• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:عظمیٰ گل دختر جنرل (ر) حمید گل
2007 ء میں چیف جسٹس افتخار چودھری صاحب کو عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ اُن پر بہت سے الزامات لگا کر ان کا ٹرائل شروع کر دیا گیا۔ افتخار چودھری صاحب کے رویئے سے وکلاء کو بہت شکایات تھیں، عام تاثر بھی یہی تھا کہ وہ بہت خوش اخلاق نہ تھے‘ اسکے باوجود جب اُن کو ہٹایا گیا تو تمام وکلاء برادری معہ سول سوسائٹی انکے پیچھے کھڑے ہو گئے۔ پھر وہ ایک آمر کیخلاف طویل جدوجہد کی داستان ہے۔ میرے والد جنرل حمید گل نے بھی شروع ہی سے عدلیہ کی آزادی کیلئے آواز اٹھائی۔ 16مارچ 2007ء کو میرے والد، میں اور میرے گھر والے شاہراہِ جمہوریت پر احتجاج کیلئے جمع ہوئے۔ پولیس نے وکلاء کو تو جانے دیا مگر جنرل صاحب اور ہمیں آگے جانے سے روک دیا۔ بڑی دیر تک بحث مباحثہ ہوتا رہا اور پھر وہ ہوا جو کیمرے کی آنکھ نے سب ریکارڈ کر لیا۔ جنرل صاحب کے ساتھ پولیس ڈی ایس پی نے ہاتھا پائی کی، میرے بیٹے کو ڈنڈوں سے مارا اور مجھے دھکے دیئے۔ والد صاحب کے گھٹنے پر نامعلوم کیسی چوٹ لگائی کہ وہ 2015ء میں اپنی وفات تک بیٹھ کر نماز پڑھنے پر مجبور تھے۔ کبھی حرف شکایت زباں پر نہ لائے۔ پکے، سچے، کھرے اور بہادر فوجی تھے۔ کہا کرتے تھے وردی اُتاری ہے بوٹ نہیں اور ریٹائرڈ ہونے سے جو مادر وطن کی حفاظت کی قسم کھائی ہے وہ تو ساکت نہیں ہوئی۔ بہت ترغیبات دی گئیں، عہدوں کی بھی آفر تھی مگر انہوں نے اپنی قسم کی پاسداری کرتے ہوئے سب کچھ ٹھکرا کر ہمیشہ حق کا ساتھ دیا۔ اس جدوجہد کا انجام عدلیہ کی آزادی پر منتج ہوا اور بالآخر حق کا بول بالا ہوا۔17 دسمبر2019 ء کو جنرل پرویز مشرف کیس کا فیصلہ آیا جس نے قوم کو تقسیم کر کے رکھ دیا۔ جب عدلیہ خود ہی منقسم ہو اور اپنے ہی بنائے ہوئے قوانین پر عمل درآمد کرنے میں ناکام ہو جائے تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ یہ ’’مقدس‘‘ ادارہ تباہ و برباد ہو رہا ہے۔ مقدس اسلئے کہ انصاف دینا صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا کام ہے اور زمین پر جج اللہ تعالیٰ کے نمائندوں کے طور پر یہ مقدس فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔ آج صرف اس فیصلے کو ہی لیں تو دماغ چکرا جاتا ہے، عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ 2009ء میں سپریم کورٹ کے پندرہ ججوں کے فیصلے کی بناء پر حکومت وقت کی درخواست پر 2013ء میں سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کیخلاف غداری کیس کی سماعت کیلئے تین رکنی خصوصی بینچ تشکیل کیا۔ چھ سال کیس چلنے کے بعد حکومت کی ’’فیصلے‘‘ پر حکم امتناعی کی درخواست پر عدالت نے کہا کہ اگر حکومت کیس واپس لینا چاہتی ہے تو واپس لے سکتی ہے مگر حکومت نے انکار کر دیا اور جان بوجھ کر عدلیہ کے کاندھے پر رکھ کر بندوق چلانے کی کوشش کی۔ جب عمران خان صاحب نے عدلیہ کو براہ راست مخاطب کر کے ’’طاقتور کے حق میں جانبدار‘‘ ہونے کا اشارہ دیا تو چیف جسٹس صاحب نے غیر متوقع طور پر آگے بڑھ کر کھرا کھرا جواب دیا اور اپنی ’’غیر جانبداری‘‘ کو ثابت کرنے کیلئے مشرف کیس میں جلد فیصلہ سنانے کا عندیہ دے دیا۔ یہ سب کچھ کیا تھا؟ عوام کے سامنے کھڑے ریاست کے دو ستون ایک دوسرے کو للکار رہے تھے۔ ایسا کیوں ہوا؟ دونوں جانب سے غیر ذمہ داری کا ثبوت دیا گیا۔ بہت سی باتیں حکومتی معاملات میں کھلے عام نہیں کی جاتیں مگر اسکے باوجود یہاں تو کھلے عام ہی سب کچھ ہوا۔ فیصلہ آیا اور پھر تو جیسے پورے ملک میں آگ ہی لگ گئی۔ فیصلے میں ایک ناقابلِ عمل تضحیک آمیز پیرا ڈال کر معاملہ کو مزید الجھا دیا گیا۔ پوری قوم ایک نئی بحث میں الجھ گئی۔ فیصلے سے زیادہ پیرا نمبر66 زیرِ بحث رہا۔ اسکی ضرورت ہی کیا تھی؟ قوم مزید ہیجان میں مبتلا ہو گئی۔ اس مقدمہ میں حکومت مدعی تھی اور حکومت ہی مدعا علیہ بن گئی۔ ججوں نے بھی کوئی کمی نہ کی، اپنے ہی ادارے کا دھڑن تختہ کر دیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ڈبل بینچ نے تین ممبر خصوصی کورٹ کے فیصلے سنانے پر حکم امتناعی جاری کر دیا اور اس کے باوجود خصوصی کورٹ نے فیصلہ سنا دیا۔ ادھر فیصلہ آنے کے بعد لاہور ہائی کورٹ کے تین رکنی بینچ نے سپریم کورٹ کے تشکیل کردہ اسپیشل بینچ کو ہی غیرقانونی اور اسکے تحت دی گئی سزا کو کالعدم قرار دے دیا۔ کون صحیح ہے کون غلط سمجھ نہیں آتا؟ ہمیں تو یہی بتایا گیا تھا کہ سنگل بینچ لارجر بینچ کے فیصلے کو معطل نہیں کر سکتا، بعینی ایسے ہی سپریم کورٹ کے فیصلے کو ہائی کورٹ ختم یا معطل نہیں کر سکتا ہے۔ مگر اب تو نئی تاریخ رقم ہونے جا رہی ہے کہ کوئی اصول ہی نہیں۔ کہیں تو کہا جا رہا ہے کہ ’’طریقہ کار‘‘ پورا نہ ہونے کے باعث سب غلط ہوا اور کہیں یہ فیصلہ کرنے والے خود ہی ’’طریقہ کار‘‘ پر عمل پیرا نہیں۔ کیا ہو گیا ہے ہماری مقدس عدلیہ کو؟ کیوں اپنا مقام نہیں پہچان رہے؟ سنا تھا ’’قانون اندھا ہوتا ہے‘‘ کوئی مصلحت کوئی عوامی یا معروف رائے عدلیہ کے فیصلوں کے آڑے نہیں آ سکتی اور جج حضرات بھی تقریباً مافوق الفطرت ہستی ہوتے ہیں۔ اب تو یہاں کچھ اور ہی حالات ہیں، آئے دن واٹس ایپ پر خبریں گردش کر رہی ہوتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی ہماری طرح کے گوشت پوست کے انسان اور ہماری طرح ہی غلطیوں کے پتلے ہیں۔ عام انسانوں کی طرح ان کی بھی کمزوریاں ہیں، جن کے باعث وہ نظریہ ضرورت کے تحت فیصلے دیتے ہیں۔ عوام البتہ سالہا سال انصاف کی خاطر وکیلوں کی بھاری فیسیں ادا کر کے عدالتوں میں دھکے کھاتے رہتے ہیں۔ فیصلہ خلاف لیکر اگلی اور پھر اس سے اگلی عدالت یہاں تک کہ اوپر اللہ کی عدالت کی جانب روانہ ہو جاتے ہیں۔ ہماری عدالتوں میں چار چیزیں ہوں تو کیس چل سکتے ہیں۔ پہلی تو ’’طاقت رستم‘‘ سارا سارا دن عدالتوں میں بیٹھنے اور خوار ہونے کیلئے، دوسرا ’’سخاوتِ حاتم طائی‘‘ کہ ہر قدم پر مال نچھاور کریں تو کیس آگے چلتے ہیں، تیسرا ’’عمرِ خضر‘‘ کہ کیس لڑنے اور اس کا انجام دیکھنے کیلئے حضرت خضرؑ جیسی عمر چاہئے اور چوتھا ’’صبرِ ایوب‘‘ کہ
ساری عمر دھکے کھا کر اپنے حق کیلئے وکیلوں، منشیوں کے ترلے منتیں کرنے کے بعد بھی جب ظالم یا غاصب کے حق میں فیصلہ آتا ہے تو حضرت ایوب علیہ السلام جیسے صبر کی ضرورت ہوتی ہے۔ دل چاہتا ہے جان دے دیں یا جان لے لیں۔ مگر پھر صبر کر کے اگلے جہان پر فیصلے کو چھوڑنا پڑتاہے۔وکلاء، سول سوسائٹی، جنرل حمید گل (مرحوم)، میں اور میرے گھر والوں نے عدلیہ کی آزادی کیلئے جو جدوجہد کی، جو صعوبتیں جھیلیں، جیلیں کاٹیں، ظلم و تشدد برداشت کئے وہ اسلئے تو نہ تھے کہ صرف چند ہی برس بعد ہم عدلیہ کو کمزور، ناتواں، بے بس و لاچار پائیں۔ عدلیہ کی آزادی ہمارا وہ ادھورا خواب ہے جو پورا ہونے سے پہلے ہی ہم سے چھن گیا۔ اس میں عدلیہ کے سوا کوئی اور قصور وار نہیں۔ اپنے مقام اور حق کیلئے اب انہیں خود ہی قربانی دینا ہو گی، خود ہی استقامت دکھانا ہو گی، ادارے کو بھی خود ہی سنبھالنا ہو گا۔ اگر وہ اپنے ادارے کے قوانین اور معیار کے مطابق نہ چلیں گے تو عدالت کی توہین کہ وہ خود ہی سب سے زیادہ مرتکب ہونگے۔ لوگوں کی زبانیں بند کی جا سکتی ہیں مگر سوچ پر تالے نہیں لگائے جاسکتے۔خدائے لم یزل کا دست قدرت تو، زباں تو ہےیقیں پیدا کر اے غافل کہ مغلوب گماں تو ہےjksmovement@gmail.com 
تازہ ترین