نہ تم بدلے، نہ دل بدلا، نہ دل کی آرزو بدلی! جہاں سیاست کے موسموں کا سمجھ میں آنا مشکل لگے، وہاں جذباتی یا پریشان ہونے کے بجائے بہتر ہے تھوڑی دیر کیلئے خوشگوار ماضی میں کھو جائیں یا گھر میں بچی کھچی کتاب سے ہمکلام ہونا بہتر ہے۔ اب بار بار جی کا اس بات پر کیا جلانا کہ نظریہ ضرورت اصلی نظریے سے کہیں زیادہ قوی ہے اور پُرکشش بھی، جسکے سامنے زبان خلق نقارہ خدا بھی نہیں رہتی۔ گویا حال دل کیلئے بہتر ہے کہ حال دل سنایا ہی نہ جائے۔ ویسے بھی جب زرداری سرکار نے ایکسٹینشن دی تھی تو اب بقول بلاول، اپنے پچاس ممبران سے کر بھی کیا سکتے ہیں۔ کچھ ماہ قبل نون لیگ اور پیپلز پارٹی نے مل کر بھی سینیٹ الیکشن میں کیا کر لیا تھا؟ فضل الرحمٰن نے اسلام آباد آزادی نامی دھرنا میں کیا نتائج حاصل کر لئے۔ اب بھی انکار کیسا؟ سب ایسے ہی ہے جیسے عمران خان ’’تبدیلی‘‘ برپا کرکے ’’شاداں و فرحاں‘‘ ہیں! اب کے موسم میں یہی بھلا کہ
ہم ہوئے تم ہوئے کہ میرؔ ہوئے
اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے
ایک دل جلے سابق نون لیگی وفاقی وزیر نے خوب سرگوشی کی کہ لوگ نہ سہی تاہم سب بیانیے دھڑن تختہ ہوئے سوائے شہباز شریف اور چوہدری نثار علی خان بیانیے کے۔ ہم نے پوچھا۔ ’’سب؟‘‘ وہ سمجھ گیا۔ اور کہنے لگا ہاں سب۔ یعنی تبدیلی والے کا بھی! میں کبھی سوچتا تھا کہ جہاں قبائلی نظام ہو یا برادری ازم، وہ عرب ممالک ہوں یا تھرڈ ورلڈ، وہاں غیر آلودہ جمہوریت کا پنپنا مشکل ہے۔ مگر پھر بدلنے لگا کہ نہیں، تبدیلی آ سکتی ہے۔ مگر اب مان گیا ہوں کہ تبدیلی خالہ جی دا ویہڑا نئیں! وزیراعظم سمیت مثال ہم فرانس اور برطانیہ کی دیتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ وہ کالونیاں نہیں، کالونیوں والے ہم ہیں، سو ہم انگریزی بولتے ہیں، چلو اسمبلی یا اسمبلی کے باہر کوئی اچھی انگریزی بول بھی لے تو کیا ہوا، دنیا گلوبل ویلیج بن چکی۔ اگر انگریزوں اور ملائیوں کے ملک میں جاکر سفارتی آداب بالائے طاق رکھتے ہوئے دیسی لوگوں پر تنقید ہو سکتی ہے تو دیسی اسمبلی میں انگریزی بولنے میں کیا حرج ہے؟ اس میں تو پارلیمانی آداب بالائے طاق رکھنے کی ضرورت نہیں۔ ہاں! پارلیمنٹ میں آپ کو بلاول وغیرہ یا اپوزیشن کی انگریزی بھی ’’کرپشن‘‘ لگتی ہے تو آپ کی مرضی۔ہم نہیں کہتے زمانہ کہتا ہے، سال کے آغاز پر عوام کیلئے دندان شکن مسئلہ تو مہنگائی تھا، انگریزی نہیں جس کا ذکرِ خیر کرکے مکرم وزیراعظم نے حیران کر دیا۔ انگریزی تو پھر سرکاری کاغذوں کی رگوں میں دوڑ رہی، کیا اس کی جگہ ’’سمجھ والی لینگوئج‘‘ محض جناب کے جنبش قلم کی محتاج نہیں؟
ہم بھی ایسے ہی دلخراش اور نہ سمجھ میں آنے والی بحث میں الجھ گئے، اب الجھنا بھی کیا اور وہ بھی کس کیلئے؟ ووٹ کو تو عزت مل گئی، طاقت کا سرچشمہ عوام تو ہو گئے سو ’’مبارک‘‘ ہو اہل وطن! ہم تو لندن والوں کو 2014ء سے کہتے چلے آ رہے تھے کہ بابا! ہم کم فہم سہی مگر بھانپ چکے تھے کہ جس دن بینظیر کا بابا تخت سے تختہ دار پر جھول گیا تھا، تب سے جمہوریت گرہن کا وقت ہوا چاہتا ہے۔
یہ بات ہے 28دسمبر 2019کی، راقم کی بیٹی کی شادی کی تقریب جامعہ پنجاب کے سبزہ زار پر تھی۔ جب وی سی جامعہ پنجاب، وی سی قائداعظم یونیورسٹی اور وی سی علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی بطور میزبان بارات کا استقبال کر رہے تھے، باوجود اس کے میں سینیٹر سراج الحق کی طرف لپکا اور ان سے دریافت کیا کہ کیا ہونے جا رہا ہے؟ لیاقت بلوچ، امیرالعظیم، فرید پراچہ اور قیصر شریف پاس کھڑے تھے، میری یہ بات سنتے ہی پاس کھڑے چوہدری جعفر اقبال، کل کے نون لیگی وزیر مملکت، نے تو آنکھیں دوسری جانب پھیر لیں، مگر میں آدھا جواب سمجھ گیا تاہم بائیں جانب کھڑے پیپلز پارٹی کے رہنما نوید چوہدری نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور آنکھوں ہی آنکھوں میں سب کچھ کہہ دیا لیکن سراج الحق کی لب کشائی کے وہ بھی منتظر رہے۔ پاس کھڑے پی ٹی آئی کے رہنما میجر (ر) ذوالفقار تارڑ نے خاموشی ہی کو زباں بنائے رکھا تاہم سراج الحق یہ کہہ کر آگے چل دیے کہ نکاح پڑھانے کے بعد ہوگا تبصرہ!
قارئین! جانے آپ کیا سوچیں کہ بیٹی کی شادی کی تقریب میں بھی رگ صحافت ہی کیوں بیدار تھی جبکہ ملک بھر سے وائس چانسلرز، پروفیسرز اور ماہر تعلیم کی ایک کہکشاں بھی تو تھی، بات کرنی ہی تھی تو وومن یونیورسٹی ملتان کی وی سی کی جامعہ میں جگہ کی کمی کی بھی ہو سکتی تھی، اسلام آباد کا نیا تجربہ نیشنل اسکل یونیورسٹی کی بات بھی وی سی ڈاکٹر مختار سے ہو سکتی تھی، یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وی سی ڈاکٹر جاوید اکرم، وی سی ایجوکیشن یونیورسٹی طلعت پاشا اور وی سی جامعہ جھنگ شاہد منیر جیسے لوگ چیلنجز کا سامنا کرنے میں ماہر ہیں۔ المختصر، سوچ اور محسوس کرنے کا عمل نہیں رکتا جگہ اور تقریب کوئی بھی ہو مگر روزویلٹ کی بات نہیں بھولتی ’’جمہوریت کی اصل محافظ تعلیم ہی ہے!‘‘ اب دائروں کے سفر کی ترامیم سے نکل کر قوم ایک مستقل شاہراہ پر گامزن ہو جائے کہ منزل ملے، ترامیم کچھ بھی ہوں، جمہوریت کو خدارا کچھ نہ ہو۔ ہاں! یاد آیا، وہ سراج الحق نے جو پیشگوئی کی، ویسے ہی قانون سازی کیلئے مان گئے سب، رہے سہے بھی مان جائیں گے۔ بہرحال پرسوں ترسوں جو سینیٹ میں آپ نے نئے سال میں غریب کا سوچنے کی جو بات کی اور قانون سازی پر ایک اسٹینڈ لیکر ایم ایم اے والا پرانا زخم بھی بھر دیا! سراج الحق آپ کا شکریہ!
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)