ماضی میں پولیس اور سی آئی ڈی کے قصے اخبارات میں آتے رہے جہاں شہریوں کو جعلی مقدمات سے ڈرا کر بھاری رقوم وصول کی جاتی اور شہری خوف کی وجہ سے اپنی شکایات بھی کہیں درج نہیں کراپاتے۔ موجودہ دور میں سوشل میڈیا کا فروغ ہوا توسائبر کرائم کی وارداتیں بڑھیں۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے سائبر کرائم بنایا کر انون ساز ادارے سے اس کی منظوری کرائی گئی لیکن وہ عناصر جنہوں نے شہریوں کو ڈرا کر رقم وصول کرنی ہے انہوں نے اپنا طریقہ واردات تبدیل نہیں کیا اور جعلی سائبر کرائم سرکل کے ذریعے بھی عام شہریوں کو ڈرا کر بھتہ وصول کرنے میں مصروف ہیں ۔
ماضی میں بھی سی آئی ڈی اور پولیس حکام ہی ایسی وارداتوں میں ملوث ملزمان کو گرفت میں لانے کے بجائے بچانے میں اپنی توانائی خرچ کرتے تھے اور موجود دور میں بھی طریقہ کار وہی ہے جس سے ملزمان تاحال محفوظ ہیں ۔پرائیویٹ افراد سے سرکاری امور انجام دلانے میںسرکاری دفاتر میں ان ہی پرائیویٹ افراد کو کرپشن اور بدعنوانیوں کے لئے فرنٹ مین کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور اہم سرکاری ڈیٹا بھی انہی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔
ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل کا ایک ماہ قبل سولجر بازار میں جعلی سیل پکڑا گیا تھا تاہم اس اہم مقدمے میں نہ تو کسی ملزم کی گرفتاری کے لئے کوششیں کی گئیںنہ اس پر تحقیقات ہوئی کہ کتنے عرصے سے یہ جعلی سیل مذموم سرگرمیوں میں ملوث تھا جب کہ تمام ملزمان کی تصاویر اور نام سائبر کرائم حکام اور متعلقہ پولیس تھانے کو بھی معلوم ہیں ۔ اس جعلی سیل کے حوالے سے تفتیش میں اہم سوالات حل طلب ہیں جن کے لئے سائبر کرائم حکام کو پولیس سے تعاون کرنا تھا لیکن سائبر کرائم حکام ہی اس عمل میں رکاوٹ بنے ہیں جس سے معاملہ اوربھی گمبھیر ہوگیا ہے۔
اگر کسی شہری کو سوشل میڈیا پر کسی شخص سے شکایت ہو یا آن لائن کسی سے فراڈ کیا جائے تو متاثرہ شہری کی جانب سے ایف آئی اے سائبر کرائم کی ویب سائٹ پر شکایت ارسال کی جاتی ہے جو ایف آئی اے سائبر کرائم کے اسلام آباد ہیڈکواٹرمیں موصول ہوتی ہے اور وہاں سے جس صوبے یا شہر میں متاثرہ شخص ہوتا ہے وہاں سائبر کرائم کے زونل دفتر کو شکایت منتقل کی جاتی ہے۔
اس زونل دفتر میں موجود ڈائریکٹر یا ڈپٹی ڈائریکٹر افسر اپنے ماتحت انسپکٹر یا سب انسپکٹر کو منتقل کردیتا ہے جس سے واضح ہے کہ کوئی بھی شکایت جو سائبر کرائم کے سسٹم میں آتی ہے وہ افسران تک ہی محدود رہتی ہے۔ ایسی شکایات کا جعلی سائبر کرائم سیل میں منتقل ہونے سے ایک سوال یہ آتا ہے کہ یا تو ان افسران میں سے کسی افسر نے جعلی سیل میں یہ شکایات منتقل کیں یا جعلی سائبر کرائم سرکل میں موجود افراد نے سائبر کرائم کا سسٹم ہیک کر رکھا تھا ۔
اس کارروائی کے دوران جعلی سیل سے برآمد ہونے والاتمام الیکٹرنک سامان بشمول موبائل فونز اور ڈی وی آر کو ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل نے اپنی تحویل میں لیا جب کہ ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل نے نہ ہی اس حوالے سے مقدمہ درج کیا اور نہ ہی اس پر کوئی انکوائری شروع کی جب کہ اس کارروائی میں پولیس کے تفتیشی افسر کے پاس کوئی بھی ایسی تکنیکی چیز موجود نہیں جس کے ذریعے اس کی فارنسک کی جاسکے اور اصل ملزمان کا معلوم ہو سکے کہ انہیں کہاں سے یہ ہدایات موصول ہورہی تھیں جب کہ سندھ پولیس کے پاس فارنسک لیب موجود ہے لیکن تمام الیکٹرنک آلات کو قبضے میں لے کر سائبر کرائم حکام نے اس کیس کے مستقبل پر بھی سوالیہ نشان لگا دیا ہے جو تفتیشی افسر کو عدالت میں سب سے بڑی رکاوٹ بنے گا جب کہ اس اقدام سے ایڈیشنل آئی جی کراچی کی ہدایت پر بننے والی تفتیشی ٹیم کے ہاتھ میں بھی کچھ نہیں ہے جس پر تحقیقات کی جاسکے ۔
پولیس کو ایف آئی اے سائبر کرائم کی جانب سے اپنے زونل دفتر کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی نہیں دی گئی جس سے ان ملزمان کے حوالے سے یہ بھی معلوم کرلیا جائے کہ آیا کہ وہ افراد کہیں اسی دفتر میں تفتیشی افسران کے پاس آتے ہوں اور ان سے براہ راست سی ڈی یایوایس بی میں وہ تمام شکایات کا ڈیٹا لے کر جاتے ہوں۔
ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل میں اس وقت عا قب اور علی نامی دو افرادکو شکایتوں کا ریکارڈ محفوظ کرنے کا اختیار ہے اور ان دونوں افراد کا تعلق ایف آئی اے یا سائبر کرائم سے نہیں ہے اور دونوں پرائیوٹ افراد ہیں۔یاد رہے کہ پیکا آرڈیننس 2016کے رول نمبر 9میں واضح طور پر لکھا ہے کہ انکوائری میں متاثرہ شخص یا خاتون سے متعلق حاصل ہونے والے حساس مواد کو تفتیشی افسر احتیاط سے استعمال کرے گا اور یقینی بنائے گا کہ اس کا غلط استعمال نہ ہو جبکہ قانون اس لئے بنایا گیا تھا کہ ایسے مواد کے غلط استعمال کو روکا جاسکے اور ساتھ ہی ایس او پی میں لکھا گیا کہ ایسا مواد کمپیوٹراور یو ایس بی میں بھی نہ رکھا جائے بلکہ سی ڈیز میں محفوظ کرکے سرکاری تحویل میں رکھا جائے اور بوقت ضرورت سی ڈی کمپیوٹر میں ڈال کر استعمال کیا جائے اور واپس ریکارڈ میں رکھ دیا جائے تاہم حقیقت میں اس کے برعکس کام کیا جا رہا ہے اور یہ حساس ڈیٹا پرائیویٹ ملازمین اور غیر معلقہ افراد کی دسترس میں دے دیا گیا ہے۔واضح رہے کہ گزشتہ ماہ 6دسمبر کو ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل کے ایس ایچ او انسپکٹر نعیم اعوان کو مسیح الدین نامی شخص نے فون پر اطلاع دی کہ مطاہر نامی شخص کی کوئی انکوائری آپ کے پاس جاری ہے جس پر سائبر کرائم کے ایس ایچ او نے تصدیق کی کہ مطاہر نامی شخص کی انکوائری نمبر453/19جاری ہے لیکن ابھی اس انکوائری میں کسی کو شامل تفتیش نہیں کیا گیا ہے۔
جس کے بعد ایس ایچ او سائبر کرائم کے پاس دو افراد حزیفہ اور حمزہ آئے جنہوں نے بتایا کہ ایس ایچ او نعیم اعوان کے نام پر ہمیں مطاہر نامی شخص کی انکوائری میں طلب کیا گیااور ہم پر تشدد کے بعد چار لاکھ روپے رشوت لے کرچھوڑا گیا جس پر انسپکٹر نعیم نے دونوںمتاثرہ افراد کو اپنے ہمراہ لیا اورنبی بخش تھانے کی حدود میں واقع لال بلڈنگ معیدی منزل نزد گلزر حبیب مسجد ڈولی کھاتہ پر پہنچے جہاں متاثرہ افراد کی نشاندہی پر دو افراد جبران ولد اورنگزیب (جعلی انسپکٹر نعیم ) اور دانش جینیا ولد اقبال جینیا کو پکڑا لیکن وہاں موجود درجنوں افراد نے ایف آئی اے سائبر کرائم حکام کو تشدد کا نشانہ بنایا اور ملزمان کو فرار کرانے میں کا میاب ہوگئے ۔
اس کے بعد اس مقدمے میں کوئی پیش رفت نہ ہوسکی جب کہ اس واقعہ سے چند روز قبل تین دسمبر کو بھی ایک خاتون نے سی پی ایل سی کو شکایت کی کہ گارڈن ایسٹ کے علاقے سے ان کی دوبیٹیوں کو سرکاری گاڑی نمبر ABL-638اور SPC-128میں سائبر کرائم کے حکام لے گئے ہیں تاہم اس حوالے سے بھی تحقیقات سرد خانے کی نذر ہوگئی کہ آیا اس واقعہ میں بھی کیا جعلی سائبر کرائم سیل چلانے والے عناصر موجود تھے ۔
ذرائع کے مطابق ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل میں ڈیپوٹیشن پر آئے ہوئے پولیس اہلکاروں کے خلاف ماضی میں رشوت وصولی اور شکایات کنندگان کو ہراساں کرنے کے الزامات پر ایک انسپکٹر نوشاد کے خلاف باقاعدہ انکوائری بھی شروع کی گئی تھی اور مذکورہ افسر کو زونل آفس منتقل کردیا گیا تھا تاہم اعلیٰ افسران کے آشیر باد سے انسپکٹر کے خلاف انکوائری کو بند کیا گیا اور اس انسپکٹر کا خلاف ضابطہ ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل میں کردیا گیا جب کہ ایف آئی اے میں ڈیپوٹیشن پرآنے والے پولیس افسرا ن کو گزشتہ ہفتے میں ایف آئی اے پر مالی بوجھ قرار دے کر واپس پولیس کے محکمے میں بھیج دیا گیا تھا لیکن انسپکٹر نوشاد کی پولیس کے محکمے میں واپسی کو بھی روکا گیا ہے۔