• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سنیے منصور آفاق کا کالم ’امریکا سے گجرات تک‘  ان ہی کی زبانی 


امریکی سرمایہ کار جارج سوروس ہنگری میں پیدا ہوا مگر اس وقت ہنگری میں اُس کے داخلے پر پابندی ہے۔ 

کھربوں روپے کی چیرٹی کرنے والے جارج کو ہنگری حکومت نے ریاست کا دشمن قرار دے رکھا ہے۔ یورپ میں جگہ جگہ اس کے خلاف بینر آویزاں کیے گئے ہیں۔ 

اس کا جرم صرف اتنا ہے کہ وہ مسلمان مہاجرین کو خاص طور پر ہنگری میں اور مجموعی طور پر یورپ میں آباد کرنے کا خواہش مند ہے۔ ہنگری کی سیاست میں جارج کا کردار بہت اہم رہا ہے۔ 80ء کی دہائی میں کمیونزم کے خلاف جدوجہد میں اُس نے ہنگری کا بہت ساتھ دیا تھا۔

 1984ء میں اس نے ’’اوپن سوسائٹی فاؤنڈیشن‘‘ کی بنیاد ہنگری میں ہی رکھی جو پھردنیا بھر میں پھیل گئی۔ جب ہنگری پر نازیوں نے قبضہ کیا تھا تو جارج کو ہجرت کرنا پڑی تھی۔ شاید اسی لئے جارج نے ہمیشہ مہاجروں کا دکھ محسوس کیا۔ ان کی بحالی کے لئے اپنے بینکوں کی تجوریوں کے منہ کھول دیے۔ وزیراعظم بننے کے بعد عمران خان جب نیویارک گئے تھے تو انہوں نے جارج سوروس سے بھی ملاقات کی تھی۔ مغربی میڈیا نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا ’’اپنے ملک یعنی ہنگری سمیت دنیا کے متعدد ممالک میں ایک ناپسندیدہ ترین شخص سے عمران خان کی ملاقات‘‘۔ 

کہتے ہیں کہ جارج سوروس نے عمران خان کو پاکستان اور افغانستان میں تعلیم کے شعبے میں تعاون کی آفر دی تھی۔ ٹیکس اصلاحات میں مدد کرنے کی پیشکش بھی کی تھی۔

اُس کا کچھ نتیجہ نکلا یا نہیں مگر اُس ملاقات کے سبب یہ ضرور ہوا کہ ڈیووس میں عالمی اقتصادی فورم میں تقریر کرتے ہوئے جارج نے کہا کہ ’’جمہوری معاشرت کوسب سے بڑا اور خوفناک دھچکا انڈیا میں لگا ہے جہاں جمہوری طریقے سے منتخب نریندر مودی ایک ہندو قوم پرست مملکت قائم کر رہا ہے، جس نے مسلم آبادی والے (انڈیا کے زیر انتظام) کشمیر کو اجتماعی طور پر معتوب کر رکھا ہے اور وہاں کےمسلمانوں کو ان کی شہریت کے حق سے محروم کرنے کی طرف گامزن ہے‘‘۔ 

اُس نے نریندر مودی کے ساتھ امریکی صدر ٹرمپ کو ’’نو سر باز‘‘ قرار دیا۔ صدر ٹرمپ نے تیسری بار مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی آفر دی۔ پہلی بار آفر دی تو مودی نے کشمیر میں ہمیشہ کے لئے کرفیو لگا دیا۔ 

دوسری بار آفر دی تو بھارتی مسلمانوں سے برابری کا حق چھین لیا گیا۔ دیکھتے ہیں اب تیسری بار دی جانے والی آفر کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔

دنیا بھر میں رفاہی کام کرنے کے باوجود جارج سورس کی شخصیت متنازع رہی۔ اس پر عالمی سازشوں کا حصہ بننے کے الزامات لگتے رہے، امریکہ اور مغرب کی کنزرویٹو طاقتیں جارج سوروس کی بہت مخالف ہیں۔ 

جارج کو کئی ممالک میں بہت برا تصور کیا جاتا ہے، ترکی کے صدر طیب اردوان نے بھی اُسے یہودی سازش کا مرکزی کردار کہا تھا کہ وہ ترکی کو غیر مستحکم کرنے کی سازش میں شریک ہے۔ اس وقت مسلم امہ میں کسی نام کا اگر بہت زیادہ احترام کیا جا رہا ہے تو وہ طیب اردوان ہیں۔ 

وہ فروری میں پاکستان آ رہے ہیں۔ شاید پہلے عمران خان ملائیشیا کادورہ بھی کریں یعنی خارجہ پالیسی میں کوئی اہم پیش رفت ہونے والی ہے۔ 

گزشتہ ہفتے یقیناً اسی سلسلے میں شاہ محمود قریشی سعودی عرب گئے تھے جہاں ان کی سعودی وزیر خارجہ سے ملاقات ہوئی مگر سنا ہے کہ معاملات جوں کے توں رہے۔ فارن آفس کے بابوئوں کو خطرہ محسوس ہوا تھا کہ ملائیشیا اور ترکی کے ساتھ قربت کے سبب کہیں سعودی عرب پاکستانی ہنرمندوں کو سعودیہ سے نکال نہ دے۔ 

یہ بھی ممکن ہے کہ عمران خان ملائیشیا کی کانفرنس میں شرکت سے روکنے کیلئے بابوئوں نے خود یہ خطرہ وزیراعظم کے سامنے رکھا ہو۔ اس واقعہ کا لیکن ایک فائدہ یہ ضرور ہوا کہ عمران خان نے بیرونِ ملک پاکستانیوں کی ملازمتوں کی تلاش شروع کر دی ہے۔ 

خدا جانے کتنی حقیقت ہے مگر اس خبر کے ذرائع بہت مضبوط ہیں کہ رواں سال کم از کم پچاس لاکھ لوگوں کو روزگار کیلئے ملک سے باہر بھیجا جائے گا۔ پاکستانی ہنرمندوں کی ایک بہت بڑی تعداد جاپان جانے والی ہے۔ گزشتہ روز جاپانی وزیر کانا سوجی کنجی سے جنرل قمر جاوید باجوہ کی بھی ملاقات ہوئی ہے۔ عمران خان نے جن ایک کروڑ ملازمتوں کا وعدہ کر رکھا ہے۔ 

وہ جلد سے جلد اسے پورا کرنا چاہتے ہیں۔ پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر کیلئے بھی وہ بہت متحرک ہیں۔ وہ لاہور آرہے ہیں جہاں سیاسی میٹنگ کے علاوہ ہائوسنگ پروجیکٹ کی میٹنگ بھی رکھی گئی ہے۔ یہ دیکھنے کیلئے کہ پچاس لاکھ مکانوں کی تعمیر کا معاملہ کہاں پہنچا ہے۔

 سیاسی اعتبار سے بھی عمران خان کا یہ دورۂ لاہور بہت اہمیت کا حامل ہے۔ جہاں تک قاف لیگ اور نون لیگ کے پنجاب میں اتحاد کی بات ہے تو چوہدری برادران کبھی یہ کام نہیں کریں گے کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ یہ سراسر ان کے لئے نقصان کا سودا ہے۔ دس سیٹوں کے ساتھ چوہدری پرویز الٰہی پنجاب کے وزیراعلیٰ بن بھی گئے تو نون لیگ کے ہاتھوں کٹھ پتلی بن کر رہ جائیں گے۔ 

نون لیگ نے پنجاب اسمبلی میں اسپیکر کا عہدہ بھی مانگ رکھا ہے۔ ویسے شریف فیملی چوہدری برادران پر بالکل اعتبار نہیں کرتی۔ شریف برادران انہیں پنجاب میں اپنے لئے سب سے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں اور پنجاب میں حصہ داری کو برداشت نہیں کرتے۔ 

وہ یہ بھی جانتے ہیں چوہدری برادران کا پنجاب میں بہت اثر و رسوخ ہے۔ 

بیورو کریسی میں بھی ان کی جڑیں مضبوط ہیں۔ شریف برادران پنجاب میں تبدیلی کے حوالے سے بڑے پُریقین ہیں مگر میں نہیں سمجھتا کہ چوہدری برادران جیسے زیرک لوگ ان کے چکر میں آئیں گے۔ 

میرے خیال میں تو پنجاب میں کوئی تبدیلی نہیں آرہی۔ سب پارٹیاں اِسی تنخواہ پر کام کرتی رہیں گی۔

تازہ ترین