• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

موزوں اور جرابوں پر مسح کرنے کا مسئلہ

تحریر: قاری عبدالرشید ۔اولڈھم


روزنامہ جنگ لندن میں شائع ہونے والے ایک تفصیلی مضمون نے مجھے آج اس عنوان پر کالم لکھنے پر مجبور کر دیا ۔کالم نگار نے لکھا کہ موزوں کے علاوہ عام جرابوں پر مسح کرناجائز ھے۔ان پرمسح کے لیے شرائط لگانا غیر معقول اور خواہ مخواہ میں تکلفات میں پڑنا اور بنی اسرئیلیوں کی طرح اپنے اوپر تنگی پیدا کرنا ہے۔ (مفہوم) اس تحریر کا جواب دینا بنتا ہے۔اس لیئے آئیں مسئلہ سمجھنے کے ساتھ دو اہلحدیث علماء کے فتاویٰ بھی اسی مسئلہ میں پڑھ کر فیصلہ کریں ۔اللّٰه تعالیٰ کا قرآن کریم (سورۃ المائدہ ) میں ارشاد ہے۔اے ایمان والو! جب تم نماز کے لئے اٹھو تو اپنے چہرے کو اور کہنیوں تک اپنے ہاتھوں کو دھولو، اپنے سر کا مسح کرلو، اور اپنے پاؤں ٹخنوں تک دھولو۔اس آیت کے مطابق وضو میں چار چیزیں ضروری ہیں، جن کے بغیر وضو ہوہی نہیں سکتا۔( 1) پورے چہرہ کا دھونا( 2 )دونوں ہاتھوں کوکہنیوں سمیت دھونا۔( 3)سر کا مسح کرنا۔( 4 )دونوں پیر ٹخنوں سمیت دھونا۔ اہل سنت والجماعت کے تمام مفسرین ومحدثین وفقہاء وعلماء کرام نے اس آیت ودیگر متواتر احادیث کی روشنی میں تحریر فرمایا ہے کہ وضو میں پیروں کا دھونا شرط (فرض) ہے، سر کے مسح کی طرح پیروں کا مسح کرنا کافی نہیں ہے۔ لیکن متواتر احادیث سے ثابت ہے کہ حضور اکرم صلی اللّٰه علیہ وسلم نے بعض مرتبہ پیر دھونے کے بجائے چمڑے کے موزوں پر مسح بھی کیا ہے۔ حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللّٰه علیہ فرماتے ہیں کہ قرآن کریم میں وضاحت کے ساتھ پیروں کے دھونے کا ذکر آیا ہے، میں اُس وقت تک موزوں پر مسح کا قائل نہیں ہوا جب تک نبی اکرم صلی اللّٰه علیہ وسلم کا عمل متواتر احادیث سے میرے پاس نہیں پہنچ گیا(معلوم ہوا امام ابو حنیفہ رحمہ اللّٰه کے پاس علم قرآن کے بعد علم حدیث بھی تھا تبھی تو چمڑے کے موزوں پر مسح کے قائل ہوئے) غرض یہ کہ قرآن کریم میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ وضو کے صحیح ہونے کے لئے دونوں پیروں کا دھونا شرط ہے لیکن اگر کوئی شخص وضو کرنے کے بعد (چمڑے کے )موزے پہن لے تو مقیم ایک دن اور ایک رات تک اور مسافر تین دن تین رات تک وضو میں پیروں کو دھونے کے بجائے (چمڑے کے )موزوں کے اوپری حصہ پر مسح کرسکتا ہے، جیسا کہ متواتر احادیث سے ثابت ہے۔ اگر کوئی شخص چمڑے کے بجائے سوت یا اون یا نائیلون کے موزے پہنے ہوئے ہے تو جمہور فقہاء وعلماء کے نزدیک ان پر مسح کرنا جائز نہیں ہے۔ بلکہ پیروں کا دھونا ہی ضروری ہے۔ اس مسئلہ کو سمجھنے سے قبل موزوں کے اقسام کوسمجھیں:اگر موزے صرف چمڑے کے ہوں تو اُنہیں خُفَّین کہا جاتا ہے۔اگر کپڑے کے موزے کے دونوں طرف یعنی اوپر نیچے چمڑا بھی لگا ہوا ہے تو اسے مُجَلّدین کہتے ہیں۔اگر موزے کے صرف نچلے حصہ میں چمڑا لگا ہوا ہے تو اسے مُنَعَّلین کہتے ہیں۔جَوْرَب: سوت یا اون یا نائیلون کے موزوں کو کہا جاتا ہے، اِن کو جُرَّاب بھی کہتے ہیں۔ موزے کی ابتدائی تینوں قسموں پر مسح کرنا جائز ہے، لیکن جمہور فقہاء وعلماء نے احادیث نبویہ کی روشنی میں تحریر کیا ہے کہ جراب یعنی سوت یا اون یا نائیلون کے موزوں پر مسح کرنا اسی وقت جائز ہوگا جب ان میں ثخین (یعنی موٹا ہونے) کی شرائط پائی جاتی ہو، یعنی وہ ایسے سخت اورموٹے کپڑوں کے بنے ہوں کہ اگر ان پر پانی ڈالا جائے تو پاؤں تک نہ پہنچے۔معلوم ہوا کہ سوت یا اون یا نائیلون کے موزوں (جیساکہ موجودہ زمانے میں عموماً پائے جاتے ہیں) پر مسح کرنا جائز نہیں ہے۔ہندوپاک کے علماء حتی کہ اہل حدیث علماء نے بھی یہی تحریر فرمایا ہے کہ عام نائیلون کے موزوں پر جیساکہ عموماً موجودہ زمانے میں موزے استعمال کئے جاتے ہیں(ان پر) مسح کرنا جائز نہیں ہے۔ مگر کچھ لوگوں(نے دیکھا دیکھی ) عام موزوں (جرابوں) پر مسح کرنا شروع کردیا ہے خواہ موزوں پرمسح کرنے کے مسائل سے واقف ہیں یا نہیں۔ہندو پاک کے علماء نے (جو مختلف فیہ مسائل میں مشہور تابعی وفقیہ حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی تحقیق کو اختیار کرتے ہیں) وضاحت کے ساتھ تحریر فرمایا ہے کہ اللّٰه تعالیٰ نے صراحت کے ساتھ قرآن کریم میں فرمادیا کہ وضو میں پیروں کا دھونا ضروری ہے۔ جہاں تک موزوں پر مسح کرنے کا تعلق ہے تو صرف انہیں موزوں پر مسح کرنے کی گنجائش ہوگی جن پر حضور اکرم صلی اللّٰه علیہ وسلم نے مسح کیا ہو یا مسح کرنے کی تعلیم دی ہو اور وہ احادیث صحیحہ سے ثابت ہوں۔کسی شک وشبہ والے قول یا خبر آحاد کو قرآن کریم کے واضح حکم کے مقابلہ میں قبول نہیں کیا جائے گا۔ جراب (سوت یا اون یا نائیلون کے موزوں ) پر مسح کرنے کی کوئی(قوی) دلیل کتب حدیث میں موجود نہیں ہے۔ مشہور اہل حدیث عالم مولانا محمد عبد الرحمن مبارک پوری ؒ نے ترمذی کی مشہور شرح (تحفۃ الاحوذی شرح جامع الترمذی) میں باب ما جاء فی المسح علی الجوربین والنعلین کے تحت اس موضوع پر جو تفصیلی بحث فرمائی ہے اس کا خلاصۂ کلام یہ ہے: جرابوں (جیساکہ آجکل موزے استعمال ہوتے ہیں) پر مسح کی کوئی دلیل نہیں ہے ، نہ تو قرآن کریم سے نہ سنت سے نہ اجماع سے اور نہ قیاس صحیح سے۔ (چمڑے کے) موزوں پر مسح کی بابت بہت سی احادیث منقول ہیں جن کے صحیح ہونے پر علماء کا اجماع ہے۔ متواتر احادیث کی وجہ سے ظاہر قرآن کو چھوڑکر ان پر بھی عمل کیاگیا۔ جب کہ جرابوں (جیساکہ آجکل موزے استعمال ہوتے ہیں) پر مسح کی بابت جو روایات منقول ہیں ان پر بہت زیادہ تنقیدیں ہوئی ہیں، پس اس قسم کی ضعیف روایات کی وجہ سے ظاہر قرآن کو کیونکر چھوڑا جاسکتا ہے۔ صحابۂ کرام کے موزوں کی طرح کی جرابوں پر آج کل کی باریک جرابوں کو قیاس کرنا قطعاً درست نہیں۔ ہاں اگر آج بھی موزوں کی طرح کی جرابوں کو کوئی استعمال کرتا ہے تو ان پر مسح کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں (تحفۃ الاحوذی) مشہور اہل حدیث عالم شیخ نذیر حسین دہلوی ؒ سے پوچھا گیا کہ اونی اور سوتی جرابوں پر مسح جائز ہے یا نہیں ہے؟ وہ جواب میں تحریر کرتے ہیں کہ مذکورہ جرابوں پر مسح جائز نہیں ہے کیونکہ اس کی کوئی صحیح دلیل قرآن وسنت میں نہیں ملتی اور مجوزین نے جن چیزوں سے استدلال کیا ہے اس میں خدشات ہیں، پھر خدشات کا ذکر فرماکر تحریر کیا کہ جرابوں پر مسح جائز ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ (فتاویٰ نذیریہ) نمازایمان کے بعد اسلام کا سب سے اہم وبنیادی رکن ہے، قرآن کریم کی سیکڑوں آیات میں نماز پڑھنے کی تاکید وارد ہوئی ہے اور پوری امت مسلمہ کا اجماع ہے کہ وضو کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔ قرآن کریم میں صراحت کے ساتھ وضو میں پیروں کے دھونے کا ذکر آیا ہے لہذا صرف اُن ہی شرائط کے ساتھ اور اُن ہی موزوں پر مسح کرنا جائز ہوگا جن کا ثبوت احادیث صحیحہ سے ملتا ہے اور چمڑے کے موزے بازار و مارکیٹ میں عام دستیاب بھی ھیں۔ کالم نگار موصوف نے اپنی تحریر میں علماء و فقہاء (اہلسنت و اہل حدیث) کی طرف سے عام جرابوں پر مسح کے لئے لگائی گئی شرائط کو غیر معقول بات کہا حالانکہ غیر معقول بات تو یہ ہے کہ جب اصل چیز جو متفقہ ہے موجود ہے جس پر مسح کرنے میں کسی کو کوئی کلام ہی نہیں اور بآسانی ملتی بھی ہے تو اس کو چھوڑ کر اختلافی چیز کو پیش کرنااور آسانیاں تلاش کرنا اور مسلمانوں کی نمازوں کو ضائع کرانا(کہ جب وضو کا ایک فرض ہی رہ جائے گا تو وضو نہ ہوا جب وضو نہیں ہوا تو پھر نماز نہیں ہوئی)یہ غیر معقول بات ہے۔اگر اہلحدیث علماء کی جانب سے عام جرابوں پر مسح کے لیے لگائی جانے والی شرائط بھی کسی کی عقل شریف میں نہ آتی ہوں تو اس عقل میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی سجھائی ہوئی باتیں کیسے آجانے کی امید کی جا سکتی ہے ؟ جراب یعنی آج کل کے عام موزوں پر مسح کرنے کا کوئی ثبوت احادیث صحیحہ میں نہیں ملتا ۔ لہٰذا آج کل کے عام موزوں (جرابوں ) پر مسح نہ کریں، ہاں اگر مسح کرنے کا ارادہ ہے تو چمڑے کے موزوں کا استعمال کریں، ورنہ پیروں کو دھوئیں تاکہ وضو کا فرض ادا اور حضور اکرم صلی اللّٰه علیہ وسلم کی آنکھوں کی ٹھنڈک یعنی نمازیں صحیح طریقہ پر ادا ہوں۔

تازہ ترین