ISI اشاریہ جرائد شامل ہیں۔2000تا 2008کے دوران ایچ ای سی کی اصلاحات کے نتیجے میں حیران کن حقیقت اور خوش آئند بات یہ سامنے آئی کہ پاکستان2017 میں فی شخصی تحقیقاتی پیداوار میں بھارت سے سبقت لے گیا۔
2002سے پہلے جامعاتی گرانٹس کمیشن کے دور میںپاکستان میں فی دس لاکھ آبادی کے لحاظ سے بھارت کی 186 اشاعت کے مقابلے میں صرف 53 بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ اعلٰی معیار کی "امپیکٹ فیکٹر" کی تحقیقاتی اشاعتیں تھیں۔ اُس وقت ہم بھارت سے تقریبا ً 400 فی صدپیچھے تھے۔ایچ ای سی اصلاحات و مقرر کردہ اعلٰی معیار کی تحقیق پربھر پور توجہ کے نتیجے میں ڈرامائی طور پر تبدیلی رونما ہوئی اور پاکستان نے 2017 میں بھارت سے فی دس لاکھ آبادی کے تناسب سے تحقیقاتی اشاعت میں سبقت حاصل کرلی اور اس طرح 2018 میں، بھارت کی708 اشاعتوں کے مقابلے میں پاکستان میں 916 اشاعتیں شایع ہوئیں، یعنی تقریباً بھارتی تحقیقاتی اشاعت کے مقابلے میں پاکستان کی تحقیقاتی اشاعت 30 فی صد سے زائد ہو گئیں۔
تھامسن روئیٹرز (Thomson Reuters) دنیا کی معروف کمپنی جو سائنس اور بین الاقوامی حوالہ جات کے اعداد و شمار شائع کرتی ہے ۔اُس نے بھی پاکستان کا برازیل، روس، بھارت اور چین ممالک (BRIC) ممالک سے موازنہ کیا اور یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ BRIC ممالک کے مقابلے میں پاکستان کے تحقیقی مقالوں کے حوالہ جات میں بہتری کی شرح کسی بھی برِک ممالک سے کہیں زیادہ ہے ۔پاکستان نے تحقیقی اشاعت میں فی دس لاکھ کی آبادی کے لحاظ سے بھارت سے سبقت حاصل کر لی ۔
بین الاقوامی مرکز برائے کیمیائی و حیاتیاتی سائنسز
آئی سی سی بی ایس میں سندھ فرانزک ڈی این اے لیبارٹری حال ہی میں قائم کی گئی ہے۔ سندھ حکومت نے سامان اور کیمیکلز کی خریداری کے لئے پہلی قسط کے طور پر 220 ملین کی منتقلی کی ۔ لیبارٹری جدید ترین آلات سے لیس ہے۔ بین الاقوامی معیار اور کوالٹی کو بنانے کے لئے شواہد اور نمونوں کو بین الاقوامی شرائط و ضوابط کے مطابق موصول کیا جاتا ہے۔ یہ لیبارٹر ی مجرمانہ اور دیوانی مقدمات کی صورت میں انسانی شناخت کے لئے ڈی این اے تجزیہ کی خدمات فراہم کررہی ہے۔
نینو مرکز کا قیام
آئی سی سی بی ایس میں پاکستان کا پہلا نینوٹیکنالوجی مرکز قائم کیا گیا ہے، جو نینو ٹیکنالوجی سے متعلقہ تحقیقاتی شعبے جیسے نینو میڈیسن ، نینو الیکٹرانکس ، نینو سینسرز ، نینو کیٹالیسس ، نینو اور مائیکرو جھلی وغیرہ کے لئے مکمل طور پر وقف ہے۔ اس سال اس منصوبے کی تکمیل کے لئے 714.533 لاکھ روپے کی گرانٹ کی منظوری دی گئی ہے ، جس کا عنوان ہے ۔’’ایل ای جے میں نینوومادّوں‘‘ کی صنعتی پیداوار کے لئے سہولیات کا قیام ہے۔
جی ایم او ٹیسٹنگ کی سہولت
ممنوعہ جی ایم او بیج اور فصل کی درآمد پر قابو پانے کے لئے آئی سی سی بی ایس نے صنعتی تجزیاتی مرکز (Industrial Analytical Center ) میں ISO17025 سے تسلیم شدہ جینیاتی ترمیم شدہ جراثیم (Genetically Modified Organisms, GMO) کی سہولت قائم کی ہے۔ زرعی مصنوعات کی درآمد / برآمد کا ذمہ دارمحکمہ برائے تحفظ نباتات (Plant Quarantine Department) ان نمونوں کے تجزیے کے لئے آئی سی سی بی ایس سے 100٪ مطمئن ہے۔
بی ایس ایل ۔3 قومی وائرولوجی سہولت کا قیام
عالمی صحت عامہ ادارے (World Health Organization)کے ریگولیٹری رہنما اصولوں کے مطابق انتہائی متعدی وائرل پیتھوجینز کو سنبھالنے کے لئے ایک مکمل علیحدہ ، آزاد بی ایس ایل ۔3 پہلا قومی وائرولوجی تحقیقی مرکز (Virology Research Center )قائم کیا گیا ہے۔ یہ مرکز وائرل اور دیگر بیماریوں پر سائنسی تحقیقات کرنے کے لیئے جدید ترین آلات سے آراستہ ہے ۔ پہلی قدرتی مصنوعات کی تحقیق میں جدت طرازی کے لئے قازقستان اور پاکستان کی مشترکہ لیبارٹری کا آئی سی سی بی ایس میں قیام ۔ آئی سی سی بی ایس میں مرگی (Epilepsy) اور رعشہ (Parkinson’s disease)کے علاج پر تحقیقات تکمیل کے مراحل میں ہے ۔
اس کے علاوہ پاکستان کے دیگر اداروں میں بھی سائنسی و تحقیقی سرگرمیاں گزشتہ سالوں کی نسبت تیز رہیں ۔ تحقیقی مقالوں کے معیار میں بھی بتدریج اضافہ رہا ۔ نئے سینٹر کو قومی سہولت کے طور پر قائم کیا جارہا ہے، تاکہ بڑھتی ہوئی وائرل بیماریوں کے بوجھ سے متعلق اہم چیلنجوں کا مقابلہ کیا جاسکے۔ 40,000مربع فیٹ سے زیادہ لیبارٹری عمارت اور چار BSL-II ، اور BSL-III کی سہولیات ، لائبریری اور مرکزی لیبز تیار ہیں۔