• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
  • ہجر اُس کی پوری زندگی نچوڑ کر اُسے اَدھ مَرا چھوڑ گیا
  • وفا کے میزان پر پُورا نہ اُترنے والے پھر تمام عُمر نظر جُھکا کر ہی چلتے ہیں
  • اِک دَربدر، خاک بسر… اور عشقِ مجازی سے عشقِ حقیقی تک کا سفرِ مسلسل

استاد اکبر کی اہلیہ نے مہرو کو سنبھال کر سیٹ پر بٹھایا۔ میری مہینوں کی دربدری اور خاک بسری کے بعد آج بالآخر وہ سمٹی سمٹائی سی لڑکی، مہرو میرے سامنے بیٹھی تھی۔ لاغر، لرزتا، کپکپاتا اور سہما ہوا سا ایک زرد وجود، ہجر جس کے اندر سے پوری زندگی نچوڑ کر اسے اَدھ مَرا سا چھوڑ گیا تھا۔ مَیں اُس سے کچھ کہنا چاہتا تھا، کوئی تسلّی، دلاسا،تشفّی۔ لیکن میرےپاس حسبِ معمول الفاظ کی کمی تھی۔ جانے لوگ دوسرے کو دلاسا کیسے دیتے ہیں کہ لفظ بھلا کسی کے درد کا دَرماں کب ہوتے ہیں۔ سب دکھاوے کی رسمیں ہیں۔ مہرو چکرا کر بوگی کے فرش پر گری تھی، تو اب نقاہت کے مارے اُس سے کچھ بولا بھی نہیں جارہا تھا۔ 

وہ چُپ رہی، لیکن…سب کچھ کہہ گئی۔ آخر زبان اور الفاظ ایجاد ہونے سے پہلے بھی تو لوگ آپس میں بات کیا کرتے ہوں گے۔ یوں بھی مجھے تو ہمیشہ ہی سے یہ لفظ ’’اضافی‘‘ لگتے تھے۔ مہرو کے گائوں کا اسٹیشن نظام آباد کے رستے ہی میں تھا۔ ساری رات گاڑی کی طرح ہماری سوچیں بھی دوڑتی رہیں۔ ٹرین البتہ مختلف اسٹیشنوں پر رُکتی گئی، مہرو کی حالت ٹھیک نہیں تھی۔ صبح فجر کے وقت ہم اُس کے گائوں اُترے تو دُھند نے چاروں جانب ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ تانگے کے اگلے بم پر بندھی لالٹین کی پیلی روشنی نشان دہی نہ کرتی، تو شاید ہمیں تانگہ نظر ہی نہ آتا۔ کچھ دیر بعد ہم گائوں سےباہر والے مزار کی منڈیر کے سامنے کھڑے تھے۔ 

مہرو سارے راستے خاموش رہی، مگر اپنی ماں کو بڑے پیپل کے پیڑ تلےچادر لپیٹے لیٹے دیکھ کراُس کےضبط کےسارےبندھن جیسے ایک ہی لمحے میں ٹوٹ گئے۔ وہ اپنی ماں سے لپٹ کر یوں روئی کہ اُس کی چیخوں سے گھبرا کر آس پاس کے مجاور، مجذوب بھی گھبرا کر دوڑے چلے آئے۔ استاد اکبر کی گھر والی اور بیٹی نے مہرو کو سنبھالا۔ اور پھر مہرو کا گھرجاتے جاتے سارے گائوں کو پتا چل چُکا تھا کہ مہرو واپس آگئی ہے۔ گائوں کی عورتیں جُوق درجُوق مہروسےملنےدوڑی چلی آرہی تھیں، مگر جس کا مجھے انتظار تھا، اُس نے آنے میں بہت دیر کردی۔

شام ڈھلنے والی تھی، مَیں نے استاد اکبر سے اجازت چاہی۔ وہ بوکھلا کر بولے ’’مگر… کہاں… رات تو بسر کرلو۔ ابھی تو تم سے کُھل کر بات ہی نہیں ہوسکی‘‘۔ ’’رات مَیں، اسٹیشن پر گزارلوں گا۔ آپ مہرو کے ساتھ ہی رہیے گا۔ مجھے اُمید ہے کہ وقت کے ساتھ مہرو کی ماں بھی ٹھیک ہوجائے گی۔ زخم گہرا ہے، مگر بھرجائے گا۔ ہاں، مہرو کی زندگی کا آخری طوفان ابھی باقی ہے۔ دُعا کیجیے گا کہ وہ اِس امتحان میں بھی سُرخ رُو رہے۔‘‘ مَیں پلٹا اور ٹھیک اُسی وقت مہرو کی حویلی کا بڑا دروازہ دھڑسےکُھلا اوراس کےبیچوں بیچ بدحواس پریشان سی، سُرخ آنکھیں لیے پروین کھڑی دکھائی دی۔ مجھے دیکھتے ہی بولی ’’سائیں جی … کہانی شروع کی ہے، تو اب اس کا انجام بھی دیکھتے جائیں۔ میرے جرم کی سزا ابھی باقی ہے۔ اپنی سولی ساتھ لے کر آئی ہوں مَیں…‘‘ پروین کی آواز سُن کر مہرو اندر سے لپک کر باہر نکلی، کچھ دیر تک دونوں سہیلیاں پَھٹی پَھٹی نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھتی رہیں اور پھر پروین ایک چیخ مار کر زارو قطار روتی مہرو سے لپٹ گئی۔ 

مہرو نےکچھ دیرخود کوسنبھالنے کی کوشش کی، مگر پھر وہ بھی رو پڑی اور ایسی روئی کہ اندر بیٹھی مزاج پُرسی کےلیے آئی عورتیں بوکھلا کر باہرنکل آئیں۔ استاد اکبر بھی اپنی بھیگی پلکیں پونچھتے نظر آئے، پھر یکایک پروین نے اپنی چادر مہرو کے پیروں میں ڈال دی اور جُھک کر مہرو کےپائوں پکڑلیے۔ ’’معاف کردے مجھے…‘‘ پہلے سچ نہیں بتا پائی مَیں کسی کو۔ پر آج تیرے آنے کی خبر سُن کر سارے قرض چُکادیئےہیں میں نے۔ تیرے احمد کو ساتھ لے کر آئی ہوں۔ سب سچ بتادیا ہے مَیں نے اُسے بھی اور اُس نے بھی میرا فیصلہ تیرے ہاتھوں میں سونپ دیا ہے۔‘‘ مہرو نے گھبرا کر دروازے کی طرف دیکھا، جہاں احمدسرجھکائےکھڑا تھا۔ نظر ملاتا بھی تو کیسے۔ 

وفا کے میزان پر پورا نہ اُترنے والے پھر تمام عُمرنظرجھکا کر ہی چلتے ہیں۔ مہرو کچھ دیر تک ڈبڈبائی نظروں سے اپنے محبوب کو دیکھتی رہی، جو اب اُس کی سہیلی کا سہاگ تھا۔ پھر اپنے قدموں سے لپٹی پروین کو شانوں سے پکڑ کر کھڑا کردیا ’’پتا ہے پینو … آج حساب برابر ہوگیا۔ بچپن میں کئی بار مَیں نے تیرے بستے سےاملی چُرا کر کھائی، پر تجھے کبھی نہیں بتایا۔ چل، آج میں نے تجھے معاف کیا اور تُو بھی مجھے معاف کردے۔ تیرا مقدر، میرا مقدر رب کے حوالے۔ جو میرا نصیب …‘‘ پروین نے تڑپ کر مہرو کی طرف دیکھا ’’نہیں … اتنی بڑی سزا نہ دے … اور تیرا نصیب تو وہ سامنے کھڑا ہے، تیرے انتظار میں، تُونے خود کو پہلے بھی میری وجہ سے قربان کیا تھا۔ اب دوبارہ مَیں تیری تباہی کی ذمّے دار نہیں بنوں گی۔ 

معاف کردےاحمد کو اس کاہاتھ تھام لے… وہی تیرا مقدر ہے… مَیں اپنی دنیا میں پلٹ جائوں گی۔ کبھی تیرے رستے میں نہیں آئوں گی۔‘‘ پروین نےجھپٹ کر ایک بار پھر مہرو کو گلے لگایا اور پلٹ کر جانے لگی۔ تبھی استاد اکبر کی آواز سُنائی دی ’’تم دونوں ہی میری بیٹیوں کی طرح ہو۔ یہ سچ ہےکہ مہرو نے بہت دُکھ سہے ہیں، مگر اس کے باوجود یہ کبھی تمہارا ہنستا بستا گھر نہیں اجاڑے گی۔ بہتر یہی ہے کہ سہیلی کو سوکن بنالو۔ دنیا یہ بھی دیکھ لے کہ ایک ہی گھر میں دو عورتیں سہیلیاں بن کر بھی زندگی گزار سکتی ہیں۔ سوکن بھی سہیلی ہو سکتی ہے۔ تم دونوں عُمر بھر کے لیے ایک دوسرے کا سہارا بن جائو۔ دُکھ تو بانٹ لیے، اب سکُھ بانٹنے کا وقت آیا ہے،تو جدا کیوں ہوتی ہو…‘‘ وہ دونوں ایک دوسرے سے لپٹی روتی رہیں۔

مَیں نے واپسی کے لیے قدم بڑھائے، تبھی پیچھے سے ایک سِسکتی ہوئی آواز سنائی دی ’’جارہے ہو بھائی…‘‘ مَیں نے پلٹ کر دیکھا، مہرو رو رہی تھی۔ ’’ہاں… مجھے جانا ہوگا، بہت سی کہانیاں ادھوری چھوڑ آیا ہوں اپنے پیچھے، میرے لیے دُعا کرنا…‘‘ مہرو تڑپ کر بولی ’’آج کے بعد میری ہر آتی جاتی سانس سے تمہارے لیے صرف دُعا ہی نکلے گی بھائی۔ تم نے میرے لیے جو کیا ہے، کوئی سگا بھی نہیں کرپائے گا۔‘‘ وہ بلک اُٹھی۔ مَیں نے اُس کے سر پر ہاتھ رکھا اور ایک جھٹکے سے پلٹ گیا۔ یہ جذبے بھی کسی بھاری بیڑی سے کم نہیں ہوتے۔ پائوں کی زنجیر بن جاتے ہیں پَل بھر میں۔ دروازے کے قریب کھڑے احمد نے پیش کش کی کہ وہ مجھے میری منزل تک چھوڑ آئے گا، مگر مَیں نے اُسے صرف ایک تاکید کی ’’اب مہرو کا خیال رکھنا…‘‘ اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا گائوں سے باہر جانے والی سڑک پر چلتا چلا گیا۔

اِس سارے ہنگامے میں نصف رات تو قریباً بیت ہی چُکی تھی، لہٰذا مَیں نے ریلوے اسٹیشن کی راہ پکڑی۔ سویرے والی گاڑی دو گھنٹے بعد آنے والی تھی۔ مَیں وہیں پلیٹ فارم کے ایک بوسیدہ سے بینچ پر کمر ٹِکا کر لیٹ گیا۔ آسمان کے کچھ تارے ایسے بھی ہوتے ہیں، جو پلکیں موندنے کے بعد بھی ہمیں دکھائی دیتے رہتے ہیں۔ میری آنکھوں میں بھی بہت سے تارے اُتر آئے تھے اورہوش تب آیا جب گاڑی پلیٹ فارم سے لگ چُکی تھی۔ اتفاق سےدرجہ دوم یا سوم کی کوئی نشست خالی نہیں تھی، لہٰذا مجھے ایک بار پھر مجبوراً درجہ اوّل کا ٹکٹ کٹوانا پڑا۔ یہ چار چار افراد کے لیے الگ بنی چھوٹی سلیپر بوگیوں میں سے ایک کا ٹکٹ تھا۔ 

مَیں ڈبّے میں داخل ہوا، تو مجھے اپنا پچھلا سفر یاد آگیا، جو مَیں نے پروفیسر فیضی اور اُن کے دوست کے ساتھ شاید کسی عالمِ خواب میں کیا تھا۔ میرے قدم ٹھٹھک سے گئے۔ اندر پہلے سے تین جوان لڑکے عازمِ سفر تھے اور میری توقع کے برعکس تینوں جاگ رہے تھے۔ مجھے دیکھ کر اُن کے چہرے تَن سے گئے، جیسے اُنہیں میری آمد ناگوار گزری ہو۔ اُن میں سےایک انگریزی میں بولا، ’’یار وسیم! یہ کیا… تم نے تو کہا تھا کہ اب آخری اسٹیشن تک کوئی ہمارے ڈبّے میں سوار نہیں ہوگا، مگر یہ تو…‘‘ وسیم نے بھی بُرا سا منہ بنایا ’’پتا نہیں یار! میں نے ٹی ٹی سے کہا بھی تھا کہ ہم سے چوتھی سیٹ کے پیسے لے لے اور یہ سارا ڈبّا ہمارے نام پر بُک کردے۔‘‘ تیسرے لڑکے نے لمبی سی انگڑائی لی اور برتھ پر چڑھ گیا۔ ’’اِسی لیے مَیں نے کہا تھا کہ یہ ٹرین پر سفر کا ایڈونچر مت کرو… بائی ایئر جاتے، تو پچھلی شام ہی اپنے گھروں کو پہنچ گئے ہوتے۔ اب کرو مزے…‘‘ مَیں نے بیٹھ کر اُن سب کی طرف دیکھا۔ وہ سب انگلش میں بات چیت کررہے تھے۔ وجہ صاف ظاہر تھی کہ میرے فقیرانہ حُلیے سےحسبِ معمول انھوں نے بھی یہی اخذ کرلیا تھا کہ مَیں کوئی جاہل، اَن پڑھ ہوں۔ پھر وہی انسان اور وہی ظاہر پرستی۔ 

مَیں چُپ چاپ بیٹھا رہا۔ پھر اُسی وسیم نامی لڑکے نے مجھ سے اُردو میں پوچھا ’’مولانا! کہاں جارہے ہو … یہ فرسٹ کلاس سلیپر کاڈبّا ہے۔ اِس کا ٹکٹ ہے تمہارے پاس؟‘‘مَیں نےٹکٹ نکال کر اُس کی ہتھیلی پر رکھ دیا۔ ’’مجھے بس نواب پور تک جانا ہے۔ اکانومی میں سیٹ نہیں تھی، اس لیےاس ڈبّے کا ٹکٹ لینا پڑا۔‘‘ وسیم نے شرارتی نظروں سے میری طرف دیکھا ’’مگر مولانا!ہم تو بہت بُرے لڑکےہیں… راستے بھر ہلّا گلّا کرتے رہیں گے۔ کہیں تم بےزار نہ ہوجائو … کیوں بلال…؟‘‘ تینوں لڑکے زور سے ہنس پڑے۔ ’’تم لوگ اطمینان سے اپنا شغل جاری رکھو۔ 

مَیں مخل نہیں ہوں گا۔‘‘ اس پر اوپر برتھ پر بیٹھا بلال ہنس پڑا۔ ’’چلو بھائی وسیم اور فراز… تم دونوں کو تو مولوی صاحب نےاجازت دے دی، موج مستی کی۔ چلو پھر بنائو میرے لیے بھی ایک لکیر۔‘‘ بلال نے یہ بات بھی انگریزی میں کہی تھی۔ مَیں اَن جان بنا بیٹھا رہا۔ اُسے فراز نے جواب بھی انگریزی ہی میں دیا۔’’نہیں یار!تم نےاس کاحلیہ نہیں دیکھا۔ ایسے لوگ بڑےجنونی ہوتے ہیں۔ کہیں کوئی فساد ہی نہ کھڑا کر دے۔‘‘ وسیم نے بے پروائی سے سر ہلایا۔ ’’ڈونٹ وری، یہ ایک ہے اور ہم تین۔ زیادہ اکڑ دکھائی یا تبلیغ کی کوشش کی، تو اُٹھا کر باہر پھینک دیں گے اِسے۔‘‘

وہ تینوں پھر ہنسے۔ وسیم نے اپنی جیب سے ایک چھوٹی سی پلاسٹک کی تھیلی نکالی، جس میں سفید نمک جیسے کچھ دانے یا کرسٹلز بھرے تھے۔ فراز نے جلدی سےجیب سے ایک پلاسٹک کا اے ٹی ایم کارڈ نما ٹکڑا نکالا اور وسیم نے سفید سفوف کےکچھ موٹے دانےسامنےکھلی چھوٹی میز پر بکھیر دیئے۔ فراز بڑی احتیاط اور مہارت سے ان دانوں کو کارڈ سے پیسنے لگا اور کچھ ہی دیر میں اُس نے میز کے شیشے پر سفید سفوف کی ایک ڈھیری سی بنادی، جِسے وسیم نے اپنی جیب سے ایک ویسا ہی کارڈ نکال کے باریک لکیروں کی صُورت میز پر بکھیردیا۔ دروازہ وہ پہلے ہی اندر سے کنڈی لگا کر بند کرچکے تھے۔ 

وسیم نےمیری طرف دیکھا ’’صوفی صاحب… کبھی سِنف (Sniff) کیا ہے…؟‘‘ مَیں نے نفی میں سر ہلایا۔ فراز نےجیب سےپانچ ہزار کا ایک نیا اور کڑک نوٹ نکالا اور اُسےگول لپیٹ کر ایک پنّی سی بنالی اور پھر جُھک کراُسےاپنے ایک نتھنے سے لگا کر ناک کا دوسرا نتھنا ہاتھ کے انگوٹھے سے بند کردیا۔ اگلے ہی لمحے فراز نے اپنی ناک کے واحد کُھلے نتھنے سے ایک طویل سانس اندر کھینچی اور باریک سفوف کی لکیر فراز کی ناک کے ذریعے لمحہ بھر میں اُس کےدماغ میں منتقل ہوگئی۔ فراز نے دوسری لکیرکےساتھ بھی یہی کیا اورپھر وسیم اور بلال نےبھی دو،دو کرکے سفید پائوڈر کی باریک لکیریں پل بھر ہی میں اپنےخون میں شامل کرلیں۔ وسیم نے انکھیں بند کرکے ایک لمبی گہری سانس لی اورڈوبتی آنکھوں سےمیری طرف دیکھا ’’جانتے ہو… یہ دنیا کی بہترین اور سب سے منہگی کوکین ہے۔ مَیں تو کہتا ہوں ایک لکیر تم بھی اپنے اندر اتار لو… سارے غم دور ہو جائیں گے…‘‘ میری زبان بے اختیار پھسل پڑی ’’وہ غم ہی کیا، جو نشے سے دور ہوجائے۔‘‘ وسیم ہنس پڑا ’’ہاں… ویسے بھی تم جیسوں کو کیا غم ہوسکتا ہے بھلا؟ 

تمہارا جینا مرنا ایک برابر ہے۔‘‘ مَیں نے اُس کے تلخ لہجے اور طنز کو برداشت کیا ’’مگر تمہیں کیا غم ہے…؟ اور کیا یہ سفید پائوڈر اُس غم کی دوا کررہا ہے…؟‘‘ وسیم نے ایک ٹھنڈی آہ بھری، ’’کوئی ایک ہو تو بتائوں… غموں کی بھرمار ہے جانی… مثلاً تین دن پہلے کسی نےمیری کار ٹھوک دی۔ بمپر ٹوٹ گیا اور پاکستان میں اس کے اسپیئر پارٹس ملتے نہیں ہیں۔ پچھلےہفتےمیراپالتوجیکی کھوگیاتھا، اب تک پولیس ڈھونڈ نہیں پائی… ڈیڈ نے میرے اکائونٹ میں اب تک میری پاکٹ منی ٹرانسفر نہیں کی… بولو… اورکتنےغم اور دُکھ بتائوں اپنے…‘‘ ’’واقعی، تمہارے غموں کی فہرست تو بہت لمبی ہے۔ ویسے تم کرتے کیا ہو…؟‘‘ ’’میوزک بناتے ہیں، بینڈ ہے ہمارا، راکنگ اسٹارز… مَیں گانے لکھتا ہوں۔ بلال گٹار بجاتا ہے اور فراز گاتا ہے… بہت جلد ہمارا البم آنے والا ہے۔ نام ہے، ’’دنیا کی ایسی کی تیسی‘‘ اور تم کیا کرتے ہو،ضرورکسی مسجد یامدرسےکےطالب علم ہوگے؟‘‘ ’’ہاں … کچھ ایسا ہی سمجھ لو۔ اپنے ایک دوست سے ملنےنواب پور جارہا ہوں، مگر تم نے بتایا نہیں، کوکین تمہارا غم کیسے دُور کرتی ہے؟‘‘ وسیم نے آنکھیں بند کرلیں۔ ’’تم نہیں سمجھو گے، یہ مجھے سُرور کے چوتھے آسمان تک لےجاتی ہے ’’گلابی آسمان‘‘ تک۔

تم جانتےہو، بےخودی کی سات منزلیں ہوتی ہیں یاپھرسات بادل… پہلابادل سفید، دوسرا دودھیا، تیسرا ہلکا آسمانی، چوتھا گلابی، پانچواں دھانی، چھٹا سُرخ اور ساتواں… آہ… مَیں کبھی ساتویں بادل تک پہنچ ہی نہیں پایابلکہ سچ کہوں، تو چوتھا بادل بھی کبھی پار نہیں کرپایا۔‘‘ مَیں نے دل چسپی سے وسیم کا یہ سارا فلسفہ سُنا ’’کیسا محسوس ہوتا ہے، اِن بےخودی کے بادلوں کے سفر میں…؟‘‘ ’’لفظوں میں بتانہیں سکتا۔ یوں سمجھو جیسے میرے اندر بہت سی کھڑکیاں، روشن دان درجہ بدرجہ کُھلتےجاتے ہیں۔ سوالوں کے جواب ملتے ہیں۔ میری تخلیقی صلاحیتیں بڑھتی ہیں، مشکل سےمشکل گانے کارِدھم بن جاتا ہے۔ مَیں، مَیں نہیں رہتا، کوئی اورہوجاتا ہوں۔

بہت اعلیٰ انسان بن جاتا ہوں۔‘‘ مَیں نے غور سے وسیم کی طرف دیکھا۔ ’’اِس کا مطلب تو یہ ہوا کہ کوکین کا نشہ تم پر نہیں، تمہارے اندر بیٹھے کسی شخص پر اثر کرتا ہے، کیوں کہ تم نے ابھی خود کہا کہ بے خودی کا ہر بادل گزرنے کے بعد تم، تم نہیں رہتے، کوئی اور ہوتے جاتے ہو…‘‘ وسیم نے چونک کر میری طرف دیکھا۔ ’’مَیں سمجھا نہیں، تم کہنا کیا چاہ رہے ہو۔‘‘ ’’مَیں صرف یہ پوچھ رہا ہوں کہ کیا یہ نشہ ختم ہونے کے بعد بھی تم وہی اعلیٰ تخلیق کار رہتے ہو یا پھر سے وہی ایک عام انسان بن جاتے ہو؟‘‘ وسیم نے بے اختیار اپنے ہاتھ پر ہاتھ مار کر افسوس سے کہا ’’یہی تو دُکھ ہے یار… چوبیس سے اڑتالیس گھنٹے لگتے ہیں میری رگوں سے اِس سُرور کو نکلنےمیں، اور پھر سب کچھ ویسا ہی عام سا ہوجاتا ہے۔‘‘ ’’پھر تو یہ عارضی نشہ ہوا۔ تمہیں کوئی دائمی نشہ تلاش کرناچاہیے۔‘‘ 

فراز نے غور سےمیری طرف دیکھا ’’کیا تم نے کبھی نشہ نہیں کیا؟ سگریٹ، تمباکو، شیشہ بھی نہیں، یہ کیسے ہوسکتا ہے…؟‘‘ ’’مَیں وہ نشہ چاہتا ہوں، جو چڑھ کر پھر کبھی میری رگوں سے نہ اُترے، کوئی ہے، تو بتائو۔‘‘ بلال نے جھنجھلا کر میری طرف دیکھا ’’ایسا نشہ بھلا کہاں ملے گا؟‘‘ ’’تم کیا سمجھتے ہو، اگر نشہ انسان کے لیے اتنا ہی ضروری ہے، تو کیا قدرت اتنی ناانصاف ہوسکتی ہے کہ وہ اپنی مخلوق کو اس ضرورت یا نعمت سے محروم رکھتے ہوئے دنیا میں بھیج دیتی؟‘‘ وسیم نے حیرت سے میری طرف دیکھا۔ ’’مَیں تمہاری بات نہیں سمجھا…؟‘‘ ’’بات بہت سیدھی سی ہے۔ قدرت نے انسان کو ہر نشے کی لذّت دے کر دنیا میں بھیجاہے۔ 

سارے نشے روزِ اوّل سے ہمارے اندر موجود ہیں۔ ہمارے خون میں دوڑتے ہیں۔ باہر کا کوئی بھی نشہ صرف ہمارے اندر موجود، مگر پوشیدہ نشے کو ذرا سی تحریک تو دے سکتا ہے، مگر ہمیشہ کے لیے خون میں شامل رہ کر وہ سرور نہیں دے سکتا۔ اِسی لیے ہر دنیاوی نشہ ایک محدود مدّت کے بعد اپنا اثر کھو دیتا ہے۔ کوشش کرو کہ اپنے اندر موجود نشے کو پہچانو اور پھر اُسے ہمیشہ کے لیے محفوظ کرلو…‘‘ وسیم کی آواز ڈوبتی ہوئی محسوس ہوئی۔ ’’مگر… کوئی انسان اپنے اندر موجود نشے کو کیسےاور کیوں کرپہچانے …؟‘‘ ’’ہاں یہ البتہ ایک سوال ہے؟ میرے ایک بہت محترم استاد اور بزرگ کہا کرتے تھے، ہرانسان کےاندر کا نشہ جُدا ہے، کسی کو بُت کا نشہ ہے، تو کسی کو بُت شکنی کا، کوئی جاگیر کے لیے دل گیر ہے، تو کوئی رُوپ کا اسیر… کسی کے اندرتخلیق کانشہ ہے، تو کسی میں تخریب کا… مگر یہ سب ہمارے اندر ہی موجود ہیں۔ 

اب یا تو تم نےاپنے اندر کا نشہ پہچانا ہی نہیں یا پھروقت سےپہلےہی کشید کرکےسارا نچوڑ لیا ہے، ورنہ انسان جتنی عُمر لکھوا کر لاتا ہے، اُسے اتنا ہی نشہ عطا کرکے زمین پر بھیجا جاتا ہے۔ ہمیں بیرونی نشے کی ضرورت تبھی پڑتی ہے، جب ہم وقت سے پہلے اپنے اندر سب بھسم کر بیٹھتے ہیں۔‘‘ مَیں جب خاموش ہوا، تو پھر ڈبّے میں بہت دیر تک خاموشی طاری رہی۔ فراز اور بلال بھی اپنی اپنی برتھوں پر اوپر چُپ چاپ لیٹے رہے۔

نواب پور آنے پر مَیں نے اُن تینوں سے رخصت لی، تو وہ میرے ساتھ ہی پلیٹ فارم پر اُترآئے۔ میرے پلٹنے سے پہلے فراز بول اٹھا ’’مگر تم نے یہ نہیں بتایا کہ اتنے بہت سے نشوں میں تمہارے نزدیک سب سے بڑا نشہ کونا سا ہے؟‘‘ مَیں اِک پل کو رُکا، ’’خود میں خود کی کھوج کا نشہ… مجھے اس دنیا میں کیوں بھیجا گیا ہے، اس تحقیق کا نشہ… بندے کا اپنے رب سے کیا تعلق ہے؟ اِس جستجو کا نشہ…‘‘مَیں نے اپنی بات ختم کی اور گاڑی رُکتے ہی ٹرین سے اُتر گیا۔

نواب پور کی شام ویسے ہی گلابی تھی۔ اسٹیشن کےسامنے سےسیدھی سڑک جاتی تھی اور دُور سے نواب تیمور کےمحل کےسفید گنبد نظر آرہے تھے، مگر میری منزل کہیں اور تھی۔ مَیں جلدازجلد بخت خان کے پاس پہنچنا چاہتا تھا۔ پچھلے چند دن اتنے ہنگامہ خیزتھے کہ مَیں چاہتے ہوئے بھی اُس کی خیرخبر نہیں لے پایا تھا۔ کمال صاحب کی رہایش گاہ کی طرف جاتے ہوئےدل سے لگاتار بس ایک ہی دُعا نکلتی رہی کہ بخت خان خیریت سے ہو۔ 

کمال صاحب کو میرے آنے کی اطلاع ملی، تو دروازے تک دوڑے چلے آئے۔ ’’کہاں رہ گئے تھے میاں… بڑی راہ دکھائی تم نے…‘‘ ’’معذرت چاہتاہوں، کچھ معاملات ایسے اُلجھ گئے تھے، جنہیں سلجھانے میں کئی ہفتے لگ گئے۔‘‘ کمال صاحب نے غور سے میری طرف دیکھا، ’’جانتا ہوں۔ تمہیں قتل کے الزام سے باعزت بَری کردیا گیا ہے۔ ویسےاگر وہ تمہیں بَری نہ بھی کرتے، تو میرا دل کبھی یہ نہیں مان سکتا تھا کہ تم قاتل ہو…‘‘ مَیں نے گہری سانس لی۔ گویا اُنہیں میری ساری حقیقت پتا چل چُکی تھی۔ ’’مَیں آپ کےپاس اپنے ایک ساتھی کو بطور امانت چھوڑ گیا تھا۔ اُمید ہے اب اس کی حالت اب بہتر ہوگی؟‘‘ ’’کون… بخت خان، وہ تو تمہاری گرفتاری کے اگلے روز ہی یہاں سے چلا گیا تھا۔ 

مَیں نے اُسے روکنے کی بہت کوشش کی کہ وہ میری پناہ میں ہے،اُسے ہرگز پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، مگر وہ بڑا وضع دار بندہ تھا۔ اُسے میرے وقار کا اپنی جان سے زیادہ خیال تھا۔ تمہارے لیے ایک خط دے گیا ہے وہ۔‘‘ کمال صاحب میز کی دراز کی طرف بڑھے، پھر انہیں اچانک ایک خیال آیا۔ ’’ارے ہاں، تمہارے جانے کے بعد ایک بزرگ بھی تمہاری تلاش میں یہاں آئے تھے۔ کیا بھلا سا نام بتایا تھا، ہاں یاد آیا… سلطان بابا۔‘‘ میرے ہاتھ سے پانی کا گلاس چُھوٹ گیا۔ (جاری ہے)

تازہ ترین