• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ٹرمپ کشمیر ،فیٹف پر مدد نہیں کرینگے، پاک میڈیا قابل فخر ،سینیٹرز

کراچی (جنگ نیوز) پروگرام ’جیو پارلیمنٹ‘ میں میزبان ارشد وحید چوہدری سے خطے کی صورتحال ،خارجہ پالیسی اورمیڈیا کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے سینیٹ کی خارجہ امور کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر مشاہدحسین سید نے کہا کہ ٹرمپ مسئلہ کشمیر اور ایف اے ٹی ایف پر کوئی مدد نہیں کریں گے،ہمیں میڈیا پر فخر ہے ،سینیٹر روبینہ خالد نے کہا کہ وزیراعظم پارلیمان کو بتائیں کہ خارجہ پالیسی میں کیا تبدیلی کی ہے ،ہم میڈیا کے کردار کو سراہتے ہیں ،حکومت کے اتحادی سینیٹر انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ خارجہ پالیسی میں کشمیر اولین ترجیح ہے،میڈیا کو نہیں سمجھنا چاہئے کہ ہم ان کی بقا کے لئے خطرہ ہیں ۔مشاہد حسین سید کا کہنا تھاکہ ٹرمپ کا ثالثی کی کوشش کا اعلان تیسری مرتبہ تھا لیکن ایشو یہ ہے کہ ٹرمپ کو نظریہ ضرورت کے تحت پاکستان کی ضرورت ہے ،فروری میں ٹرمپ ہندوستان کا دورہ کررہا ہے ، پاکستان نہیں آرہا ہے کیونکہ امریکا کی پہلی محبت انڈیا ہے۔ روبینہ خالد کا کہنا تھا کہ پانچ فروری کو ہم یوم کشمیر منانے جارہے ہیں لیکن عالمی طور پر ہم نے کچھ نہیں کیا ہے پھر یہ دن کس منہ سے مناسکیں گے۔انوار الحق کاکڑ نے کہا بھارت میں ہندوتوا کو فروغ ملا ہے ،کشمیر کا ایشو میراتھن ہے اس میں ہمیں آہستہ آہستہ چلنا ہوگا ،ہم سب کو بحیثیت قوم رجسٹرڈ ہونا چاہئے ۔ عمران خان کے اخبار ناں پڑھنے اور ٹاک شوز ناں دیکھنے کے مشورے پر مشاہد حسین سید کا کہنا تھا کہ ہم 30 سال پہلے والے دور میں واپس چلے گئے ہیں جہاں سرکاری چینل سب اچھا ہے کہتا رہتا تھا۔انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ مجھے لگ رہا ہے کہ وزیراعظم نے جو کہا ہے وہ سیاق و سباق سے ہٹ کر بات کہی گئی ہے یا سمجھی گئی ہے ، ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ پر حکومت اپنا موقف دے سکتی ہے کہ یہ بیلنس نہیں ہے اور اس کی ساکھ درست نہیں ہے ،تاہم تنقید کا حق نہیں چھینا جاسکتا ہے ۔ میڈیا اگر اپوزیشن کے رول کو ری پلیس کرنا شروع کردے تو یہ صحت مندانہ سرگرمی نہ ہوگی ۔ ناں یہ میڈیا کے لئے درست ہے ناں یہ جمہوری نظام کے لئے درست ہے ۔ ناں حکومت اور ناں ہی اپوزیشن کے لئے درست ہے ۔ پیپلز پارٹی کی سینیٹر روبینہ خالد کا میڈیا پر بات کرتے ہوئے کا کہنا تھا کہ سب سے زیادہ تو میڈیا کی تنقید پیپلز پارٹی کو سہنا پڑی ہے ہم سمجھتے ہیں کہ جس طرح ہمارے اسٹینڈنگ کمیٹی ہیں اسی طرح سے میڈیا بھی ایک اوور سائیڈ ہے ،بجائے اس کے کہ اخبار نہ دیکھا جائے میں سمجھتی ہوں کہ اخبار دن میں دو دفعہ پڑھا جائے اور ان مسائل کی جانب دیکھا جائے جو عوام کو درپیش ہیں ۔ تاہم اگر اس میں کوئی منفی چیزیں موجود ہیں تو اس کے طریقہ کار ہے یہ نہیں کہ اس چیز کو بند کردیا جائے یہ کوئی حل نہیں ہوتا ۔ اس طرح نہیں ہوسکتا کہ وزیراعظم کو اگر کوئی چیز پسند نہیں تو وہ بند کردیں ۔ انہوں نے انور کاکڑ کی بات سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا اپوزیشن کا رول ادا نہیں کررہا بلکہ میں تو میڈیا کو کریڈٹ دوں گی کہ وہ برابری کی بنیاد پر اپوزیشن اور حکومت دونوں کو تنقید کا نشانہ بناتا ہے ہمیں تو یہ بھی گلہ ہے کہ میڈیا نے گزشتہ حکومت میں اس وقت کی حکومت کا بہت ساتھ دیا ہے جس کا خمیازہ اب وہ بھگت رہے ہیں اس وقت اپوزیشن اتنے مسائل میں نہیں ہے جتنا کہ میڈیا ہے ۔ تاہم پھر بھی میں میڈیا کے کردار کو سراہتی ہوں۔
تازہ ترین