• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہالینڈ کے ایک روزنامہ نے اے پی پی کے حوالے سے بتایا ہے کہ اقوام متحدہ کے سروے کے مطابق 2050تک بھارت آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک بن جائے گا اور یہ چین کو آبادی میں پیچھے چھوڑ جائے گا۔ بھارت ان آٹھ ممالک میں شامل ہے جن کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت چین، بھارت، بنگلا دیش، پاکستان اور سری لنکا کی مجموعی آبادی باقی دنیا کی مجموعی آبادی کے لگ بھگ ہے۔ اقوام متحدہ کے پاپولیشن ڈویژن نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ چین میں زیادہ بچے پیدا کرنے کے رجحان میں تبدیلی کے باعث بھارت آبادی کے حوالے سے چین پر سبقت لے جائے گا۔ رپورٹ کے مطابق بھارت کی موجودہ آبادی ایک ارب 19کروڑ جو 2050تک بڑھ کر ایک ارب پچاس کروڑ پینتیس لاکھ ہو جائے گی جبکہ چین کی موجودہ آبادی ایک ارب تیس کروڑ 30کروڑ دس 10لاکھ سے بڑھ کر ایک ارب تیس کروڑ نو لاکھ ہو جائے گی جس کے نتیجے میں بھارت چین سے زیادہ آبادی والا ملک بن جائے گا اور ادھر دنیا کی آبادی جولائی تک ساڑھے 7ارب تک پہنچ جائے گی۔

ماہرینِ ارضیات کے مطابق کرۂ ارض اندازاً ساڑھے چار ارب سال قبل عالم وجود میں آیا، اس پر حیات کے آثار دو ارب بائیس کروڑ سال پہلے نمودار ہوئے اور زندگی کا باقاعدہ آغاز بائیس کروڑ سال پہلے ہوا اس سلسلے میں مختلف محققین نے متضاد نظریات پیش کیے ہیں۔ پیٹر کاس کے مطابق کرہ ارض پر انسانی زندگی کی ابتدا پانچ لاکھ 50سال قبل ہوئی تھی لیکن تازہ ترین شواہد کے مطابق اس کرہ ارض پر انسانی زندگی آج سے تقریباً چالیس لاکھ سال پہلے نمودار ہوئی۔ ابتدائی دور میں آبادی بہت کم تھی۔ ایک فرد کو اپنی خوراک کی ضروریات پوری کرنے کیلئے دو مربع میل علاقہ درکار تھا۔ اگر اس چیز کو بنیاد بنایا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ اس وقت انسانی آبادی ایک کروڑ سے زائد نہ تھی۔ اب دنیا کی آبادی جو اقوام متحدہ کے ایک تخمینے کے مطابق 1970میں4.3ارب تھی، پھر ساڑھے پانچ ارب کے لگ بھگ ہوئی اور جولائی تک ساڑھے سات ارب کے لگ بھگ ہو جائے گی۔ یوں تو آبادی میں تیز رفتاری سے اضافے کی کئی وجوہات ہیں لیکن بڑی وجہ شرح اموات اور شرح پیدائش کا فرق ہے۔ دنیا کے بیشتر ممالک میں بہتر طبی سہولتیں میسر ہونے کی بنا پر شرح اموات میں قابلِ قدر حد تک کمی واقع ہوئی ہے مگر دوسری طرف شرح پیدائش میں اضافہ ہوا ہے۔

برطانوی ماہر آبادی تھامس رابرٹ کے مطابق جس کا ذکر اس نے اپنی کتاب ’’آبادی کے اصول‘‘ میں کیا ہے، ’’اگر کسی ملک کی آبادی ایک فیصد سالانہ کی شرح سے بڑھے گی تو اسے دوگنا ہونے کیلئے 69سال کا عرصہ درکار ہو گا۔ دو فیصد اضافے کی شرح سے 35سال لگیں گے۔ تین فیصد سالانہ کی شرح سے 23سال بعد اور اگر آبادی چار فیصد سالانہ کی شرح سے بڑھے گی تو 17سال بعد دو گنا ہو جائے گی۔ اس فارمولے کی رو سے برطانیہ کی آبادی 460سال کے بعد چین کی 57سال کے بعد پاکستان کی 22سال اور کینیا کی آبادی 17سال کے بعد دو گنا ہونے جا رہی ہے۔

کچھ ماہرین کے مطابق دنیا کی آبادی میں ہر سال آٹھ کروڑ اور کچھ کے بقول ساڑھے آٹھ کروڑ افراد کا اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ اضافہ ترقی پذیر ممالک میں بہت نمایاں ہے جبکہ ہر سال اس قدر آبادی کا بوجھ برداشت کرنا ان ممالک کی بساط سے باہر ہے۔ اگر کسی طرح ٹیکنالوجی میں ترقی اور سرمائے میں اضافے کی وجہ سے پیداواری صلاحیتوں میں کچھ بہتری ہو بھی جائے تو بہت کم وقت میں آبادی کا بڑھتا ہوا طوفان اس پر غالب آ جاتا ہے جس سے طلب اور رسد میں توازن قائم رکھنا محال ہو جاتا ہے۔ بعض ترقی پذیر ممالک میں افزائش آبادی کی شرح 4فیصد سالانہ تک ہے لیکن اس کے برعکس ترقی یافتہ ممالک میں شرح ایک فیصد سے بھی کم ہے جبکہ دنیا کی تقریباً 77فیصد آبادی ترقی پذیر ممالک میں رہائش پذیر ہے اور ان کے باشندوں کی متوقع عمر اوسطاً 52سال تک ہے۔ جبکہ ترقی یافتہ ممالک کے باشندے کی اوسط عمر 75سال سے زائد تک جا پہنچی ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں بچوں کی زیادہ تعداد اور کم عمری کی اموات سے اس حقیقت کی نشاندہی ہوتی ہے کہ کمانے والوں اور ان پر انحصار کرنے والوں کی تعداد میں توازن نہیں ہے۔ علاوہ ازیں طبی سہولتوں کا فقدان ناخواندگی اور دوسری کئی وجوہات ایسی ہیں جن کی وجہ سے شرح اموات بلند ہے۔

دنیا کی آبادی میں اضافہ 97فیصد ایشیائی، افریقی اور لاطینی امریکہ کے ممالک میں ہو رہا ہے۔ افریقی ممالک میں سالانہ اضافہ کی شرح 3فیصد ہے جبکہ ایشیائی ممالک میں 2.8فیصد۔ پاکستان میں یہ اضافہ 3.2فیصد تک جا پہنچا ہے جبکہ برصغیر میں یہ اضافہ مجموعی طور پر 2.3فیصد ہے۔ مجموعی طور پر ایشیا میں اضافہ آبادی 1.9فیصد سالانہ ہے جبکہ یورپ میں یہی اضافہ اوسط 0.25فیصد ہے۔ دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے شہروں میں سے سات ایشیا میں ہیں۔ عرب ممالک میں آبادی میں اضافہ وہاں کی شرح باآوری کی زیادتی کی بنا پر ہے۔ جہاں شرح اضافہ 3فیصد سالانہ ہے۔ اس کے برعکس یورپ میں 1465کے بعد سے خواتین میں کم بچوں کو جنم دینے کے رواج کے باعث یہاں شرح آبادی 0.25سے کم ہو کر 0.24تک آ گئی ہے جبکہ پاکستان میں یہ شرح 6.6فی عورت ہے۔ 1960کے بعد دنیا میں خاندانی منصوبہ بندی کے طور طریقوں کو اپنانے کا عمل تیز ہوا ہے۔ بیشتر ممالک میں خاندانی منصوبہ بندی کو ابتدائی صحت کا حصہ بنایا گیا ہے۔ میرے حساب سے خاندانی منصوبہ بندی کا مطلب محض مانع حمل ادویات یا دوسرے طریقوں کا عام کرنا نہیں بلکہ یہ ایک طرزِ زندگی اور طرزِ معاشرت ہے۔ ایک ایسا ماحول مہیا کرنا جہاں سب اس کی افادیت کے قائل ہو سکیں۔ ورنہ آبادی میں اضافہ جہاں قدرتی وسائل کو تیزی سے کھا رہا ہے وہاں انسانی زندگی کے معیار کو گھٹا بھی رہا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین