منگل کے روز سوئٹزر لینڈ کے شہر ڈیووس میں عالمی اقتصادی فورم کے اجلاس کے موقع پر سائیڈ لائن میں وزیراعظم عمران خان اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان وفود کے ہمراہ ملاقات ایسے عالمی منظرنامے میں ہوئی جب تنازع کشمیر جوالا مکھی بننے کے قریب نظر آرہا ہے اور مشرق وسطیٰ کی کشیدگی واضح طور پر خطرے کے نشان کے قریب ترہے۔ پاکستان سات دہائیوں سے عالمی برادری کو تنازع کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق پُرامن طور پر حل کرنے کی ضرورت کی طرف متوجہ کرتا اور ساتھ ہی عالمی و بین الاقوامی سطح پر امن کوششوں میں امکان بھر حصہ لیتا رہا ہے۔ گزرے ہفتے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے تہران، ریاض اور واشنگٹن کے جو دورےکئے ان کا مقصد مشرق وسطیٰ میں اچانک انتہائی سطح پر پہنچ جانے والی کشیدگی کو کم کرنا تھا۔ تاہم انہوں نے دورہ امریکہ کےلئے وہ وقت چنا جب دوست ملک چین کی درخواست پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا بند کمرہ اجلاس منعقد ہورہا تھا۔ پاکستانی وزیر خارجہ نے نیو یارک میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور جنرل اسمبلی کے صدر کو الگ الگ ملاقاتوں میں مقبوضہ کشمیر اور جنگ بندی لائن کی حقیقی صورتحال سے آگہی دی جبکہ امن مشن کے حوالے سے بھی واشنگٹن پہنچ کر امریکی وزیرخارجہ اور دیگر حکام سے ملاقاتیں کیں۔ اسی دوران امریکی نائب وزیر خارجہ ایلس ویلز اسلام آباد پہنچیں جہاں انہوں نے سیکرٹری خارجہ سہیل محمود اور دیگر اعلیٰ حکام سے ملاقاتوں میں سیاسی امور اور اقتصادی شراکت داری سمیت دو طرفہ معاملات پر تبادلہ خیال کیا۔ اس ملاقات میں افغان مفاہمتی عمل میں پیش رفت، مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی کم کرنے کی پاکستانی کوششوں اور اسلام آباد کے اس موقف پر بھی گفتگو ہوئی کہ عالمی برادری تنازع کشمیر کے پُرامن حل میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ افغان مفاہمتی عمل، جس میں پاکستانی کوششیں دنیا بھر کے سامنے ہیں، اہم معاہدے کی صورت میں کامیابی کی منزل سے ہمکنار ہونے والی ہیں۔ یہ منظر نامہ واضح کرتا ہے کہ صرف واشنگٹن نہیں، دنیا بھر کے دارالحکومتوں سے اسلام آباد کے سفارتی رابطے بھرپور طور پر جاری ہیں۔ کشمیری عوام کے حقِ خودارادیت کی حمایت میں بیشتر ملکوں میں کئے گئے مظاہرے، خود بھارت سے بلند ہونے والی آوازیں اور مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر سلامتی کونسل کے ارکان کا اظہار تشویش یہ واضح کررہا ہے کہ واشنگٹن اس مسئلے کی سنگینی اور اس کے پرامن حل کی ضرورت سے پوری طرح آگاہ ہے۔ دوسری طرف پچھلے عشروں کے دوران اسلام آباد اور واشنگٹن کے تعلقات کی پیچیدگی کی نوعیت دیکھتے ہوئے صدر ٹرمپ کا یہ بیان یقیناً ’’بڑی بات‘‘ ہے کہ پاک امریکہ تعلقات آج جتنے اچھے ہیں اتنے پہلے کبھی نہیں تھے۔ یہ حقیقت بھی واضح ہے کہ چند عشروں سے نئی دہلی اور واشنگٹن کے تعلقات بہت قریبی ہیں۔ ان دو طرفہ تعلقات کے ناطے اور عالمی امن کے مفاد میں واشنگٹن اگر سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر حل کرانے میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کرسکے تو عالمی امن کو ایک مسلسل خطرے سے نکالنے، کشمیری عوام کو انسانی المیے سے بچانے اور نئی دہلی کو اس خوفناک دلدل سے چھٹکارا حاصل کرنے میں مدد دی جاسکے گی جس میں اسے نریندر مودی سرکار کے 5اگست 2018کے فیصلے نے پھنسا دیا ہے۔ قرائن کہتےہیں کہ منگل کو ہونے والی ٹرمپ عمران ملاقات کے اثرات اسلام آباد کے لئے FATFسپورٹ، ٹریول ایڈوائزری میں بہتری، باہمی تجارت میں اضافے اور کشمیر پر پاک بھارت بات چیت کی راہ ہموار ہونے کی صورت میں سامنے آسکتے ہیں۔ صدر ٹرمپ جنوبی ایشیا کے افق پر منڈلاتا جنگ کا خطرہ ٹالنے میں کامیاب ہو گئے تو برصغیر کے لوگ انہیں یقیناً اچھے الفاظ میں یاد کریں گے۔