• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مبارک سلامت، پارلیمنٹ نے اپنی بالادستی ثابت کر دی۔

اتنی اہم قانون سازی، اتنا اہم ترین آرمی ایکٹ، پاکستان تحریک انصاف تو ان کے ساتھ ایک صفحے پر کھڑی ہے، اس لئے اس کا ذکر کیا کریں۔ سب سے قابلِ تحسین پاکستان مسلم لیگ (ن) جس نے قومی سلامتی کے پیش نظر کوئی بھی شرط لگائے بغیر اس ترمیم کو تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا۔ 

آج تک ہم صدر جنرل پرویز مشرف کیلئے کہتے رہے کہ وہ ایک ہی فون پر ڈھیر ہو گئے۔ فون بھی امریکی جنرل کا۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے کچھ بحث تمحیص کی لیکن بالآخر اپنی سفارشات واپس لے لیں۔ وہ بھی ملک کے وسیع تر مفاد میں۔

بہرحال اب ہم ترمیم شدہ آرمی ایکٹ کے ساتھ زندگی گزاریں گے۔ اللہ نے چاہا تو خوب گزرے گی۔ وقت بدل گیا۔ عدالتیں بدل گئیں۔ پہلے یہی کام پی پی پی کے دَور میں جنرل اشفاق پرویز کیانی کیلئے ہوا تھا۔ کسی نے کوئی اعتراض نہیں کیا تھا۔ سب ایک صفحے پر تھے۔

 عدلیہ بھی۔ پارلیمان بھی۔ میڈیا بھی۔ اب چند برس میں کتنا کچھ بدل گیا۔ سابق چیف جسٹس جاتے جاتے ایک درخواست گزار کی درخواست کی سماعت کرتے ہوئے بہت سے قانونی نکات اٹھا گئے۔ 

اس نوٹیفکیشن کو متنازع بناگئے۔ اگر یہ توسیع اسی طرح ہو جاتی تو یہ صرف پاکستان تحریک انصاف کی توسیع کہلاتی۔ اب یہ پارلیمنٹ کی اکثریت کی توسیع ہو گئی ہے۔

اگر دیکھا جائے تو سپریم کورٹ نے اس توسیع کو قومی یکجہتی کا موضوع بنا دیا۔ اتنے ووٹوں کی اکثریت سے تو وزیراعظم بھی نہیں بنے اور نہ ہی صدر مملکت، جتنے ووٹ آرمی چیف کے حق میں آئے۔ اب پارلیمنٹ، حکومت اور مسلح افواج ایک ہی صف میں کھڑی ہیں۔ 

یہ قانون تو منظور ہوگیا کہ اب اسے کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکے گا۔ اگر ایسا ہوا تو اس سلسلے میں عدلیہ بھی ایک صفحے پر آ جائے گی۔ ہمیں نہیں بتایا گیا کہ مسلم لیگ (ن) کو آخر کس دلیل کے ساتھ غلیل والوں کے حق میں رام کیا گیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنی سفارشات کس قومی مفاد میں واپس لی ہیں۔ 

لیکن قوم کو یہ اطمینان ہے کہ عین اس وقت جب خطّے میں بہت زیادہ کشیدگی ہے، اس وقت ملک کی اکثریت ایک حساس معاملے پر اتفاق رائے کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ تبدیلی یہ بھی ہے کہ جماعت اسلامی اور فاٹا والے جو ہمیشہ وردی والوں کے ساتھ ہوتے تھے، اب کے الگ کھڑے ہیں۔

امریکہ کی طرف سے ایران کے ایک جنرل کا قتل کسی صورت قابل قبول اقدام نہیں ہے۔ امریکہ ایسے بھیانک اقدامات کرتا آرہا ہے۔ ہماری اپنی مملکت میں اس نے اسامہ بن لادن کو اسی طرح تلاش کیا اور ہلاک کیا۔ پاکستان امریکہ کی اس مداخلت کے خلاف احتجاج کیا کرتا۔ 

ہم ایک دوسرے کے خلاف کمیشن بناکر آپس میں محاذ آرائی کرتے رہے۔ سارے عالمی اصول پامال کئے جا رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کو ڈرون حملوں سے روندا جا رہا ہے۔ 

جدید ترین ٹیکنالوجی، نت نئے آلات سے انسانی زندگی کو آسانیاں فراہم کرنے کے بجائے ہلاکتوں کا بازار گرم کیا جا رہا ہے۔ نئی بستیاں بسانے کے بجائے قبرستان آباد کئے جا رہے ہیں۔

خطرات ہمارے در پر دستک دے رہے ہیں۔ تاریخ میں پہلا ایٹم بم گرانے والی سر پھری طاقت ہمارے پڑوس میں خیمہ زن ہے۔ اور ہمارے ایک ہمسائے کے سپہ سالار کو قتل کرنے کا اعتراف کر چکی ہے۔ کیا پاکستان خطّے میں اس سنگین کشیدگی میں وہ کردار ادا کر رہا ہے۔

جو ایک فرنٹ لائن ریاست، ایک ایٹمی ملک، ایک اہم جغرافیائی حیثیت رکھنے والی مملکت کا ہوتا ہے۔ کیا وہ ایسا کردار ادا کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ تاریخ پر نظر رکھنے والوں کا سوال یہ ہے کہ ایسے خطرات میں گھرے ملک کو جیسے سیاسی، عسکری قائدین، مدبرین، دانشوروں اور میڈیا کی ضرورت ہوتی ہے۔ 

وہ ہمارے پاس ہیں۔ ایسے سیاسی بحران اور سیکورٹی کی صورتحال میں جیسا وزیر دفاع، وزیر خارجہ ، وزیر داخلہ اور وزیر خزانہ ہونا چاہئے۔ وہ ہمیں میسر ہے۔ جیسے بیدار مغز اپوزیشن لیڈر ہونے چاہئیں۔ 

جیسی یونیورسٹیاں، دینی مدارس، تھنک ٹینک درکار ہوتے ہیں وہ ہیں یا نہیں۔ ہم اس وقت بھی فرقوں، علاقوں اور پارٹیوں سے وفاداریوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ ایک مملکت کی حیثیت سے نہیں سوچ رہے۔

آرمی ایکٹ میں ترمیم منظور کروانے کیلئے جس اتفاق رائے کا اظہار کیا گیا کاش عوام کے مفاد میں بھی کسی قانون سازی کیلئے اسی طرح کا اتفاق ہو۔ البتہ اپنی مراعات کیلئے ارکان اسمبلی ایسے ہی پُرخلوص اتفاق کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ تاریخ کہہ رہی ہے کہ شخصیات آتی جاتی ہیں۔

 ادارے رہتے ہیں۔ مملکتیں رہتی ہیں۔ ان کے دوام کیلئے قانون سازی ہونی چاہئے۔ افراد کیلئے نہیں۔ فوج میں تو تربیت اور مشقوں کا اہتمام ہے۔ کسی کو رعایت نہیں ملتی۔ ہر فوجی اپنی جگہ تربیت یافتہ اور مہارت رکھتا ہے۔ 

کسی شخصیت کو بھی ناگزیر نہیں کہا جا سکتا۔ اب جب ہم اپنے آرمی چیف کو سنگین صورتحال میں تین سال کی توسیع دے رہے ہیں۔ خطّے میں صورت حال بہت سنگین ہے۔ تو اس آرمی چیف کی بھی آزمائش کڑی ہو جاتی ہے اور قوم کو ان سے بہت زیادہ توقعات بھی وابستہ ہو رہی ہیں۔

اتفاق رائے اپنی جگہ ہے لیکن ان فیصلوں سے بہت لوگ خوش بھی نہیں ہیں۔ پی پی پی، مسلم لیگ (ن) کے بہت سے کارکن دم بخود ہیں۔ وہ اپنے منشور اپنے نظریات اور بیانیوں سے مطابقت نہیں پا رہے۔ ان لوگوں کو اور جہاں جہاں ایسی سوچ ہو۔ متعلقہ جماعتوں اور اداروں کا فرض ہے کہ وہ ان کے خدشات دور کریں۔

سب سے زیادہ آزمائش پارلیمنٹ نے اپنے لئے کھڑی کر لی ہے۔ اب عوام بجا طور پر یہ توقع کرتے ہیں کہ یہی بالادستی اور یہی تیز رفتاری کبھی ان کی زندگی آسان کرنے کیلئے بھی استعمال ہو۔ بہت سے بل پارلیمنٹ کی بھولی بسری فائلوں میں اسپیکر کی نگاہِ مشفقانہ کے منتظر ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین