لاہور (نمائندہ جنگ) لاہور ہائیکورٹ کے فل بنچ نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کی جانب سے دائر تین متفرق درخواستوں پر سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ مشرف کی سزا کیخلاف اپیل نہیں سن سکتے، دیکھیں گے مقدمہ درست شروع ہوا یا نہیں۔
فل بنچ نے کہا آپ وقت لے لیں اور تیاری کے ساتھ آئیں، یہ اہم معاملہ ہے آپ اسے آسان نہ لیں۔ پرویز مشرف کے وکیل اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے کہا نواز شریف نے ذاتی وجہ پر یہ کیس بنایا۔ عدالت نے بیرسٹر علی ظفر کو مخاطب کرکے کہا آپ آگے آئیں اور معاونت کریں۔
عدالت نے مشرف کی سزا پر عمل درآمد روکنے کیلئے درخواست قابل سماعت قرار دیدی، وکلاء کو تیاری کرکے آنے کی ہدایت کی اور خصوصی عدالت کی تشکیل کے حوالے سے ریکارڈ طلب کرلیا۔ لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی کی سربراہی میں جسٹس محمد امیر بھٹی اور جسٹس چوہدری مسعود جہانگیر پر مشتمل فل بنچ نے سماعت کی۔
پرویز مشرف کی جانب سے اپنے خلاف سنگین غداری کیس کے فیصلے، ٹرائل کورٹ کے قیام اور اس وقت کی حکومت کی جانب سے دائر کردہ شکایت سمیت مختلف اقدامات کو چیلنج کیا گیا۔
فاضل بنچ نے دوران سماعت پرویز مشرف کے وکلاء سے پوچھا کہ آپ کا کیس کیا ہے، جس پر بنچ کو بتایا گیا کہ پرویز مشرف کا کیس بالکل سیدھا سا ہے اور وہ یہ کہ خصوصی عدالت کی تشکیل غیرقانونی ہے۔ پرویز مشرف نے خصوصی عدالت کی تشکیل اور انکوائری شروع کرنے کے اقدام کو چیلنج کیا ہے، اگر کسی عمارت کی بنیاد ہی غلط ہوگی تو وہ گر جائے گی۔
اس پر عدالت نے درست معاونت نہ کرنے پر ناراضی کا اظہار کیا اور استفسار کیا کہ کیا آپ نے اپنا کیس پڑھا ہے، کیا آپ نے کیس کی تیاری کی ہے؟۔ فل بنچ نے کمرہ عدالت میں موجود بیرسٹر علی ظفر کو مخاطب کیا جس پر انہوں نے کہا کہ میں کیس سننے کے لئے یہاں آیا ہوں جس پر عدالت نے کہا کہ آپ آگے آجائیں اور فاضل بنچ نے ان سے معاونت طلب کی۔
فل بنچ کی جانب سے پرویز مشرف کے وکیل سے کہا گیا کہ آپ وقت لے لیں اور تیاری کے ساتھ آئیں، یہ اہم معاملہ ہے آپ اسے آسان نہ لیں۔ پرویز مشرف کے وکیل اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے ذاتی وجہ پر یہ کیس بنایا، سنگین غداری ایکٹ میں 2010 میں ترمیم کی گئی اور ایمرجنسی کو نافذ کرنے کے عمل کو بھی شامل کیا گیا۔
اس پر جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے کہا کہ عدالت نے سوال پوچھے تھے کہ آئین معطلی اور ایمرجنسی لگانا دو مختلف چیزیں ہیں؟، جسٹس محمد امیر بھٹی نے استفسار کیا کہ ایمرجنسی کیا صدر کو لگانی ہے یا جنرل کو؟ عدالتی استفسار پر جواب دیا گیا لفظ چیف ایگزیکٹو کا استعمال کیا گیا ہے، اسی دوران جسٹس مسعود جہانگیر نے پوچھا کہ کیا 12 اکتوبر اور 3 نومبر کے اقدامات دو مختلف چیزیں نہیں؟۔
جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے پوچھا کہ ٹرائل کورٹ نے کس سیکشن کے تحت پرویز مشرف پر فرد جرم لگائی، اس پر عدالت میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل اشتیاق اے خان نے فرد جرم پڑھ کر سنائی۔ اشتیاق اے خان نے کہا کہ فرد جرم میں لکھا گیا کہ ایمرجنسی لگا کر آئین توڑا گیا۔
بعد ازاں عدالت نے کچھ دیر کے لئے سماعت ملتوی کردی اور فاضل بنچ کے سربراہ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے کہا کہ پرویز مشرف کے وکلاء فیصلہ کرلیں کہ اس کیس پر کس نے دلائل دینے ہیں۔
وقفے کے بعد سماعت کا آغاز ہوا تو جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے کہا کہ شکایت درج ہونے کے بعد انکوائری ہوتی ہے، اس کیس میں انکوائری پہلے ہوئی اور شکایت بعد میں درج ہوئی۔
جسٹس امیر بھٹی نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے کابینہ کو انکوائری شروع کرنے کے لئے خط لکھا، کابینہ نے اس کی منظوری دی یا اس کا جواب دیا ہو تو وہ جواب کہاں ہے۔ جس پر وفاقی حکومت کے وکیل کا کہنا تھا کہ کابینہ کا کوئی جواب ریکارڈ پر نہیں۔
جسٹس مسعود جہانگیر نے وفاقی حکومت کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اس کیس میں نہ کابینہ کی منظوری ہے نا وفاقی حکومت نے انکوائری کا کہا ہے۔