• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دنیا بھر میں امریکا کی جانب سے کی جانے والی من مانی کارروائیوں نے عالمی قوانین اور اقوامِ متّحدہ کا وجود سوالیہ نشان بنادیا ہے

ڈونلڈ ٹرمپ کو جو کرنا تھا وہ کرچکے۔شاید امریکی انتظامیہ کوبھی ایرانی جنرل، سلیمانی پر حملے اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی خطرناک صورت حال کا کچھ اندازہ تھا۔اسی لیے اس نے حملے کے کچھ ہی دیر بعد یہ بات واضح کردی تھی کہ یہ حملہ امریکی صدر کے حکم پر کیا گیا ۔ حالاں کہ بہ ظاہر اس وضاحت کی کوئی تُک سمجھ میں نہیں آتی،کیوں کہ کسی بھی ملک میں ایسی کسی بھی کارروائی کی اجازت اس ملک کا صدر یا وزیر اعظم ہی دیتا ہے۔صدر ٹرمپ کے ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ ٹرمپ کی بہت خطرناک اوراحمقانہ حرکت ہے۔ 

ایک بیان میں امریکی محکمہ دفاع نے تصدیق کرتے ہوئے کہا تھاکہ قاسم سلیمانی کو صدارتی حکم پر مطابق نشانہ بنایا گیا۔بیان میں کہاگیاتھاکہ عراق کے دارالحکومت بغداد کے ایئرپورٹ پرامریکا کی جانب سے راکٹس سے حملے کیے گئے جس کے نتیجے میں ایرانی جنرل قاسم سلیمانی سمیت 8 افراد ہلاک ہوگئے۔ اس حملے میں ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا، پاپولر موبلائزیشن فورس (پی ایم ایف) کے ڈپٹی کمانڈرابومہدی المہندس بھی ہلاک ہوگئے۔عراقی حکام کے مطابق بغداد ایئرپورٹ پرداغے گئے تین راکٹس کارگوہال کے قریب گرے،دو موٹرکاروں کوآگ بھی لگی۔عرب ٹی وی کے مطابق راکٹوں سے اہم مہمانوں کوایئرپورٹ لانے والی گاڑیاں تباہ ہوئیں۔

جنرل سلیمانی کی ہلاکت پر ایران کے وزیر خارجہ نے اپنے بیان میں امریکی اقدام کو عالمی دہشت گردی قرار دیا اور کہا کہ وہ اور ان کی قدس فورس خطے میںنام نہاد دولتِ اسلامیہ، النصرہ اور القائدہ سمیت دیگر تنظیموں سے لڑنے والی سب سے موثر قوّت تھی۔ادہرایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کا کہنا تھا کہ امریکا کی جانب سے حملے میں جنرل سلیمانی کی شہادت انتہائی خطرناک اوراحمقانہ حرکت ہے اور امریکا اپنی مہم جوئی کے تمام نتائج کی ذمے داری خود برداشت کرے گا۔

سیاسی مبصرین کے خیال میں جنرل سلیمانی کی موت پر ایران کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آنے کا امکان ہے جس سے خطے میں کشیدگی میں مزید اضافہ ہوگا ۔بعض حلقے قاسم سلیمانی کو ایران کی مقتدرہ میں آیت اللہ علی خامنہ ای کے بعد دوسرا طاقت ور ترین شخص سمجھتے تھے اوران کا ایرانی انتظامیہ میں کلیدی کردار تھا۔ 

ان کی قدس فورس صرف رہبرِ اعلی، آیت اللہ علی خامنہ ای کو جواب دہ ہے اور انہیں ملک میں ہیرو تصور کیا جاتا تھا۔یاد رہے کہ چند روز قبل مبینہ طورپر ایران نواز گروہوں کی جانب سے بغداد میں واقع امریکی سفارت خانے پر دھاوا بولا گیا تھا۔

جنرل سلیمانی 1998 سے پاسدارنِ انقلاب کی قدس فورس کے سربراہ تھے۔ یہ یونٹ بیرونِ ملک خفیہ آپریشنز کرتا تھا۔ اس سے قبل انہوں نے 1980 کی دہائی میں ایران اور عراق کے درمیان لڑی جانے والی جنگ میں نام کمایا۔جنرل سلیمانی اس حوالے سے بھی جانے جاتے ہیں کہ انہوں نے شام کے صدر بشار الاسد کی باغیوں کےخلاف کارروائیوں میں مدد کی اور کئی اہم شہروں اور قصبوں کو باغیوں سے چھڑانے میں کردار ادا کیا۔ایران نے ہمیشہ اس بات کی تردید کی کہ اس کی فوج شام اور عراق میں موجود ہے، لیکن ایران ان دونوں ملکوں میں ہلاک ہونے والے فوجیوں اور فوجی مشیروں کے عوامی جنازوں کا انعقاد گاہے بہ گاہے کرتا رہتا ہے ۔

تعاون سے محاذ آرائی تک

ایران اور امریکا نظریاتی اعتبار سے ایک دوسرے کے سخت حریف ہو سکتے ہیں،لیکن عراق میں دولت اسلامیہ کے خلاف محاذ نے دونوں ممالک میں ایک بالواسطہ اشتراک قائم کر دیا تھا۔اس راستےکی جانب جنرل سلیمانی نے پہلے قدم بڑھایا تھا۔2001میں جب امریکہ نے افغانستان میں طالبان کے خلاف کارروائی شروع کی تو ایران نے امریکا کو فوجی انٹیلی جینس فراہم کی تھی۔ اسی طرح 2007یں واشنگٹن اور تہران نے اپنے نمائندے بغداد بھیجے تاکہ وہاں کی سیکیورٹی کی صورت حال پر مذاکرات کریں۔اس وقت سابق عراقی وزیر اعظم نوری المالکی بڑھتے ہوئے فرقہ وارانہ تشدد سے نبرد آزماتھے۔

تاہم چند برسوں میں جنرل سلیمانی کا ایران کے خارجہ امور میں کردار مزید ابھر کر سامنے آیا تھا۔ وہ فون لائن کی دوسری طرف پائی جانے والی پوشیدہ شخصیت نہیں رہے تھے۔ گزشتہ ماہ ایران میں معروف فجر فلم فیسٹیول میں ایوارڈ حاصل کرنے والے ایک شخص نے اپنا ایوارڈ جنرل سلیمانی کے نام کیاتھا۔اس وقت یہ اعلان بھی کیا گیاتھا کہ جنرل سلیمانی ،ایران میں اس کے پرانے حریف، صدام حسین پر بننے والی ایک فلم کی پروڈکشن میں سپروائزر کے طور پر بھی خدمات انجام دے سکتے ہیں ۔

متضاد آرا

نئے سال کا تیسرا دن شروع ہوتے ہی پہلے چند گھنٹوں میں ایران کی قدس فورس کے کمانڈر قاسم سلیمانی کی ہلاکت پر مبنی خبروں نے دنیا بھر میں ہنگامہ برپا کر دیاتھا۔بلاشبہ یہ ایک بڑی خبرتھی جو مشرق وسطیٰ اور دنیا کے بہت سے ممالک میں توازن بدل سکتی ہے۔قاسم سلیمانی کا نام تقریباً دو دہائیوں سے نہ صرف ایران بلکہ دنیا کے بہت سے لوگوں کے لیے جانا پہچانا ہے۔ 

بہت سے مغربی خبر رساں ادارے عراق، شام، لبنان اور یمن میں فوجی کارروائیوں کے حوالے سے ان کی زندگی کی تفصیلات پر روشنی ڈال چکے ہیں۔ اس سارے عرصے میں ایران ان ممالک میں اپنی فوج کی موجودگی کی تردید کرتا رہا ہے۔دوسری جانب ایران میں بہت سے لوگ قاسم سلیمانی کو ایک باصلاحیت فوجی اور ایران کی سرحدوں کے محافظ کے طور پر دیکھتے تھے۔

تاہم ایران سے باہر کئی ملکوں میں بہت سے حلقے ان پر شہریوں کے قتل کے الزام عائد کرتے رہے،خاص طور پر حالیہ برسوں میں،جب شام میں بشار الاسد کی حکومت اور جنگ جوؤں کے درمیان شدید جنگ ہوئی تو جنرل سلیمانی نے اس دوران بشار الاسد کو اقتدار میں رکھنے کے لیے کلیدی کردار ادا کیا۔دوسری جانب داعش کے خلاف ان کے اقدامات اتنے موثر تھے کہ بہت سےناقدین نے قاسم سلیمانی کو مختلف علاقوں میں خود ساختہ دولت اسلامیہ کو شکست دینے کے معاملے میں ایک بااثر شخص کی حیثیت سے دیکھا۔بہ حیثیت فوجی ان کا شمار آیت اللہ خمینی کے مکتبہ فکر کے انتہائی وفادار انقلابی سپاہی اور طالب علم کے طور پر ہوتا تھا۔

ایران کے حالیہ اندرونی تنازعات کے دوران جنرل سلیمانی اور ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کے درمیان جو معاملات ہوئے، اس حوالے سے ملک میں ایک خفیہ یا متوازی حکومت کی اصطلاح بھی سننے میں آئی۔بشار الاسد کے دورہ تہران کے دوران جب ان کی ایران کے سپریم لیڈر اور جنرل سلیمانی سے ملاقات ہوئی تو جواد ظریف موجود نہیں تھے۔ تب سے کافی لوگ قاسم سلیمانی کو ملک کا خفیہ لیکن حقیقی صدر سمجھتے تھے۔

’ ’سخت انتقام‘‘ کا اشارہ

قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد اپنے پہلے اور فوری رد عمل میں ایرانی فوج نے بدلہ لینے کا اعلان کیا ۔ اس کے علاوہ ایران نے تین روزہ عوامی سوگ کا اعلان کرتے ہوئے’ ’سخت انتقام‘‘ کی طرف اشارہ کیا ہے۔اس معاملے میں تہران کا سخت ردعمل غیر متوقع نہیں اور ایسے میں جس طرح کا بھی ردعمل دکھایا گیا ، ایک بات طے ہے کہ اس سے خطے کا توازن بگڑے گا۔

ابتدائی امکانات میں سے ایک یہ ہو سکتا ہے کہ عراقی سرزمین پر موجود امریکی اڈوں میں سے کسی پر حملہ کیا جائے۔ اس سلسلے میں امریکی فوج نے، جس نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حکم پر اس واقعے کی منصوبہ بندی کی تھی، یقینی طور پر احتیاطی تدابیر پہلے ہی اختیار کر لی ہوں گی۔

امریکی محکمہ دفاع کے جاری کردہ تازہ اعداد و شمار کے مطابق پینٹاگون نے حالیہ دنوں میں عراق میں تعینات فوجیوں کی تعداد میں سیکڑوں نئے فوجیوں کا اضافہ کیا ہے۔ لہٰذا جب ایک طرف ایرانی حکومت ان حملوں سے چونک گئی ہے اور دوسری طرف مخالف فریق پوری طرح سے تیار ہے، تو کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ ایرانی فوج عراق میں امریکی ٹھکانوں پر ممکنہ حملے میں کس حد تک کام یاب ہو سکے گی۔امریکی کارروائی کا دوسرا ممکنہ جواب خطے میں اس کے اتحادیوں پر حملے کی صورت میں ہو سکتا ہے ۔ ایران کے انتقام اور عرب ریاستوں پر حملوں کے امکان کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

تاہم دوسری طرف کچھ تجزیہ کار ایرانی حملے کا امکان مسترد بھی کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں ایرانی حکومت امریکا سے بدلہ لینا چاہتی ہے اور عرب ممالک پر ممکنہ حملے بالواسطہ انتقام کہلائے جا سکتے ہیں جو تہران کا مقصد ہرگز نہیں۔بہت سے لوگ دلیل دے رہے ہیں کہ امریکااپنی سرزمین پر محدود حملوں کی صورت میں بھی شدید رد عمل دے گا اور یقیناً یہ ایسی غلطی ہو گی جو تہران ہرگز نہیں کرے گا۔

ان تمام امکانات میں سے زیادہ امکان اس بات کا ظاہر کیا جارہا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ ایران اسرائیل پر حملہ کر دے۔ اس سلسلے میں ہم اسرائیل اور ایران کی 40 سالہ پرانی دشمنی کو نہیں بھول سکتے۔دونوں ممالک کئی بار ایک دوسرے کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی خواہش کا اظہار کر چکے ہیں۔ خاص طور پر اب ایسے حالات میں جب ڈیبکافائل انٹیلی جنس ڈیٹا بیس کی طرف سے جاری کردہ تازہ خبروں میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اسرائیلی انٹیلی جینس نے اس ساری کارروائی میں معاونت کی تھی۔اگر ایران اسرائیلی سرزمین پر حملہ کرتا ہے تو یہ بات طے ہے کہ امریکا اپنے پرانے دوست اور اتحادی کا ساتھ ہرگز نہیں چھوڑے گا۔ وہ اسرائیل کے تحفظ کی خاطر کسی قسم کی فوجی مدد سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔

تاہم، یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ تہران نے ایران عراق جنگ کے بعد میزائل ٹیکنالوجی میںبہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے۔ بعض تجزیہ کاروں کے مطابق ایرانی فوج،بالخصوص پاسداران انقلاب نے میزائل والی طاقت میں سرمایہ کاری کرکے فضائی عسکری قوت میں اپنی کم زوری کی تلافی کی ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ اکثر ایران اپنے طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں سے دوسرے ملکوں کو دھمکیاں دیتا رہتا ہے۔

بلاشبہ اس وقت مشرق وسطیٰ ایک بار پھر آگ کے دہانے پرآگیا ہے۔ لیکن، اس دوران یہ بھی فراموش نہیں جا سکتا کہ ایران کے لیے روس کی حمایت اسی موڑ پر متوقع ہوگی۔ مستقبل قریب میں روس کی طرف سے اس معاملے پر ایران کی حمایت سیاسی توازن کو ایران کے حق میں بڑی حد تک بدل سکتا ہے۔اگر روس، ایران اور امریکاکے درمیان ثالثی کا کردار ادا نہیں کرنا چاہتا تو اسے یقینی طور پر ایران اور امریکاکے درمیان آگ مزید پھیلنے کا انتظار کرنا چاہیے۔

ایران نے زور دے کر کہا ہےکہ وہ اس حملےپر ردعمل دے گا۔دنیا کے سیاسی اورعسکری امور اور شورش زدہ خطّوںکے حالات پر نگاہ رکھنے والےماہرین کے مطابق ایران کے پاس کئی ایسے گروہ ہیں جو پورے خطے میں ایران کے’’ ہدف‘‘ کے حصول کے لیے موقع تلاش کریں گے۔تہران کو امریکی سیاست کے بارے میں اتنا اندازہ ہے کہ ٹرمپ کے لیے دوبارہ منتخب ہونے میں امریکا کی معیشت کا اہم کردار ہوگا۔چناں چہ اگر وہ اسے نقصان پہنچا نے کے قابل ہوئے تو ایسا ضرور کریں گے۔

مشرق ِوسطیٰ کا امن شدید خطرے میں

سیاسی مبصرین کافی عرصے سے یہ کہہ رہے ہیں کہ مشرق وسطیٰ میں ایک چھوٹی سی چنگاری جنگ کی بڑی آگ کا باعث بن سکتی ہے، لیکن یہ تو کسی نے بھی نہیں سوچا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ اس طرح سے سیدھا شہہ رگ پر وار کر دیں گے۔جنرل قاسم سلیمانی کا قتل بلا شبہ ایران کے دل میں تلوار پیوست کرنے کے مترادف ہے ۔کیا گزشتہ عراق میں ایک امریکی کنٹریکٹر کی ہلاکت اور بغداد میں امریکی سفارت خانے کےجلاؤ گھیراؤکو اتنے بڑے پیمانے کے حملے کے لیے مناسب جواز مانا جا سکتا ہے؟زیادہ تر سیاسی تجزیہ کار اس کا جواب نفی میں دے رہے ہیں۔دوسری جانب دنیا بھر میں امریکا کی جانب سے کی جانے والی من مانی کارروائیوں نے عالمی قوانین اور اقوامِ متّحدہ کا وجود سوالیہ نشان بنادیا ہے۔

امریکا کافی عرصے سے اس قسم کے قتل یا’ ’ٹارگیٹڈ کلنگ‘‘ میں ملوث رہا ہے۔دوسری جانب اسرائیل اس عمل کو’’اپنی مرضی کے وقت پر دشمن کا صفایا‘‘ قرار دیتا ہے۔ اسامہ بن لادن امریکا کا پہلا،ابو بکر بغدادی دوسرا اور جنرل سلیمانی تیسرا بڑا ہدف تھا۔ اسرائیل بھی غزہ میں حماس کی قیادت کو ایسے ہی حملوں میں نشانہ بناتا ہے۔

بہت سے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس برس امریکا میں صدارتی انتخابات ہوں گےاور یقینا ٹرمپ یہ انتخابات جیتنا چاہیں گے۔چناں چہ کہا جارہا ہے کہ جنرل سلیمانی کی بغداد میں ہلاکت سے ریپلکنز کو فائدہ پہنچے گا۔

ٹرمپ کی حکمت عملی

ڈونلڈ ٹرمپ نے کئی مرتبہ اپنا وعدہ دہرایا ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ سے امریکی فوجی دستے واپس بلا لیں گے۔ لیکن ان کے دور میں امریکا اور ایران کے تعلقات مزید کشیدہ ہوئے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے ایران پر مزید پابندیاں عائد کر دیں اوراس کے ساتھ کیا گیا جوہری معاہدہ بھی ختم کر دیا ہے جو ان کے مطابق ایک غلطی تھی۔

بعض تجزیہ کاروں کے بہ قول ڈونلڈ ٹرمپ حکمت عملی کے ماہر نہیں۔ وہ حالات اور اپنے ذہن کے مطابق فیصلے کرتے ہیں،چناں چہ انہوں نے اس حملے کی منظوری سے قبل اس کے اثرات کے بارے میں سوچا نہیںہوگا۔ دراصل ٹرمپ انتظامیہ بغداد میں امریکی سفارت خانے پر حملے کی شدت پر حیران تھی۔

 انہوں نے اسے ایک خطرہ سمجھا اور وہ سمجھتے تھے کہ اس کے پیچھے قاسم سلیمانی ہیں۔ چناں چہ ٹرمپ نے جب ہدف کے حصول کے لیے اچھا موقع دیکھا تو حملے کی منظوری دے دی۔انہیں ایک موقع مل گیا تھا کہ وہ ایک’ ’بُرے آدمی‘‘ کو مار سکیں جسے ان کے پیش رو براک اوباما نے نہیں مارا تھا۔ بس ٹرمپ کے لیے اتنا جاننا ہی کافی تھا۔

ایک رائے یہ ہے کہ اس قسم کے اقدامات کے ذریعے صدر ٹرمپ ایران پر دباؤ ڈال رہے ہیں تاکہ ایک ’’بہتر معاہدہ‘‘ ہوسکے جس میں ایران کے جوہری عزائم کے ساتھ اس کے میزائل پروگرام اور علاقائی رویے کو بھی شامل کیا جائے۔

لیکن بہت سے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے ایسے اقدامات کے نتیجے میں یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ اس سے فریقین مذاکرات کے قریب کیسے آئیں گے۔ صدر ٹرمپ کی ایران کے ساتھ تعلقات کی پالیسی میں بنیادی تضاد ہے اور انہیں اس کا علم نہیں۔ وہ زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنا چاہتے ہیں ۔ ان کا ایک ہدف یہ بھی ہے کہ امریکااس خطے سے باہر نکال سکے۔

خود بہت سے مغربی سیاسی مبصرین کے مطابق ایک طرف امریکی صدر نے مشرق وسطیٰ میں جنگوں پر مسلسل تنقید کی ہے تو دوسری طرف خود انہوں نےایسے اقدامات اٹھائے ہیں جو کم از کم تھوڑے دورانیہ کے لیے امریکا اور ایران کے درمیان موجودہ سیاسی اور اقتصادی کشیدگی کو جنگ میں بدلنے کے خطرات بڑھاتے ہیں۔قاسم سلیمانی کی ہلاکت اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ ان کی زیادہ سے زیادہ دباؤ پیدا کرنے کی مہم نےحیرت انگیز طور پرکام کیا ہے۔ٹرمپ ایک پے چیدہ پالیسی لے کر چل رہے ہیں۔

ان کا خیال ہے کہ ایران پر اتنا دباؤ ڈالا جائے کہ اس کے پاس مذاکرات کے علاوہ کوئی راستہ نہ بچےاور ایسی صورت میں امریکا،ایران سے ’’بہتر‘‘ معاہدہ کر نے کی پوزیشن میں آجائے۔لیکن وہ اس پر اتنا دباؤ نہیں ڈالنا چاہتا کہ ایران سمجھے کہ امریکا کوئی معاہدہ نہیں کرنا چاہتا یا ایران کے مفاد میں کسی ڈیل پر رضا مند نہیں ہوگا۔ چناں چہ ایک جانب وہ قاسم سلیمانی پر حملہ کراتے ہیں اور دوسری جانب بیان دیتے ہیں کہ ’’میں ایران کے ساتھ کوئی جنگ نہیں چاہتا‘‘۔یہ اس بات کا اشارہ ہے ہیں کہ وہ لامحدود کشیدگی کو بہتر نہیں سمجھتے ۔

 اعصاب کی جنگ

بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ تہران نے شاید یہ فیصلہ کیا ہے کہ اقتصادی کے بعد فوجی ذرایع سے حملہ کیا جائے۔ چناں چہ پہلے انہوں نے تیل کے ٹینکرز اور تنصیبات پر حملے کیے اور پھر کنٹریکٹرز کے خلاف اقدامات کیے۔امریکا کا سلیمانی پر حملہ ایسے ایرانی حملے ختم کرانے کے لیے ایک کوشش کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے ۔ تاکہ تہران کو بتایا جا سکے کہ یہ حکمت عملی آپ کے لیے کارآمد ثابت نہیں ہوگی۔

دوسری جانب ایران میں منہگائی میں اضافہ ہوا اور کرنسی کی قدر میں کمی ہوئی ہے۔ اقتصادی پابندیوں سے اسے بہت دھچکا لگا ہے چناں چہ اس کی حکمت عملی جارحانہ سمت میں جارہی ہے۔ایک جانب وہ دباوکی نفسیاتی کیفیت سے متاثر نہ ہونے کا عندیہ دینا چاہتے ہیں اور دوسری جانب وہ دباو برداشت کرنے کی صلاحیت کا مظاہرہ کرنا چاہتے ہیں۔

تاہم تجزیہ کاروں کے مطابق ایسے ممالک جو غم کی حالت میں ہوں یا جن پر حملہ کیا گیا ہو وہ زیادہ آسانی سے خطرہ مول لے سکتے ہیں۔تہران کی حکومت بڑے خطرے مول لیتی ہے،لہذا خدشہ ہے کہ آگے بھی وہ مزید خطرات کا سامنا کرنے کے لیے رضا مند ہوں گے ۔ ایسے میں اہم ترین سوال یہ ہے کہاعصاب کی جنگ میں پہلے کون ہار مانے گا، ٹرمپ انتظامیہ کی دباؤ ڈالو مہم یا اسے برداشت کرنے کی تہران کی صلاحیت؟

حالیہ دنوں میں شاید ایران، امریکا کی طرف سے کسی ردعمل کا انتظار کررہا تھا۔دوسری طرف ٹرمپ فوجی مداخلت پر یقین نہیں رکھتے، اس لیے وہ اس صورت حال سے بچنا چاہتے تھے۔ماضی میںبھی انہیں یہ راستہ دکھایا گیا تھا،لیکن انہوں نے اسے مسترد کردیا تھا،تاہم اس ہفتے انہوں نےجو فیصلہ کیا وہ شایدمواخذے کی تحریک منظور ہونے سے پیدا ہونے والی صورت حال اور انتخابی ماحول کے تناظر میں کیا گیا۔

تاہم انہوں نے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ وہ ایران کے ساتھ مذاکرات چاہتے ہیں اور بات چیت کے لیے کوئی شرط نہیں رکھ رہے۔دراصل ٹرمپ ایسے موڑ پر آچکے تھےجہاںانہیں جوابی کارروائی کرنی ہی تھی۔ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے قاسم سلیمانی کو مارنے کا فیصلہ 'جنگ روکنے کے لیے کیا۔بلا شبہ ایسا مذاق ان کے علاوہ اور کوئی نہیں کرسکتا۔

یوں محسوس ہوتا ہے کہ اب وہ اپنی حکمت عملی کے تحت ایران پر زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالیں گے۔ان کی انتظامیہ اس حوالے سے کافی مستقل مزاج رہی ہے۔اسی پالیسی کے تحت انہوں نے یہ جتلانے کی کوشش کی ہے کہ وہ ایران کو مذاکرات کی میز پر واپس لانا چاہتے ہیں اور یہ کام وہ محدود فوجی اقدامات کے ذریعے کرنا چاہتے ہیں۔

خامنہ ای کا خیال تھا کہ ڈونلڈٹرمپ امریکامیں رواں سال ہونے والے صدارتی انتخاب کے تناظر میں باقاعدہ جنگ چھیٹرنے کا خطرہ مول نہیں لیں گے۔ شاید ان کا اندازہ درست تھا۔ تاہم ایرانی سپریم لیڈر کو اندازہ نہیں تھا کہ صدر ٹرمپ محدود آپریشنز کے ذریعے بڑے اہداف کو نشانہ بنا کر قومی سلامتی کے لیے تمغے اپنے سینے پر سجا سکتے ہیں۔لہذا قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد پیدا ہونے والی بحرانی صورت حال میں انہوں نے ایران کی ثقافتی اہمیت کے حامل مقامات کو نشانہ بنانے کے اپنے بیان کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ایسا کرنا امریکی فوج کے لیے ایک جائز عمل ہو گا۔

تاہم صدر ٹرمپ کی اپنی انتظامیہ میں اس بیان کے خلاف آوازیں اٹھنا شروع ہو گئی ہیں۔ان کے مخالفین کا موقف ہے کہ کسی ملک کی ثقافتی اہمیت کے مقامات کو نشانہ بنانا بین الاقوامی قوانین کے تحت جنگی جرم ہو گا۔دوسری جانب صدر ٹرمپ نے عراق کو بھی دھمکی دی ہے کہ اگر بغدادنے جنرل سلیمانی کی ہلاکت کے تناظر میں اپنے ملک سے امریکی فوجیوں کو نکل جانے کا حکم دیا تو واشنگٹن اس کے خلاف سخت پابندیاں عاید کر دے گا۔

تازہ ترین