• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پختونخوا اسمبلی نے کراچی میں رہائش پذیر صوبہ پختونخوا کے باشندوں کے مسائل پر 7جنوری کے اجلاس میں متفقہ قرارداد منظور کرلی۔ خبر کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر سردار محمد یوسف کی قرارداد میں کہا گیا ہے ’’کراچی میں رہائش پذیر پختونخوا کے باشندوں کیساتھ مہاجرین جیسا سلوک کیا جاتا ہے، ان کے بچوں کو داخلے ملتے ہیں نہ ڈومیسائل بنتے ہیں اور نہ ہی نوکریاں دی جاتی ہیں، سندھ حکومت کیساتھ یہ معاملہ اٹھایا جائے‘‘۔ پختونخوا اسمبلی کو اگرچہ یہ خیال بہت دیر بعد آیا لیکن جیسے کہتے ہیں کہ دیر آید درست آید۔ قرارداد میں شناختی کارڈ کے حصول یا شناختی کارڈ میں پتے کی تبدیلی سے متعلق درپیش اہم مسئلے کا شاید ذکر نہیں ہے حالانکہ اسی مسئلے سے داخلوں اور ملازمت کا تعلق ہے۔ اس حوالے سے ہم نے 28اگست 2016، 11ستمبر 2016سمیت متعدد کالم روزنامہ جنگ میں لکھے، شناختی کارڈ کے حوالے سے ہم نے 26اکتوبر 2016ء کے کالم میں لکھا ’’نادرہ کا نام ذہن کے نہاں خانے پر نمودار ہوتے ہی پاکستان اور ہندوستان کی دو خوبرو اداکارائیں قلب و نظر کے سامنے جلوہ گر ہوتی ہیں لیکن اگر نادرہ کے آخر سے ’’ہ‘‘ نکال کر اس کی جگہ الف لگا دیا جائے تو یہ ’نادرا‘ پاکستانی شہریوں بالخصوص کراچی میں آباد پختونوں کیلئے ایک گراں مزاج معشوق کا روپ دھار لیتی ہے، اب یہ بھی مشکل ہے کہ نادرا HEہے یا SHE، اگر اسے ہم اتھارٹی سمجھ لیں پھر تو یہ SHEیعنی مونث ہے اور اگر ادارہ مان لیں تو پھر HEیعنی مذکر ہے، مگر ادارے والی بات البتہ کہیں نظر نہیں آتی۔ خیر جو کچھ بھی ہے، امر واقعہ یہ ہے کہ ایک آمر پرویز مشرف نے نادرا کے ذریعے شناختی کارڈ کی فراہمی کا آسان نظام متعارف کرایا تھا لیکن آج نام نہاد جمہوری دور میں شناختی کارڈ کا حصول جوئے شیر لانے کے مترادف ہے‘‘۔ ہم نے مزید لکھا ’’جب طالبان کی سرگرمیاں عروج پر تھیں تو کراچی میں قبائلی علاقوں کے پختونوں کو شناختی کارڈ کے حصول میں مشکلات درپیش تھیں، اب جب سے ملا اختر منصور شہادت کے رتبے پر فائز ہوئے ہیں، تب سے افغان مہاجرین کی شناخت کے نام پر تصدیقی عمل کی چھری تلے بندوبستی علاقوں کے پختون بھی آگئے ہیں، کراچی میں مختلف اعتراضات لگا کر ان کے شناختی کارڈ بلاک کر دیے جاتے ہیں یا پھر ایک کے بعد دوسرا اور پھر تیسرا فارم بھروا کر انہیں اتنا ہلکان کر دیا جاتا ہے کہ وہ تھک ہار کر بیٹھ جاتے ہیں‘‘۔

جن دنوں ہم نے یہ کالم لکھا تھا ان دنوں پختونخوا اسمبلی میں مذکورہ قرارداد پیش کرنے والے سردار یوسف کی وہ جماعت جو اب سول بالادستی کے نعروں میں کہیں گم ہو گئی ہے، اسلام آباد میں راج سنگھاسن پر براجمان تھی۔ خیر ان کالموں کی اشاعت اور جماعت اسلامی کے احتجاج کے بعد وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کچھ اقدامات کیے اور محمد احمد خٹک ڈی جی ایم نادرا تعینات کیے گئے، اس طرح کچھ مسائل حل ہوئے مگر بعد ازاں مسائل دوبارہ بڑھ گئے۔ دیکھا جائے تو ان مسائل کا تعلق سندھ اور وفاق دونوں سے ہے مثلاً اگر کسی کے شناختی کارڈ پر کراچی کے ساتھ آبائی گائوں کا پتا بھی درج ہو تو وہ کراچی کے ڈومیسائل کا مستحق نہیں گردانا جاتا، نہ ہی لائسنس وغیرہ کا۔ اگر یہ شہری اپنا ایک یعنی کراچی کا پتا درج کرانے کیلئے نادرا کے دفتر جاتا ہے تو وہ کراچی کی رہائش کے لیز کاغذات مانگتے ہیں، اب یہاں برسوں سے ایسے پختونخوا کے باشندے رہائش پذیر ہیں جن کے پاس غربت کے سبب اپنا مکان نہیں۔ ہمارے ایک جاننے والے جو عرصے سے کراچی رہائش پذیرہیں، کے پوتے کو کراچی کا ڈومیسائل نہ ہونے کی وجہ سے میڈیکل میں داخلہ نہیں دیا گیا، اس شخص نے 1978ء میں کراچی بورڈ سے میٹرک کیا ہے، لیز مکان اُس کے نام ہے لیکن بیٹے کے شناختی کارڈ پر ڈبل ایڈریس ہے، جس کی وجہ سے ڈومیسائل نہیں بنایا جاتا اور شناختی کارڈ میں کراچی کا پتا اس وجہ سے درج نہیں کیا جاتا کہ بیٹے کے پاس اپنے مکان کے لیز کے کاغذات نہیں ہیں۔ یوں یہ تو واضح ہے کہ یہ خاندان 40برس سے یہاں رہائش پذیر ہے لیکن پاکستانی ہونے کے باوجود ان شرائط کی وجہ سے اُسے کراچی کا شہری قبول نہیں کیا گیا۔ قابل افسوس امر یہ ہے کہ سٹیزن ایکٹ 1951ء کے مطابق اگر کوئی شہری کسی شہر میں ایک سال سے رہائش پذیر ہے تو وہ ڈومیسائل کا حقدار ہوگا لیکن سندھ حکومت کے غیر منصفانہ رویے کی وجہ سے کراچی میں برسوں سے آباد شہریوں کے ڈومیسائل نہیں بن پاتے۔ یوں کراچی میں نصف صد ی سے آباد خاندانوں کے بچوں کو داخلوں اور ملازمت سمیت متعدد حقوق سے محروم کر دیا گیا ہے۔ گویا اس طرح وفاقی و سندھ حکومت کی جانب سے اُنہیں پاکستانی تسلیم کرنے سے ہی انکار کیا جا رہا ہے، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان نوجوانوں کی محرومیاں بڑھ رہی ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ ان مسائل کے حل کی خاطر اپنی قرارداد کو نتیجہ خیز بنانے کیلئے فوری طور پر پختونخوا اسمبلی عملی قدم بھی اُٹھائے۔

تازہ ترین