کراچی میں سردی کی شدت میں اضافے سے سانس کی نالیوں کی دائمی بیماری (سی او پی ڈی) اور دمہ کا مرض بھی شدت اختیار کرگیا ہے اور بڑی تعداد میں مریض اسپتالوں میں آرہے ہیں۔
جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے معروف ماہر امراض سینہ پروفیسر ندیم رضوی نے بتایا کہ سردی کی شدت میں اضافے سے سی او پی ڈی اور دمے کے مریضوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس سے بچنے کےلئے مریضوں کو چاہیے کہ وہ تمباکو نوشی ، سگریٹ ، سگار، شیشہ ، لکڑ ی اور کوئلے کے دھویں، ماحولیاتی آلودگی ، فیکٹری کے دھویں، کچرا جلانے ، مچھر مار کوائل، مٹی کے ذرات، بستر کی گندگی، فرنیچر اور کارپٹ پر پائی جانے والی مٹی، پولن ذرات، نمی، تمباکو نوشی اور کیمیائی ذرات سے دور رہیں، احتیاط تدابیر اختیارکریں اور موٹر سائیکل چلانے والے افراد ماسک استعمال کریں۔
انہوں نے بتایا کہ سی او پی ڈی کی علامات میں صبح کے وقت مریض کو کھانسی ہوتی ہے جس میں بلغم آتا ہے، نالیاں سکڑتی ہیں تو سانس پھولنا شروع ہو جاتا ہے پھر کم مشقت والے کاموں میں بھی سانس پھولتا ہے اور رفتہ رفتہ بیٹھے بیٹھے بھی سانس پھول جاتا ہے ۔اس بیماری سے پھیپھڑوں کی قوت مدافعت کم ہوجاتی ہے اور پھر بار بار انفیکشن ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان مریضوں کو سردی میں زیادہ انفیکشن بھی ہوتےہیں۔ اس لئے سردیوں کے آغاز میں ہی ان کو فلو ویکسینیشن کر الینی چاہیے، دوا باقاعدگی سے لینی چاہیے ایسے مریضوں کو فعال رہنا چاہیے اور وزن کو بڑھنے سے روکنا چاہیے۔
انہو ں نے بتایا کہ عموماً لوگ الرجی یا کھانسی کی دوا لے لیتے ہیں، ان سے گریز کرنا چاہیےایسی کوئی دوا ایجاد نہیں ہوئی جو ان مریضوں کی زندگی کو بڑھا سکے لیکن دواؤں سے مرض میں کمی لائی جا سکتی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ سی او پی ڈی کے برعکس دمے کی بڑی وجہ موروثی ہے اور ساتھ ہی سانس کے ساتھ ماحول میں الرجی کے ذرات بھی اس کا باعث بنتے ہیں۔ اس لئے ان عوامل سے احتیاط برتی جائے مناسب اقدامات سے اس بیماری پر قابو پاکر مریض کا معیار زندگی بہتر بنایا جاسکتا ہے۔