اسلام آباد(نمائندہ جنگ،ایجنسیاں) حکومت اوردھرنا قائدین میں مذاکرات کامیاب ہوگئےجس کے بعدتین دن تک دھرنا دینے والے مظاہرین پرامن طور پر منتشر ہوگئے تاہم وزیر داخلہ چوہدری نثار نے لگے ہاتھو ں یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ کوئی تحریری معاہدہ نہیں ہوا۔حکومت کی جانب سے مذاکرات میں وفاقی وزراء اسحاق ڈار، خواجہ سعد رفیق اور پیر امین حسنات جبکہ مظاہرین کی طرف سے ثروت اعجاز قادری،علامہ حامد رضا اور افضل قادری شریک ہوئے، ثالثی کا کردار شاہ اویس نورانی اور رفیق پردیسی اور سابق ایم این اے نور الحق قادری نے ادا کیا۔اسلام آباد کے چیف کمشنر ذوا لفقار حیدراور وزیر داخلہ آفس کے ڈائریکٹر وقار چوہان بھی موجود رہے۔دھرنا قائدین کا دعویٰ تھا کہ حکومت اور احتجاجی مظاہرین کے درمیان 7 نکاتی معاہدہ طے پاگیا جبکہ حکومت نے اسے انڈرسٹیڈنگ قرار دیا جس کے مطابق توہین رسالت سےمتعلق تعزیرات پاکستان کے آرٹیکل 295 سی میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی جبکہ وہ مظاہرین جو توڑ پھوڑ میں ملوث نہیں انہیں بھی رہا کردیا جائے گا۔ توہین رسالت ﷺ میں سزا یافتہ افراد کو رعایت نہیں دی جائے گی علمائے کرام پر مقدمات کی واپسی کا جائزہ لیا جائے گا، شریعت اور نفاذنظام مصطفیٰ کیلئے علماء وزارت مذہبی امور کو تجاویز دیںگے جس پر سنجیدگی سے غور کیا جائے گا۔معاہدے کے ساتھ ہی راولپنڈی اسلام آباد میں موبائل فون سروس بھی بحال کردی گئی۔اس سے پہلے آپریشن کے خدشے کے پیش نظر پولیس اور سول آرمڈ فورسز کے دستوں کو پوری طرح الرٹ کرکے پوزیشنیں سنبھالنے کی ہدایات جاری کی گئی تھیں جس کی وجہ سے اسلام آباد میں صورتحال خاصی کشیدہ ہوگئی تھی۔ ڈی چوک کے اردگرد بڑی تعداد میں ایمبولینس گاڑیاں بھی پہنچائی گئی تھی اور ممکنہ آپریشن کے پیش نظر دارالحکومت کے تمام ہسپتالوں میں ہائی الرٹ کردیاگیا تھا۔وزیرداخلہ نے ایک روز قبل واضح طور پر یہ کہہ دیا تھا کہ بدھ کو ہر صورت ڈی چوک کا دھرنا ختم کیاجائے گا دھرنے کو ختم کرنے کے لئے تمام ضروری اقدامات بھی مکمل کر لئے گئے تھے تاہم بدھ کی صبح وزیراعظم محمدنواز شریف کی زیر صدارت اعلیٰ سطح اجلاس ہواجس میں وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف، وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اور بعد میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار ، خواجہ سعد رفیق ، احسن اقبال بھی شریک ہوئے یہ فیصلہ کیاگیا تھا کہ دھرنا شرکاء سے نمٹنے کے لئے بہترین راستہ مذاکرات ہوگا اور اسی کو ترجیح دی جائے جبکہ آپریشن کے آپشن کوآخری اور ناگزیرترجیح کے طور پراستعمال کیاجائے۔ وزیراعظم کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے خوش اسلوبی کے ساتھ معاملے کو حل کرنے کا راستہ اختیار کیاگیا۔ مذاکراتی ٹیم کے ارکان شاہ اویس نورانی اور حاجی رفیق پردیسی نے بعد میں دھرنا شرکا سے خطاب کرتے ہوئے فورسز کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے ضبط و تحمل کا مظاہرہ کیاانہوں نےمذاکرات کے خاص خا ص نکات سے بھی شرکا کو آگاہ کیا۔جس پر بعض شرکا نے نامنظور نا منظور کے نعرے بھی لگائے۔تاہم قیادت کے حکم پر ڈی چوک سے پیدل روانہ ہوگئے روانگی کے وقت دھرنا شرکاء نےنہ صرف آپس میں گلے لگ کر خوشی کا اظہار کیا بلکہ پولیس والوں کو بھی مبارکباد دیتے رہے بعض نوجوانوں نے بھنگڑہ بھی ڈالا جس پر انہیں سٹیج سے منع کیاگیا۔وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کہا ہے کہ ڈی چوک میں دھرنے والوں کیساتھ کوئی تحریری معاہدہ نہیں ہوا ان کے جو بھی لوگ قانون شکنی میں ملوث ہونگے انکے خلاف کارروائی کی جائیگی اور جو کسی جرم میں ملوث نہیں ہونگے انہیں تفتیش کے بعد چھوڑ دیا جائیگا۔حکومت نے ڈی چوک خالی کروانے کیلئے ایکشن کا فیصلہ کر لیا تھا لیکن کچھ قابل احترام لوگ درمیان میں آگئے،پنجاب حکومت نے چہلم کی اجازت بھی نیک نیتی سے دی تھی لیکن کچھ لوگوں نے اس سیاسی بنانے کی کوشش راولپنڈی اسلام آباد سے 1070مشتبہ افراد گرفتار کئے جا چکے ہیں فیصلہ کر لیا ہے کہ آئندہ ڈی چوک کو جلسہ گاہ نہیں بننے دینگے۔