• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تفہیم المسائل

(گزشتہ سے پیوستہ)

میّت کی تدفین میں شرعی عذر یا قانونی مجبوری کے بغیر تاخیر کرنا، خواہ کسی بھی مقصد کے لیے ہو، مکروہ ہے، اس سے میّت کی بے حرمتی ہوتی ہے اور اگرلاش پھول جائے یا پھٹ جائے تو نماز جنازہ کے قابل نہیں رہتی۔

حدیث پاک میں ہے : ترجمہ :’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی کریم ﷺنے فرمایا :جنازہ لے جانے میں جلدی کرو ، اس لئے کہ اگر وہ نیک ہے تو اسے تم بھلائی ہی کی طرف بڑھاؤ گے اور اگر اس کے برعکس ہے تو وہ ایک برائی ہے جسے اپنی گردنوں سے اتار کر رکھ دو گے ،(صحیح بخاری: 1315)‘‘۔

ترجمہ:’’حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں: میں نے نبی اکرمﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا: جب تم میں سے کوئی مرجائے تواسے روکو نہیں ،بلکہ جلدی اس کی قبر تک پہنچاؤ ،(دفن کرنے کے بعد) اس کے سرہانے سورۂ بقرہ کاپہلا رکوع اور پائنتی کی جانب آخری رکوع پڑھو ،اسے بیہقی نے ’’شُعب الایمان ‘‘ میں روایت کیااورکہاہے :’’ صحیح یہ ہے کہ یہ حدیث موقوف ہے ‘‘،(مشکوٰۃ المصابیح:1717)‘‘۔

موقوف اس حدیث کو کہتے ہیں جس کی سند صحابیؓ پر جاکر ختم ہوجائے ،یہ صحابیؓ کا قول وفعل اور تقریر بھی ہوسکتی ہے اوریہ بھی امکان ہوتاہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سناہو ،اسی لیے اسے ’’مرفوع حکمی‘‘ بھی کہتے ہیں ،اگر کسی حدیث مرفوع سے اس کی تائید ہورہی ہو تواس کے حُجّت ہونے میں کوئی شبہ نہیں ،ورنہ اگر نہ کوئی حدیث مرفوع اس کے مخالف ہو اورنہ مُسَلّمات شرعیہ کے خلاف ہو تو فضائل اعمال میں معتبر ہے ۔

علّامہ علی القاری ؒ الباری لکھتے ہیں:ترجمہ:’’ یعنی عذرکے بغیر میت کو دفن کرنے میں تاخیر نہ کرو ، امام ابن ہمام نے کہا: جب (کسی شخص کی) موت واقع ہوجائے تو اُس کے جنازے میں جلدی کرنا مستحسن ہے ،(مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح ،جلد 4،ص:172،بیروت)‘‘۔

خلاصہ یہ ہے کہ اگر سمندر ی جہاز میں کسی کی موت ہوجائے تو اس کے رفقاء ساحل تک پہنچنے کی کوشش کریں تاکہ زمین میں دفن کرسکیں ، اگر یہ ممکن نہ ہوتو کسی جزیرے کی تلاش کریں ،جہاں دفن کرسکیں ، اگر کوئی جزیرہ بھی نہ ملے اور ساحل سمندر اتنا دور ہو کہ میت میں تعفُّن پیدا ہونے کا اندیشہ ہو تو اس میت کو غسل دے ، کفن پہنائے ، پھر جہاز میں سوار لوگ اس کی نماز جنازہ پڑھیں اور کسی بھاری پتھر سے میت کو باندھ دیں اور سمندر میں ڈال دیں اسی میں میت کی حفاظت ہے۔

ترجمہ:حجاج سے روایت ہے: انہوں نے عطاء سے پوچھا : سمندر کے سفرمیں میت کو کیسے دفن کیا جائے ؟ ،تواُنہوں نے کہا:میت کو کفن دیا جائے گا، اس کو خوشبو لگائی جائے گی،غسل دیا جائے گا، نماز جنازہ پڑھی جائے گی، قبلہ رُخ رکھاجائے گااور پیٹ پر پتھر رکھا جائے گا تاکہ ڈوب جائے ، (مسائل الامام احمد : 1085)‘‘۔

ویسے آج کل بحری جہازوں میں برف خانہ موجود ہوتا ہے ،اس صورت میں بہتر ہے کہ میت کوجہاز کے برف خانے میں محفوظ کرکے ساحل تک پہنچا جائے اور غسل، تکفین اورنمازِ جنازہ کے بعد قبر کھود کر اس میں دفن کیا جائے۔

اپنے مالی وتجارتی مسائل کے حل کے لیے ای میل کریں۔

tafheem@janggroup.com.pk

تازہ ترین