• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برصغیر میں 1861ء میں انگریز کے عہدِ حکومت میں تشکیل پانے والے محکمہ پولیس میں ہر نئی آنے والی حکومت نے اصلاحات کی نوید سنائی مگر گزشتہ 72برسوں سے یہ خواب تشنہ تعبیر ہے۔ کبھی پولیس کی تنخواہوں میں اضافے، کبھی یونیفارم کی تبدیلی اور کبھی انویسٹی گیشن اسکول کے ذریعے پولیس کے محکمے کو بہتر بنانے کی کوششیں کی گئیں مگر ابھی تک کسی بھی اقدام کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچ سکے۔ ہفتے کے روز وزیراعظم عمران خان نے وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار، آئی جی پنجاب اور دیگر اعلیٰ حکام کے ہمراہ میانوالی میں ماڈل پولیس اسٹیشن کا افتتاح کرتے ہوئے بالکل درست کہا کہ تھانہ، کچہری اور پٹواری کلچر نے ہمیں بہت نقصان پہنچایا ہے، کسی نے بھی انگریزوں کے قوانین کو ٹھیک کرنے کی ہمت نہیں کی، پولیس اچھا کام کرے گی تو ملک کی تقدیر بدل جائے گی۔ وزیراعظم نے اس عزم کا اظہار بھی کیا کہ پنجاب پولیس کو خیبر پختونخوا پولیس کی طرح غیر سیاسی بنانا چاہتے ہیں۔ آئی جی پنجاب نے وزیراعظم کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ پولیس اور تھانوں کے نظام میں بہتری کیلئے پنجاب میں 29 ماڈل پولیس اسٹیشن قائم کیے گئے ہیں جبکہ سپریم کورٹ کی ہدایت پر صوبے کے تمام اضلاع میں ایس پی کمپلینٹس کی تعیناتی عمل میں لائی گئی ہے اور پنجاب کے تمام 716 تھانوں میں فرنٹ ڈیسکس قائم کردیے گئے ہیں۔ ماڈل پولیس اسٹیشن یقیناً پولیس کے فرسودہ نظام میں ہوا کا ایک خوشگوار جھونکا ہے تاہم سب سے ضروری پولیس اور عوام میں بڑھتے فاصلوں کو کم کرنا ہے تاکہ شرفا کا پولیس کے سائے سے ہی دور بھاگنے کا جو چلن عام ہے اور جس کے سبب ہر سال لاکھوں مقدمات کا اندراج بھی نہیں ہو پاتا، اس کا تدارک ہو سکے۔ علاوہ ازیں ماڈل تھانوں کا دائرہ کار ملک بھر میں بڑھانے کی ضرورت ہے۔ پولیس کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کر کے ہی عوام میں پروفیشنل پولیس کا تشخص اجاگر کیا جا سکتا ہے۔

تازہ ترین