• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حیات رضوی امروہوی

کراچی کا ذکر کیا جائے تو سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ یہ ذکر کب سے چھیڑا جائے؟ اُس وقت سے جب یہ صرف ڈھائی لاکھ کی آبادی کا انتہائی پُرسکون شہر تھا اور اس کی سڑکیں پانی سے دھوئی جاتی تھیں یا اُس وقت سے جب قائدِاعظم کے مزار پر اور شہر کے فُٹ پاتھوں پر جھگیاں ہی جھگیاں تھیں یا جب پیر الٰہی بخش صاحب سے پیرآباد کی زمین خرید کر گولیمار کے کوارٹر مہاجرین کو دیے جارہے تھے اور پیر صاحب نے پیرالٰہی بخش کالونی کی بنیاد رکھی تھی یا کلیٹن روڈ اور مارٹن کوارٹرز کو سرکاری اہلکاروں سے بسایا جارہا تھا اور اسی قسم کی آبادیاں جیکب لائن، جٹ لینڈ لائن اور بزرٹا لائن المونیم کوارٹرز میں نظر آنی شروع ہوگئی تھیں، اور یوپی سے مہاجر خواتین نے جب اس شہر میں قدم رکھا تو اس شہر کو بجائے کراچی کے کرانچی کہا، وہ آج بھی اس شہر کو کرانچی ہی کہتی ہیں۔ 

یا اُس وقت سے جب ناظم آباد کی زمین ڈھائی روپے گز کے حساب سے فروخت کی جارہی تھی اور اس بستی کا سنگِ بنیاد رکھنے کے لیے خود ملک کا وزیراعظم خواجہ ناظم الدین اس زمین کے ایک شامیانے میں کھڑا تقریر کررہا تھا، اور بستی بس جانے کے بعد اسی ناظم آباد میں جوش صاحب شام کی چہل قدمی کرتے ہوئے نظر آیا کرتے تھے۔۔۔ یا اُس وقت کو یاد کیا جائے جب خواجہ ناظم الدین کے زمانے میں سڑکوں پر ٹیلی فون بُوتھ لگائے گئے اور یار لوگوں نے اُنہیں بیت الخلاء کے طور پر بھی استعمال کیا، نیز ضرورت مندوں نے فون کی پیسوں سے بھری ہوئی بقچیاں توڑ کر پیسے نکالنے شروع کردیے اور مجبوراً حکومت کو یہ اسکیم ہی بند کرنی پڑی، اسی وزیراعظم کے زمانے میں سڑکوں پر امریکہ سے آئی ہوئی کیٹ لائٹس لگائی گئیں جو سڑکوں کی بار بار کی استرکاری کی بناء پر معدوم ہوگئیں۔۔۔ یا اُس وقت سے ذکرِ یار چلے جب بادِ بہاری میں سیمنٹ فیکٹریوں کی آلودگیاں خوب شامل ہوئیں اور ان میں سے کچھ فیکٹریوں کو شہر سے منتقل ہونا پڑا۔

اُس وقت سے بھی ذکر چھیڑا جا سکتا ہے جب پیر محمد، مینو مستری اور تاج الدین بھامانی جیسے عمارت کار حضرات نے نئی نئی عمارات ڈیزائن کیں اور کراچی کو ایک نیا رُخ عطا کیا، پھر مہدی علی مرزا جب پی ڈبلیو ڈی کے چیف آرکی ٹیکٹ بنے اور انہوں نے عمارتوں کی تکمیلی ضروریات کے لیے اسکول آف آرکی ٹیکچر قائم کیا اور کراچی میں عمارت کاری کا ایک انقلاب پیدا کردیا، کیونکہ یہ فن ابھی پاکستان میں نیا نیا تھا اور بہت کم لوگ اس شعبے سے متعلق تھے۔

یہاں سے بھی بات شروع کی جاسکتی ہے جب ضمیر مرزا رزقی، نقوی صدیقی والے نقوی اور محمد عبدالاحد جیسے آرکی ٹیکٹ دہلی سے کراچی آگئے اور کراچی کی عمارات کے لیے ایک نئے رجحان کو تشکیل دینے میں مدد دی۔ 

اب جب عمارت کاری یا آرکی ٹیکچر کا ذکر چھڑ ہی گیا ہے تو اُس وقت سے بھی کراچی کا تذکرہ کیا جاسکتا ہے جب کراچی کے چیدہ چیدہ عمارت کاروں کو ایوب خان کی حکومت نے 1964ء میں ایک سیمینار میں شریک ہونے کی دعوت دی ،جسے یہ فیصلہ کرنا تھا کہ پاکستان کے دارالحکومت کی تعمیر کے موقع پر کن باتوں کا لحاظ کیا جائے ،جن سے پاکستانی یا اسلامی طرزِ تعمیر کا اظہار ہوسکے۔ یہ اتنا اہم مسئلہ تھا کہ پورے پاکستان کی تعمیرات پر اس فیصلے کا اثر پڑ سکتا تھا، اور یہ کراچی کے ہی عمارت کار آرکی ٹیکٹس تھے، جنہیں یہ فیصلہ کرنا تھا۔

کراچی کی جوانی کی یادیں اُن دنوں سے بھی وابستہ ہیں جب ایوب خان کے زمانے میں اعظم خان صاحب نے بڑی عزت پائی، اور وہ مشرقی پاکستان ہی کے نہیں بلکہ کراچی کے بھی ہردلعزیز فرد بن گئے، کیونکہ انہوں نے لانڈھی، کورنگی کی آبادیاں بسانے کے لیے کراچی والوں کی بڑی پُرخلوص خدمت کی تھی، اور اسی طرح کی فلاح و بہبودکی خدمات مشرقی پاکستان میں بھی انجام دی تھیں، بلکہ وہاں کے تو وہ گورنر بھی تھے۔ اُن کی ہردلعزیزی اور شہرت سے خوف کھا کر ایوب خان نے بہت جلد اُنہیں وہاں سے بلا لیا تھا اور بنگالیوں نے اُنہیں بھیگی آنکھوں کے ساتھ رخصت کیا تھا۔

ذکر کراچی کا ہورہا تھا کہ اس ذکر کو کہاں سے شروع کیا جائے؟ کیا اُس وقت سے یہ قِصّہ چھیڑا جائے جب میونسپل کارپوریشن کے کونسلر اور چیئرمینوں کے انتخابات بڑی دھوم دھام سے ہوا کرتے تھے اور افغانی صاحب، نعمت اللہ خان صاحب اور دیگر امیدواروں کے سلسلے میں یہ شہر کپڑے کے بینروں، شامیانوں اور تانگوں پر لگے لاؤڈ اسپیکروں کی آوازوں سے گونجا کرتا تھا۔ یا اُس وقت سے جب کونسلروں کے ذریعے واقعی چشمِ بددور اس شہر کے فلاحی و رفاہی امور پر سرکاری پیسہ اور یہاں کے باسیوں کے خون پسینے کی کمائی سے جمع کیے ہوئے ٹیکس یہیں کی فلاح پر خرچ ہوتے تھے۔ ایوب خانی دور میں ایسے واقعات کے تذکرے سے بھی کراچی کا تذکرہ کیا جاسکتا ہے۔ 

جب ایسا بھی ہوا کہ لالو کھیت کی آبادی کا ایک بڑا حصہ اور بازار نذرِ آتش کردیا گیا اور نہ جانے کتنے افراد لہولہان ہوکر شہید ہوگئے۔۔۔ یا جب سے قصہ سنایا جائے جب اسی شہر کی سڑکوں پر احسان کارپوریشن کی بسیں پرائیڈ آف کراچی کے نام سے اپنی بہار دکھاتی تھیں، جن کے کنڈیکٹر باوردی ہوتے اور اپنے گلے میں پڑی مشینوں سے مسافروں کو ٹکٹ فراہم کرتے نظر آتے تھے۔ 

بلکہ کراچی کے واقعات کا سلسلہ محمد علی ٹراموے کمپنی کی ٹراموں سے بھی جوڑا جا سکتا ہے جو سولجر بازار کی پٹریوں سے شروع ہوکر براستہ صدر ٹرام جنکشن،کینٹ اسٹیشن کی طرف جاتی تھیں اور پھر انہی پٹریوں پر بندر روڈ سے ہوتی ہوئی کیماڑی تک جاتیں، اور کرایہ صرف پانچ پیسے۔ مگر ہائے افسوس کہ ایک بھی ٹرام اب باقی نہیں، حد یہ کہ میوزیم میں رکھنے کے لیے بھی کوئی باقی نہیں، سب کو گلا کر لوہا پگھلالیا۔

کراچی کی باتوں کی شروعات اُس وقت سے بھی کی جا سکتی ہے ،جب بھوسا خاں کی افواہ نے اورنگی ٹاؤن، ناظم آباد، گولیمار، لالو کھیت اور لانڈھی، کورنگی کے لوگوں کی نیندیں حرام کی ہوئی تھیں۔ کہا جاتا تھا کہ بھوسا خاں کی بَلا کراچی پر نازل ہوگئی ہے جو رات کے وقت لوگوں کے سر کچل کر چورا بلکہ بھُوسا بنادیتی ہے۔ 

لوگوں نے چارپائیوں پر رات میں گلیوں میں باہر سونا بند کردیا اور نوجوانوں نے مُحلّوں کی حفاظت کے لیے آگ جلا کر پہرے داری سسٹم بنایا جس میں بھُوسا خاں سے بچاؤ کے لیے بجلی کے کھمبوں کو پتھروں سے بجایا جاتا تھا تاکہ لوگ ہوشیار ہوجائیں اور حفاظتی تدابیر اختیار کرسکیں۔ اسی طرح ہتھوڑا گروپ یا ہتھوڑا خاں سے بچانے کے لیے بھی بجلی کے کھمبے بجائے جاتے تھے جو ہتھوڑوں سے سَر کُچل دیا کرتا تھا، مگر یہ سب افواہیں ہی تھیں، البتہ لوگوں نے اپنی پُرانی پُرانی دشمنیوں کا خوب خوب بدلہ ان افواہوں کے ذریعے لیا۔

کراچی کی ثقافتی سرگرمیوں سے بھی بات چیت اور تذکرے کی ابتدا کی جاسکتی ہے، بقول کسے کراچی تو دبستانوں کا دبستان ہے۔ یہاں بھانت بھانت کا ادیب اور شاعر پایا جاتا ہے، ہر محلّے میں ایک ادبی نشست یا مشاعرے کا اہتمام ایک عام سی بات تھی، اب بھی یہ سلسلے جاری ہیں مگر پہلوں کی بات ہی اور تھی۔ یاور عباس کے فردوس کالونی والے مشاعرے میں جوش صاحب اپنا مرثیہ نوتصنیف پیش کیا کرتے تھے، لوگ باگ جوش صاحب کو دیکھنے اور لال کشمیری چائے پینے دور دور سے آیا کرتے تھے۔ 

کراچی کے پھیلے ہوئے علاقوں کے شعرائے کرام مرکزی طور پر باقی لائبریری بوہرہ پیر عیدگاہ میدان بندر روڈ کے مشاعرے میں اکٹھے ہوا کرتے تھے۔ ریڈیو پاکستان میں زیڈ اے بخاری بھی شعراء کو جمع کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ ان ادبی نشستوں کا کراچی کی ثقافتی اُٹھان میں بڑا کردار ہے جو ناقابلِ فراموش ہے، وہاں سے بھی ہم اپنی بات چیت کی ابتدا کرسکتے ہیں۔

ثقافت کی بات آئی ہے تو کیوں ناں کراچی کے اکلوتے تھیٹر اِلائٹ سے ابتدا کی جائے، یہاں لیلیٰ مجنوں، شیریں فرہاد، سلطانہ ڈاکو، یہودی کی لڑکی اور نہ جانے کن کن ناموں سے آئے دن تھیٹر ہوتا تھا جس میں پھٹے ڈھول کے ساتھ گانے بھی گائے جاتے تھے۔ یہ تھیٹر بندر روڈ کے ساتھ والی گلی ٹرام جنکشن کے قریب تھا اور لوگوں کی شام کی دلچسپی کا سامان تھا۔ نئے نئے سنیما بن رہے تھے، شہر میں ٹھیراؤ آرہا تھا۔ 

اگر تھیٹر رات دو بجے ختم ہوتا تو واپس گھر آنے کے لیے سواری نہ بھی ہو تو پیدل یا سائیکل پر چلے آنے میں کوئی مضائقہ نہیں تھا، اتنی رات گئے خوف کا کوئی عنصر نہیں تھا، شہر پُرسکون تھا، حکومت کی رِٹ قائم تھی، ہر بات قاعدے قانون کے مطابق تھی، سائیکل کی بھی رجسٹریشن ہوتی تھی اور پیتل کی نمبر پلیٹ ملتی تھی، سرسوں یا مِٹّی کے تیل سے روشن ہونے والی بتّی ضروری تھی، اگر نہ ہو تو چالان ہوجاتا تھا، اگر ایک سواری اور بٹھالی جائے تو بھی چالان ہوجاتا تھا اور باقاعدہ کورٹ میں پیشی ہوجاتی تھی۔

یہ ہمیں کیا ہوگیا! یہی شہر تھا جس میں یہ سب کچھ ہماری آنکھوں کے سامنے ہورہا تھا۔ کیا اب سائیکل کے چالان کا تصور کیا جا سکتا ہے؟ ہم نے سارے ادارے وقت کے ساتھ ساتھ ترقی یافتہ بنائے نہیں بلکہ تباہ کیے ہیں۔۔۔ یہ بھی بات شروع کرنے کے لیے ایک موضوع ہو سکتا ہے، لیکن بڑا تکلیف دہ موضوع ہے۔

لیجیے بات تو ابھی شروع بھی نہیں ہوسکی، ہم یہی سوچتے رہ گئے کہ کراچی کا تذکرہ کہاں سے شروع کیا جائے۔ دراصل کراچی ایک بہت پھیلا ہوا شہر ہے، اس پر بات کرنے کے لیے بڑی تفصیل درکار ہے، بڑا وقت چاہیے، بہتر یہی ہے کہ ایک ایک موضوع لیا جائے اور پھر بات کی جائے، تذکرہ کیا جائے، کیونکہ مسائل بہت ہیں، خود میں نے کہہ رکھا ہے:

کراچی جس نے سُلجھائے مسائل

وہ اب شہرِ مسائل ہو گیا ہے

تازہ ترین