پاکستان میں بڑھتی ہوئی شرح سود بالخصوص کاروباری برادری کیلئے تشویش کا باعث ہے۔ وہ شرح سود جو ایک وقت 5.75فیصد تھی اب بڑھ کر 13.25فیصد ہو چکی ہے۔ اسٹیٹ بینک کی حالیہ زری پالیسی بھی کاروباری برادری کیلئے راحت کی کوئی خبر نہ لائی جب بینک نے شرح سود کو 13.25فیصد پر اگلے دو مہینے کے لئے مستحکم رکھنے کا فیصلہ کیا۔ شرح سود کے 13.25فیصد ہونے کا مطلب ایک عام کاروباری آدمی کیلئے 18فیصد سے بھی زیادہ ہے کیونکہ کمرشل بینک قرضہ دیتے ہوئے KIBOR(کراچی انٹربینک آفر ریٹ) کے علاوہ 3سے 7فیصد کا پریمیم چارج کرتے ہیں۔KIBOR جو عموماً سینٹرل بینک کے شرح سود سے زیادہ ہوتا ہے، اس وقت تقریباً 14فیصد ہے۔ چھوٹے اور درمیانے حجم کے کاروباری اداروں کیلئے ایک اور دشواری اس وقت پیش آتی ہے جب کمرشل بینک ان کو دیے جانے والے قرضوں پر پروسیسنگ فیس کے نام پر ہر سال ایک بڑی رقم چارج کر لیتے ہیں، مثلاً ایک کروڑ روپے کے قرضے پر سالانہ ایک لاکھ روپے کی پروسیسنگ فیس کا مطلب ان کاروباری اداروں کیلئے شرح سود میں ایک فیصد کا اضافہ ہے۔ شرح سود جسے ڈسکائونٹ ریٹ بھی کہتے ہیں، سینٹرل بینک کی زری پالیسی کا ایک اہم ذریعہ ہے اور میکرو اکنامکس کے کئی مقاصد، مہنگائی کو قابو رکھنا، شرح ترقی کو بڑھانا، نوکریاں پیدا کرنا، غیر ملکی کرنسیوں سے شرح تبادلہ کو مستحکم رکھنا اور غیر ملکی کرنسیوں کے ذخائر میں اضافہ کرنا، کو حاصل کرنے میں مدد کرتا ہے۔ پاکستان میں ہونے والے شرح سود کے اضافے کے مقاصد میں درآمدات کو کم کرنا، مہنگائی کو قابو کرنا اور شرح تبادلہ کی گرتی ہوئی شرح کو سنبھالنا شامل تھے۔ آئیے اس کا جائزہ لیں کہ شرح سودان مقاصد کو حل کرنے میں کیسے مددگار ہوتی ہے۔
زیادہ شرح سود بچتوں پر ملنے والے معاوضے کو بڑھاتی ہے اور قرضے لینے کے رجحان کی حوصلہ شکنی کرتی ہے، لوگ اپنے اخراجات خصوصاً مہنگی اشیاء کم کر دیتے ہیں۔ زیادہ شرح سود اور درآمدات پر لگنے والے ٹیکس درآمدات کو کم کرنے میں مددگار ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ زیادہ شرح سود زیادہ طلب کی وجہ سے ہونے والی مہنگائی کو قابو لانے میں بھی اپنا کردار ادا کرتی ہے۔ جہاں درآمدات پر لگنے والے ٹیکس لوگوں کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ درآمدات کے بجائے مقامی سطح پر تیار اشیاء کی خریداری کریں، زیادہ شرح سود درآمدات کےساتھ ساتھ مقامی اشیاء کی خریداری کی بھی حوصلہ شکنی کرتی ہے۔ اس لئے زیادہ شرح سود ایک ہی وقت میں درآمدات اور مہنگائی میں کمی کا باعث بنتی ہے۔ زیادہ شرح سود لوگوں کو بیرونی کرنسیوں کے بجائے اپنی بچتیں روپوں میں رکھنے پر مائل کرتی ہے اور HOT MONEY FLOWS کو بڑھاوا دیتی ہے۔ فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ (FID) ایک ملک میں زیادہ دیر کیلئے بیرونی کرنسیاں انویسٹ کرتی ہے جبکہ ہاٹ منی مختصر عرصے کیلئے بیرونی کرنسی لے کے آتی ہے۔ جب تک شرح سود سے ملنے والا صلہ بیرونی کرنسی کے مہنگے ہونے کے صلے سے زیادہ ہے، ایک ملک میں آنے والے ہاٹ منی فلوز اس سے باہر جانے والے فلوز سے زیادہ ہو گا۔ مثلاً ایک آدمی اپنی بچتیں 12فیصد شرح سود پر روپوں میں رکھے گا، اگر وہ یہ توقع رکھے کہ اگلے ایک سال میں ڈالر 174روپے سے مہنگا نہیں ہوگا۔ پاکستان میں روپے اور ڈالر کا شرح تبادلہ اس وقت مستحکم ہے اور شرح سود کافی زیادہ ہے، اس لئے بیرونی کرنسیوں کا پاکستان کی طرف رخ کرنا اور بیرونی کرنسیوں کے ذخائر کا بڑھنا کوئی حیرت کا باعث نہیں ہے۔ تاہم ہر دوسری میکرو اکنامکس پالیسی کی طرح زیادہ شرح سود کے نقصانات بھی ہیں۔ زیادہ شرح سود قرضے لینے کے رجحانات کی حوصلہ شکنی کے ساتھ ساتھ کاروباری حضرات کو مجبور کرتی ہے کہ وہ اپنے کاروبار کو بڑھانے کے منصوبے ترک یا ملتوی کر دیں، کیونکہ زیادہ شرح سود نہ صرف کاروباری قرضوں کی لاگت کو بڑھاتی ہے بلکہ مصنوعات کی طلب میں بھی کمی کرتی ہے۔ اس سے معیشت کی شرح ترقی کم ہوتی ہے اور بیروزگاری میں اضافہ ہوتا ہے۔ شرح سود میں ہونے والا غیر معمولی اضافہ چلتے ہوئے کاروباروں کو بند کرنے کا موجب بھی بن سکتا ہے کیونکہ کسی بھی کاروبار کے لئے شرح سود کے اتنے بڑے اضافے کے جھٹکے کو برداشت کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ شرح سود بڑھنے کا ایک اور نقصان پاکستان جیسے ملک جس پر اندرونی اور بیرونی قرضوں کا بے تحاشا دبائو ہے، کے سودی اخراجات میں بے تحاشا اضافہ ہونا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق شرح سود میں 1فیصد اضافے سے حکومت کے اخراجات میں 200ارب روپے سے بھی زیادہ اضافہ ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے غربت کے خاتمے اور سماجی شعبے کی ترقی کیلئے حکومت کے پاس وسائل کی کمی ہو جاتی ہے۔ گزشتہ کچھ مہینوں میں پاکستان کی معیشت میں کچھ مثبت رجحانات نظر آئے ہیں جیسے جاری کھاتوں کے خسارے میں کمی، غیر ملکی کرنسیوں کے ذخائر میں اضافہ، روپے کا ڈالر کے مقابلے میں مضبوط ہونا اور متوقع شرح نمو میں اضافہ وغیرہ۔ کئی معیشت دان سمجھتے ہیں کہ اب وقت آ گیا ہے کہ اسٹیٹ بینک شرح سود میں کمی کرے اور زری پالیسی کا رخ درآمدات اور مہنگائی میں کمی سے معاشی ترقی اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کی طرف منتقل کرے۔ شرح سود میں کمی سے حکومت کے سودی اخراجات میں بھی کمی ہو گی اور حکومت کے پاس غربت کے خاتمے کے لئے وسائل میں اضافہ ہوگا۔ تاہم اسٹیٹ بینک کے مطابق بچتوں کی حوصلہ افزائی کیلئے شرح سود کا مہنگائی کی شرح سے زیادہ ہونا ضروری ہے تاکہ بچت کرنے والوں کو مثبت حقیقی شرح سود (حقیقی شرح سود، شرح سود اور مہنگائی کی شرح کا فرق ہوتی ہے) میسر ہو۔ پاکستان میں حقیقی شرح سود اس وقت بھی ایک یا دو فیصد سے زیادہ نہیں۔ دوسرے نقطہ نظر کے مطابق پاکستان میں مہنگائی کی شرح طلب کے زیادہ ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ کاروباری اخراجات میں اضافے کی وجہ سے ہے۔ شرح سود کا اضافہ طلب کو کم کرکے مہنگائی کو قابو میں لاتا ہے لیکن کاروباری اخراجات میں اضافے کی وجہ سے ہونے والی مہنگائی پر کوئی خاص فرق نہیں ڈالتا۔ پاکستان میں مہنگائی کی شرح 12فیصد کے قریب ہے اور اس کی بڑی وجہ کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔ بنیادی شرح مہنگائی جو کھانے پینے کی اشیاء اور تیل جیسی چیزوں کی قیمتوں میں اضافے کو نظر انداز کرتے ہوئے مہنگائی کی شرح طے کرتی ہے، آج بھی سات آٹھ فیصد سے زیادہ نہیں ہے۔ بہت سے معیشت دان سمجھتے ہیں کہ شرح سود بنیادی شرح مہنگائی کے مطابق ہونی چاہئے کیونکہ کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں کو شرح سود کی تبدیلی سے قابو میں نہیں لایا جا سکتا۔ کوئی بھی معاشی پالیسی مکمل طور پر اچھی یا بری نہیں ہوتی۔ پاکستان میں شرح سود کو کم کرنے کا مقدمہ بہت مضبوط ہے تاکہ معاشی ترقی ہو اور روزگار کے مواقع پیدا ہوں، تاہم بڑھتی ہوئی مہنگائی کی شرح کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ صوبائی اور ضلعی سطحوں پر قیمتوں کو قابو میں لانے کیلئے اپنی انتظامی صلاحیتوں کو بروئے کار لائے تاکہ اسٹیٹ بینک کو شرح سود کم کرنے میں کوئی جھجک نہ ہو۔