بلوچستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں بڑی حد تک کمی کے باوجود اکا دکا واقعات کا جاری رہنا حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ منگل کی شام اس نوعیت کا ایک واقعہ میکانگی روڈ پر میزان چوک کے قریب پُرہجوم علاقے میں ہوا جس میں دہشت گردوں نے ایف سی کی ایک گاڑی کو ریموٹ کنٹرول بم سے نشانہ بنایا۔ اس کے نتیجے میں 2افراد شہید اور 3ایف سی اہلکاروں سمیت 14زخمی ہو گئے۔ قریبی عمارتوں کے شیشے ٹوٹ گئے اور کئی گاڑیوں کو نقصان پہنچا، تحریک طالبان پاکستان کی شاخ حزب الاحرار نے دھماکے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں کہ بھارت علانیہ بلوچستان میں تخریب کاری اور علیحدگی کی تحریک کی سرپرستی کر رہا ہے۔ پھر مقامی طور پر علیحدگی پسند گروپوں کی اسے حمایت حاصل ہے۔ لاپتا افراد کا مسئلہ بھی ایسے عناصر کے ساتھ جڑا ہے، انسٹیٹیوٹ آف پیس اسٹڈیز کی حالیہ جائزہ رپورٹ کے مطابق گو 2019 میں پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں 30فیصد کمی آئی ہے مگر عسکریت پسند اب بھی سرگرم ہیں۔ خیبر پختونخوا کے بعد بلوچستان تخریب کاری کا سب سے زیادہ نشانہ بنا ہوا ہے۔ گزرے سال کے دوران یہاں دہشت گردی کے 576واقعات ہوئے جن میں80افراد کی جانیں گئیں۔ اگرچہ فوج کی مدد سے حکومت عسکریت پسندوں کو قومی دھارے میں لانے کی موثر کوششیں کر رہی ہے اور بلوچ نوجوانوں میں بھی شعور پیدا ہو گیا ہے کہ شدت پسندی کسی مسئلے کا حل نہیں مگر احساسِ محرومی نے پورے صوبے میں پنجے گاڑ رکھے ہیں جس کی وجہ سے منفی سرگرمیوں کو پوری طرح روکا نہیں جا سکا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بلوچ قیادت کو اعتماد میں لیکر صوبے کے حقوق و اختیارات کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کئے جائیں اور نیشنل ایکشن پلان کو موثر منصوبہ بندی کے تحت بروئے کار لایا جائے۔
اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998