ترقی یافتہ ممالک ہوں یا ترقی پذیر، جرائم مختلف صورتوں میں وہاں اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں۔ جن معاشروں میں جرائم کی روک تھام کے لئے قائم اداروں کی جانب سے قانون کی پاسداری کو یقینی بنایا گیا ہے وہاں بھی جرائم کا سو فیصد تک خاتمہ تو نہیں ہوا تاہم وہاں جرائم کی شرح میں نمایاں کمی ضرور واقع ہوئی ہے۔
سندھ پولیس کی جانب سے بھی ڈاکوئوں و جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کارروائیاں تو کی جارہی ہیں مگر مختلف عوامل کے سبب سال گزشتہ میں پولیس کی کارکردگی ماضی کے مقابلے میں بہتر ہونے کے بجائے بدتری کا شکار دکھائی دیتی ہے۔ پولیس کی ڈاکوئوں و جرائم پیشہ عناصر پر گرفت کمزور ہونے کے باعث اغوا برائے تاوان سمیت ڈکیتی، چوری و اسٹریٹ کرائمز کی وارداتوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ نیشنل ہائی وے اور لنک روڈ پر بھی لوٹ مار اور رہزنی کی وارداتیں بڑھ رہی ہیں جو کہ سندھ پولیس کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔
2014-15 سے قبل سندھ بھر میں جرائم کی وارداتوں بالخصوص اغوا برائے تاوان کی شرح بہت زیادہ تھی، تاہم پولیس کی جانب سے موثر حکمت عملی اپنانے کے باعث ان وارداتوں میں کمی واقع ہوئی اور بڑی حد تک ان پر قابو پالیا گیا ۔ اب ایک بار پھر اغواکار سرگرم ہوگئے ہیں اور اغوا برائے تاوان کی وراداتوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔ سندھ کے مختلف اضلاع میں اس وقت بھی متعدد افراد ڈاکوؤں کے چنگل میں قید ہیں جبکہ اسٹریٹ کرائمز میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔
سندھ پولیس کی کارکردگی متاثر ہونے کے مختلف اسباب میں سے ایک سبب صوبائی حکومت اور پولیس حکام کے درمیان بعض معاملات پراختلافات ہیں۔ان وجوہات سے محکمہ پولیس کو سندھ حکومت کی جانب سے ملنے والے فنڈزکے حصول میں بھی مشکلات کا سامنا ہے، جس سے اس کی کارکردگی متاثر ہورہی ہے۔اس صورت حال کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے اور سندھ کے تمام شہری اور دیہی علاقوں میں امن و امان کی صورت حال ابتر ہوتی جارہی ہے۔ کراچی سمیت پورے صوبے میں اسٹریٹ کرائمز، لوٹ مار، ڈکیتی اور اغوا برائے تاوان کی ہوشربا حد تک بڑھتی ہوئی وارداتوں نے شہریوں کا جینا دوبھر کردیا ہے ۔
ڈکیت، لٹیرے ، اسٹریٹ کریمنلز اور جرائم پیشہ عناصرآتشیں ہتھیاروں سے لیس ہوکر سڑکوںپر آزادانہ طور پر دندناتے پھرتے ہیں۔کراچی کی ہر شاہراہ، لنک روڈ، ذیلی سڑکیں، گلیاں، گھر غیر محفوظ ہیں۔ ڈکیت اور لٹیروں نے خودساختہ قوانین وضع کیے ہوئے ہیں جن کے تحت لوٹ مار اور ڈکیتی مزاحمت پر متاثرہ شخص کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ قتل اور ڈکیتی کے مجرموں کا پولیس سراغ لگانے میں ناکام رہتی ہے جس کی وجہ سے وہ قانون کی گرفت سے آزاد رہ کر مزید وارداتیں کرتے ہیں۔
اندرون سندھ صورت حال اور زیادہ مخدوش ہے۔ سال گزشتہ جرائم کی شرح میں اضافے کا سال رہا جب کہ رواںبرس بھی صورت حال جوں کی توں نظر آرہی ہے اورعوام بدستور خوف و ہراس کا شکار ہیں۔ کچے کے جنگلات میں موجود ڈاکوئوں کے پاس پولیس سے زیادہ جدید اسلحہ موجود ہے، جب کہ پولیس درائع کے مطابق ان کے پاس راکٹ لانچرز اور اینٹی ایئر کرافٹ گنیں تک موجود ہیں۔ ڈاکوئوں کے حوالے سے سکھر ریجن سندھ کا سب سے خطرناک ریجن ہے، جس میں شاہ بیلو کا کچے کا علاقہ بھی شامل ہے۔ ضلع شکارپور کے کچے کے جنگلات میں ڈاکوئوں اور پولیس میں متعدد مقابلوں کے دوران پولیس کو بھاری جانی نقصان کابھی سامنا کرنا پڑا ہے۔
چند ماہ پیشترپولیس آپریشن کے دوران، ایک ڈی ایس پی سمیت 5پولیس افسر و اہلکار جام شہادت نوش کرچکے ہیں۔ ماضی میںآئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نےصوبائی حکومت کی جانب سے حائل کی جانے والی ’’رکاوٹوں‘‘ کے باوجود امن و امان کی صورتحال کو قابو میں رکھا۔ پولیس اور عوام میں ہم آہنگی کو فروغ دیا،پولیس کے مورال کو بلند کیا اور اسے جدید خطوط پر استوار کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق سابق آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ روزانہ کی بنیاد پر ضلعی پولیس افسران سے رابطے میں رہتے تھے۔
انہوں نے واٹس ایپ گروپ بھی بنایا تھا اور کسی بھی واقعہ کے کے حوالے سے فوری طور پر ڈسٹرکٹ پولیس افسر سے معلومات حاصل کرتے تھے ۔انہوں نے ڈاکوئوں کے حوالے سے خطرناک سمجھے جانے والے علاقوں میں ایسے پولیس افسران کو تعینات کیا، جنہوں نے کچے کے علاقوں میں ڈاکوئوں کے خلاف کامیاب کارروائیاں کیں۔خاص طور پرایس ایس پی تنویر حسین تنیو کی جانب سے جو کارروائیاں کی گئیں ان میں متعدد ایسے ڈاکو بھی مارے گئے، جن پر حکومت سندھ کی جانب سے بھاری انعام رقم کھا گیا تھا ۔ ان کی کوششوں سے بڑی حد تک سندھ سے ڈاکوئوں اور اغوا برائے تاوان کی وارداتوں کا خاتمہ ہوا۔
سندھ میں سکھر ریجن کو ڈاکوئوں کے حوالے سے خطرناک تصور کیا جاتا رہا ہے، تنویر حسین تنیو نے سکھر میں بطور ایس ایس پی تعیناتی کے دوران ڈاکوئوں کا قلع قمع کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا، ان کی جانب سے شکارپور میں پولیس آپریشن کے دوران بدنام زمانہ ڈاکو نظرو ناریجو کو بھی مارا گیا، جس کی زندہ یا مردہ گرفتاری پر حکومت سندھ کی جانب سےڈھائی کروڑ روپے کا انعام بھی مقرر کیا گیا تھا۔ موجودہ آئی جی سندھ کے احکامات پر کچے کے مختلف علاقوں میں پولیس کی جانب سے آپریشن تو شروع کئے گئے ہیں مگر ماضی کے مقابلے میں ان آپریشنز میں پولیس کو کامیابی کی بجائےاپنے افسران و جوانوں کی شہادت کی صورت میںبھاری نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔
پولیس کی ڈاکوئوں و جرائم پیشہ عناصر پر گرفت کمزور ہونے کے باعث جہاں ایک جانب اغوا برائے تاوان جیسی سنگین وارداتوں نے دوبارہ سر اٹھانا شروع کیا ہے تو وہیں قومی شاہراہ، ہائی ویز، لنک روڈز پر رہزنی اور لوٹ مار کی وارداتیں سامنے آئی ہیں۔ ان وارداتوں کا پولیس کی جانب سے بڑی حد تک خاتمہ کردیا گیا تھا اور رات کے اوقات میں بھی سفر انتہائی محفوظ سمجھا جاتا تھا مگر اب صورتحال دوبارہ بگڑنے لگی ہے۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ سندھ کے مختلف اضلاع بالخصوص کچے کے علاقوں میں موجود پولیس اسٹیشنوں کی عمارتیں مخدوش ہوچکی ہیں اور زبوں حالی کا شکار ہیں۔
ایک جانب پولیس کی کارکردگی صفرہے تو دوسری جانب شہباز رینجرز سندھ، ڈاکوئوں و جرائم پیشہ عناصر کے خلاف بھی کارروائیوں میں کامیابی سمیٹنے میں مصروف نظر آرہی ہے،جس کا واضح ثبوت 2ماہ قبل شہباز رینجرز سکھر کے سیکٹر کمانڈر کرنل محمد ساجد کے سامنے 150سے زائد جرائم پیشہ افراد کا ہتھیار ڈال کر خود کو قانون کے حوالے کرنا ہے۔
اس سے قبل بھی لاڑکانہ ڈویژن کے مختلف اضلاع میں ڈاکو، جرائم پیشہ عناصر اور کالعدم تنظیموں سے تعلق رکھنے والے جرائم پیشہ عناصر رینجرز کے سامنے ہتھیار ڈال چکے ہیں۔ رینجرز کی جانب سے تو کراچی سمیت سندھ بھر میں امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے مثالی کردار نظر آتا ہے۔پولیس حکام اور سندھ حکومت کی عدم توجہی کےباعث کراچی کے علاوہ سندھ کے دیگر اضلاع میں امن و امان کی بگڑتی صورتحال، ڈاکوئوں و جرائم پیشہ عناصر کے سر اٹھانے، اغوا برائے تاوان سمیت اسٹریٹ کرائم کی بڑھتی ہوئی وارداتوں، ڈاکوئوں کے خلاف آپریشن میں پولیس افسران و جوانوں کی شہادت کے واقعات پولیس کی خراب کارکردگی کی بین مثال ہیں۔
شہری و عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ ماضی میں اے ڈی خواجہ نے اپنے دور میں امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانے، پولیس کو جدید خطوط پر استوار کرنے، تھانہ کلچر کی تبدیلی کے لئے جو اقدامات کئے تھے، صوبائی حکومت اور محکمہ پولیس کے درمیان ہم آہنگی کے فقدان کے باعث وہ زائل ہوچکے ہیں۔ ڈاکوئوں و جرائم پیشہ عناصر کے سر اٹھانے، اغوا برائے تاوان، چوری، ڈکیتی اور نیشنل ہائی وے سمیت لنک روڈز پر رہزنی کی وارداتوں سمیت شہروں میں اسٹریٹ کرائم کے واقعات بڑھنے سے لوگوں میں عدم تحفظ کا احساس پیدا ہورہا ہے۔
پولیس کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لئے ضروری ہے کہ آئی جی سندھ سید کلیم امام کی جانب سےکراچی سمیت سندھ کے تمام اضلاع میں پولیس کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لئے افسران کو تعینات کیا جائے جو جرائم کی بیخ کنی کے حوالے سے خاصا تجربہ رکھتے ہیں انہیں ان علاقوں میں تعینات کیا جائے جہاں جرائم کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے۔ امن و امان کی فضا کو بحال رکھنے، جرائم پیشہ عناصر کی سرکوبی کے لئے اچھی شہرت رکھنے والے پولیس افسران کی خدمات حاصل کی جائیں تاکہ پولیس کی جرائم پیشہ عناصر پر کمزور پڑتی گرفت کو مضبوط کرکے ڈاکوئوں و جرائم پیشہ عناصر کا قلع قمع کیا جاسکے۔