• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں آپ کو صرف اتنا بتا سکتا ہوں کہ میرے ساتھ پیش آنے والا واقعہ زیادہ پرانا نہیں۔ کتنا پرانا ہے، یہ میں آپ کو نہیں بتا سکتا۔ چھپانے کی بات نہیں ہے، واقعہ کی نوعیت کچھ اس قسم کی تھی کہ آپ کو قطعی کچھ یاد نہیں رہتا کہ واقعہ کب پیش آیا تھا۔ یاد صرف یہ رہ جاتا ہے کہ واقعہ آپ کے ساتھ پیش آیا تھا اور وہ واقعہ آنے والے ایک سو پچاس جنموں تک آپ بھلا نہیں سکتے۔ ہر جنم میں اس بھیانک واقعے کو یاد کرکے آپ کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور آپ دھڑام سے بیٹھ جاتے ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ رونگٹے کیا ہوتے ہیں، میں بس اتنا جانتا ہوں کہ رونگٹے ہوتے ہیں اور ڈر کے مارے آپ کی جب جان نکل رہی ہوتی ہے تب وہ کھڑے ہو جاتے ہیں۔ جس وقت یہ واقعہ پیش آیا، اس وقت میں انہماک سے ٹیلی وژن پر مار دھاڑ سے بھرپور ریسلنگ یعنی کشتی کا پروگرام دیکھ رہا تھا۔ ٹیلی وژن سے دکھائے جانے والے پروگراموں میں مجھے دو پروگرام بہت اچھے لگتے ہیں۔ دونوں پروگرام ٹکر کے پروگرام ہیں۔ آج تک میں فیصلہ کر نہیں پایا کہ دونوں پروگراموں میں میرے لیے نمبر ون پروگرام کون سا ہے اور نمبر ٹو پروگرام کون سا۔ میرا ایک پسندیدہ پروگرام ہے ریسلنگ! جس میں جو پہلوان زیادہ پٹتا ہے، آخر میں وہی پہلوان جیت جاتا ہے۔ میرا دوسرا پسندیدہ پروگرام ہے بحث و مباحثوں کا پروگرام! جس میں ایک اینکر تین چار اینکرز کو مدعو کرتا ہے اور وہ سب اینکرز مل کر حالاتِ حاضرہ، حالاتِ گزشتہ اور حالاتِ نازلہ یعنی آنے والے حالات کے بارے میں پُرمغز گفت و شنید کرتے ہیں اور ہم ٹیلی وژن دیکھنے والوں کی سیاسی معلومات میں اضافہ کرتے ہیں۔ ہم وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ سیاسی طور پر ننانوے فیصد پاکستانی خواندہ ہیں۔ وہ اس قدر سیاسی سوجھ بوجھ رکھتے ہیں کہ اچھے خاصے سیاستدان ان کے آگے بےبس ہو جاتے ہیں۔ میں دونوں طرح کے پروگراموں پر جان چھڑکتا ہوں۔ اوّل تو دونوں پروگرام مختلف چینلز سے مختلف اوقات پر دکھائے جاتے ہیں۔ اگر کبھی اتفاق سے میرے دونوں پسندیدہ پروگرام ایک ہی وقت پر دو مختلف چینلز سے دکھائے جائیں تو میں نے ایسی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسا بندوبست کر رکھا ہے کہ میں ایک ہی وقت پر دو مختلف ٹیلی وژن چینلز سے دکھائے جانے والے اپنے پسندیدہ پروگرام ایک ساتھ دیکھ سکتا ہوں۔ میرے پاس دو ٹیلی وژن سیٹ ہیں، دونوں سیٹ ایک ساتھ ایک ہی دیوار پر لگے ہوئے ہیں۔ ایک سیٹ پر میں سیانے اینکر کا گفت و شنید والا پروگرام لگاتا ہوں جس میں وہ سیاسی حالات پر گرما گرم بحث کرتے ہیں اور ماحول کو گرما دیتے ہیں۔ دوسرے سیٹ پر میں مار دھاڑ سے بھرپور پروگرام لگاتا ہوں۔ اس طرح صوفہ سیٹ پر نیم دراز ہوکر ایک ہی وقت میں مَیں دونوں پروگراموں سے لطف اندوز ہوتا ہوں۔ آپ میرے پاگل پن پر مسکرا رہے ہوں گے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص ایک ہی وقت میں دو پروگرام دیکھ سکے۔ ٹیلی وژن چینلز کے مالکان نے یہ سب ممکن کر دکھایا ہے۔ انہوں نے ہماری تربیت کی ہے، اس لیے ہم ٹیلی وژن اسکرین پر دو دو ٹیلی وژن نیوز ریڈرز سے خبریں سن سکتے ہیں، ان کو دیکھ سکتے ہیں۔ لہٰذا آپ حیران نہ ہوں، میں ایک ہی وقت میں دو ٹیلی وژن چینلز سے ایک ہی وقت میں دکھائے جانے والے کشتی یعنی ریسلنگ اور بحث و مباحثوں کے پروگرام دو ٹیلی وژن سیٹس پر ایک ہی وقت میں دیکھ سکتا ہوں، ان سے لطف اندوز ہوتا ہوں۔ اب آپ یہ مت سوچئے کہ گرما گرم بحث و مباحثوں والے پروگراموں اور ریسلنگ کے پروگراموں کا آپس میں کس نوعیت کا تعلق ہے؟

عجیب و غریب عادتیں میں نے بوڑھا ہونے کے بعد نہیں اپنائی ہیں۔ طرح طرح کی احمقانہ عادتیں میں اپنے ساتھ لے کر اس دنیا میں آیا تھا۔ اس سلسلے میں مَیں یگانہ نہیں ہوں، آپ بھی میری طرح اپنی اپنی عادتیں لے کر دنیا میں آتے ہیں اور زندگی بھر اپنی عادتوں کی آبیاری کرتے ہیں مگر آپ اپنی عادتیں بھول بیٹھتے ہیں۔ آپ کو یاد نہیں ہوگا، میں آپ کو یاد دلاتا ہوں۔ دنیا میں آنے کے بعد آپ جب ڈھائی تین مہینوں کے ہوتے تھے اور لوگوں کو پہچاننے لگے تھے، تب کچھ لوگوں کو دیکھ کر آپ خوش ہوتے تھے، آپ کی باچھیں کھل جاتی تھیں۔ کچھ لوگ آپ کو ناگوار لگتے تھے، ان کو دیکھ کر آپ ناراض ہوتے تھے، آپ رو پڑتے تھے۔ آپ اپنی پسند، ناپسند سے زندگی بھر پیچھا چھڑا نہیں سکتے۔ بڑھاپے میں مجھے ٹیلی وژن دیکھنے کی لت نہیں پڑی ہے، میں پیدائشی طور پر میڈیا کا متوالا ہوں۔ جب فلمیں نہیں بنتی تھیں، تب میں منڈلی ڈرامے انہماک سے دیکھتا تھا۔ پہلی جنگِ عظیم کے آس پاس گونگی فلمیں بننے لگی تھیں۔ گونگی فلمیں بھی میں شوق سے دیکھتا تھا اور اداکاروں کے اشاروں، کنایوں سے فلم کی کہانی سمجھنے میں مجھے دیر نہیں لگتی تھی۔ اس دور میں ریڈیو ایجاد ہوا تھا۔ میں پہروں ریڈیو کے قریب پڑا رہتا تھا اور گانے، گیت، غزلیں، بھجن، قوالیاں اور ڈرامے سنا کرتا تھا۔ ریڈیو نے صدیوں کی روایتوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ ڈرامہ دیکھا جاتا ہے مگر ریڈیو سے ہم ڈرامہ سنتے تھے۔ دوسری جنگِ عظیم کے آس پاس بنی بولنے والی فلمیں! روزانہ ایک دو فلمیں نہ دیکھوں تو نیم پاگل ہو جاتا تھا۔ نیل آرم اسٹرانگ نے جب چاند پر قدم رکھا تھا، تب ہمارے یہاں ٹیلی وژن کی آمد آمد تھی۔ وہ دن اور آج کا دن، میں ٹیلی وژن سے دور نہیں رہ سکتا۔ یہ بڑھاپے کی بے راہ روی نہیں، یہ تاریخ کا تسلسل ہے۔ جس روز رونگٹے کھڑے کر دینے جیسا واقعہ پیش آیا تھا، اس روز میں دو ٹیلی وژن سیٹس پر ریسلنگ اور مار دھاڑ سے بھرپور بحث و مباحثے کے دو پروگرام ایک ساتھ دیکھ رہا تھا۔ حواس باختہ کر دینے والے واقعہ کی کہانی میں آپ کو آنے والے منگل کے روز سنائوں گا۔

تازہ ترین