ہر چند کہ شبنم گھو ش‘‘ ،60کی دہائی میں متعارف ہوئیں اور اپنی شان دار کامیابیوں کا آغاز پہلی اردو فلم سے کر چکی تھیں۔ اسی دوران چندا، تلاش، عندلیب، جہاں تم وہاں ہم ،آسرا اور سمندر جیسی فلموں نے باکس آفس پر ان کی اہمیت اور مقام کو مستحکم کرنے میں معاونت کی، جب کہ 70کی دہائی میں ان کی باکس آفس پر پے درپے بڑی بڑی اور غیر معمولی کامیابیوں کا سلسلہ چل نکلا۔
اسی سلسلے میں ان کی بھرپور پرفارمنس سے آراستہ فلم ’’دوستی‘‘ نے باکس آفس پر پاکستان کی دوسری ڈائمنڈ جوبلی فلم کے اعزاز سے ہمکنار ہو کر شبنم کو صف اول کی ہیروئنز میں سب سے آگے لا کھڑا کیا۔ پھر کیا تھا 70کی پوری دہائی میں وہ نمبر ون ہیروئن کی حیثیت سے پاکستان کے تینوں سپر ہیروز محمد علی، ندیم، اور وحید مراد کے ساتھ بہترین پرفارمنس اور مثالی کامیابیوں کے نئے سنگِ میل عبور کرتی ہوئی آگے بڑھتی رہیں۔ غرض یہ کہ 70 کی دہائی میں زیبا بیگم کی فلمیں بھی باکس آفس پر معرکے سر کر رہی تھیں۔
پرفارمنس کے میدان میں بھی وہ پیچھے نہ تھیں، لیکن شبنم کاسٹ ویلیو کے ساتھ اعتبار سے ان سے ایک قدم آگے تھیں۔ ایک جانب زیبا جی کی انسان اور آدمی،دامن اور چنگاری ،شمع،نوکر ،آرزو، بن بادل برسات، محبت زندگی ہے،دشمن ،پھول میرے گلشن کا ،جب جب پھول کھلے اور بھروسہ جیسی فلمیں گولڈن جوبلی کے اہداف کو چھو رہی تھیں ،تو دوسری جانب شبنم جی آس، گھرانہ ،آئینہ اور صورت، شمع محبت ،زینت، انتظار، بھول، اچھے میاں، ملن، انتخاب، میرے ہمسفر ، سہیلی، نیا انداز ،گولڈن جوبلی، جب کہ دوستی ،انمول ،تلاش، اناڑی، پہچان ،آج اور کل اور اف یہ بیویاں جیسی فلمیں ڈائمنڈجوبلی جیسی غیر معمولی کامیابیوں سے ہمکنار ہو رہی تھیں۔
گو کہ 70کی دہائی میں نشو، ممتاز، آسیہ، سنگیتا اور کویتا بھی اردو سینما پر اپنا اثر و نفوذ قائم کر رہی تھیں، لیکن اس میں سے کوئی بھی شبنم کے لیے چیلنجنگ پوزیشن میں نہ آسکیں۔ تاہم جب بابرہ شریف نے فلم انتظار کی وساطت سے بطور ساتھی اداکارہ انٹری دی، تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ چھوٹے قد کی فن کارہ شبنم کے لیے ایک بڑا چیلنج بن کر ابھرے گی۔ بھول، انتظار، آرزو، حقیقت، بے مثال میں بابرہ کی کردار نگاری ثانوی نوعیت کی تھی، لیکن میرا نام ہے محبت 1975سے بابرہ شریف نے فلم میکرز ،ناقدین اور فلم ویورز کو چونکا دیا۔
ایک نہایت کم عمر، معصومانہ خدوخال کی مالک جس کا سراپا کسی حسین گڑیا سے مشابہ تھا، ہر دیکھنے والے کے دل میں گھر اور اثر کر گئی ،نذر شباب کی ’’شبانہ ‘‘ کی وساطت سے اس کا فنی رچائو اور ٹیلنٹ مزید نکھر کر سامنے آیا اور اس فلم سے بابرہ شریف نے بہترین اداکارہ برائے 1976کا نگار ایوارڈ بھی حاصل کر لیا۔70کی دہائی یں متعارف ہونے والی ہیروئنز میں سے بابرہ نے شبنم کے مقابل نامزد ہو کر ملک کا سب سے بڑا اعزاز اپنے نام کر لیا۔ بابرہ کی جانب سے شبنم کے فلمی اقتدار کو پہلی تھریٹ تھی، لیکن باکس آفس پر شبنم کے نام کا سکہ پوری چمک دمک کے ساتھ چل رہا تھا۔
تاہم1977میں جب حسن عسکری کی معرکتہ آلارا تخلیق’’سلاخیں‘‘ منظر عام پر آئی، تو بابرہ شریف کی جہاں حیرت کردار نگاری نے سب کو انگشت بدنداں کر دیا۔ اس فلم میں ان کا دوہرا کردار تھا، ایک زمانے کے ہاتھوں رندھی ہوئی کچلی ہوئی کال گرل، اور دوسری نہایت معصوم اور شوخ و چنچل لڑکی۔ بابرہ کے ان کرداروں میں فلم ویورز نے فن اداکاری کے نئے جہاں دریافت ہوتے دیکھے۔ شائقین فلم فطری کردار نگاری کے حیران کن مظاہر سے آشنا ہوئے۔
سلاخیں ،باکس آفس پر شان دار بزنس کے ساتھ ’’گولڈن جویلی‘‘ سے ہمکنار ہوئی اور یہ طے ہو گیا ہے کہ ،80کی دہائی میں نمبر ون ہیروئنز کے سنگھا سن پر صرف ایک ہیروئن نہیں بلکہ 2ہیروئنز براجمان ہو ں گی، لیکن1980 کے پورے سال شبنم کی فلموں اور کامیابیوں کا سورج پوری آب و تاب کے ساتھ چمکتا رہا۔ سال کا آغاز ہی ان کی بلاک بسٹر فلم ’’بندش‘‘ سے ہوا۔ اسی سال کے اگلے مہینے یعنی فروری میں پاکستانی سینما کی تاریخ کی دوسری بڑی کام یاب اردو فلم’’ہم دونوں ‘‘ منظر عام پر آ گئی۔ بندش میں وہ ایک تعلیم یافتہ ائر ہوسٹس کے روپ میں جلوہ گر تھیں تو ’’ہم دونوں ‘‘ میں ایک سادہ لیکن شوخ دیہاتی حسینہ کے رول میں اپنے فن کے بہترین مظاہر پیش کرتی نظر آئیں۔
نذر الاسلام دی گریٹ کی ٹین ایجر محبت اور تعلیم کے موضوع پر مبنی منفرد فلم ’’نہیں ابھی نہیں ‘‘ نہ صرف گولڈن جوبلی ہٹ ثابت ہوئی، بلکہ شبنم کی کردار نگاری کے تناظر میں بھی خاص اہمیت کی حامل رہی۔ اسی سال کی ریلیز ان کی ’’پیاری ‘‘ اور ’’رشتہ ‘‘ بھی گولڈن جوبلی ہٹ ثابت ہوئیں۔ اس سال بابرہ شریف کی صائمہ کے علاوہ کوئی بگ ہٹ سامنے نہیں آ سکی۔ تاہم 1981میں شبنم کی آئوٹ سٹینڈنگ پرفارمنس سے آراستہ یادگار فلم ’’قربانی‘‘ شبنم کے کریڈٹ پر سال کی واحد سپر ہٹ فلم تھی۔ اس کے برعکس 1981کے بارہ میہنوں میں بابرہ کی فلموں کا باکس آفس پر راج رہا۔ سال کی پہلی ریلیز ’’منزل ‘‘ بابرہ ایک سپر ڈوپر ہٹ فلم کی حیثیت سے سامنے آئی۔ پھر ’’لاجواب ‘‘ ،ڈائمنڈ جوبلی، بڑا آدمی، گولڈن جوبلی ،الہ دین ، گولڈن جوبلی اور یہ زمانہ اور ہے ڈائمنڈ جوبلی جیسے اعزاز کی حاصل ثابت ہوئیں۔
یوں اگر 1980 میں بابرہ شریف کی برتری نظر آئی ، پھر اگلے برسوں میں یہی دو ہیروئنز پاکستانی سینما پر اور فلم بینوں کے دلوں پر راج کرتی رہیں کہ بابرہ کی سنگدل ،مہربانی، اک دن بہو کا، ٹینا، اک دوجے کےلیے، مس کولمبو، ہانگ کانگ کے شعلے، تیرے بنا کیا جینا، کا جادو باکس آفس پر سر چڑھ کر بولا، تو شبنم کی نصیب، ذرا سی بات، دوریاں، نام میرا بدنام، خُوب صورت ،دہلیز ،کبھی الوداع نہ کہنا، دیوانگی ،فیصلہ ،شادی مگر آدھی، نے بھی خُوب پیسا کمایا۔ یُوں80 کی دہائی میں یہ دونوں فن کارائیں ،باکس آفس پر اپنی مضبوط پوزیشن کے ساتھ ایک دوسرے کے مدِمقابل نظر آئیں۔ اب اگر ان کا فنی اعتبار سے تقابلی جائزہ لیا جائے تو اس میدان میں بھی دونوں ہی بھرپور کارکردگی کی حامل نظر آتی ہیں۔
لیکن باوجود اس کے کہ شبنم کی نسبت بابرہ کا طرز اداکاری زیادہ فطری تھا۔اس کا رونا، اس کا ہنسنا، اس کا شرارتی انداز، اس کی جذبات نگاری گویا ہر ایکٹ میں وہ پرفیکٹ نظر آتی تھیں، جب کہ شبنم کے رونے دھونے کے مناظر میں ان کی پرفارمنس کے انداز کو ایک طبقے نےاکثر کوالٹی کو زمرے سے باہر قرار دیا۔ لیکن اس واقعاتی حقیقت کے باوجود پاکستان کی اردو سینما کی تاریخ میں فلم بینوں کی سب سے بڑی اکثریت کی مقبول ترین اور پسندیدہ ترین فن کار ہونے کا اعزاز شبنم ہی کو حاصل ہے۔
حالاں کہ یہ اعتراف قلم بند کرتے ہوئے ہمارے پیش نظر صبیحہ خانم، نیر سلطانہ ،مسرت نٓذیر، رانی اور شمیم آرا جیسی عظیم اور مایہ ناز ہیروئنز کے نام بھی ہیں، مگر ہمیں یہ بھی اعتراف ہے کہ’’ شبنم‘‘ ہی وہ سب سے زیادہ خوش نصیب ہیروبن ہیں کہ جن کے حصے میں تمام ہیروئنز سے زیادہ ہمہ جہت اور معاشرے کے مختلف طبقات کی نمائندہ عورت کے کرداروں کی ادائیگی کے بھر پور مواقع بہترین ڈائریکٹرز کی نگرانی میں کرنے کو ملے۔ اس میں بھی شبہ نہیں کہ شبنم ایک بہترین پروفیشنل اور اپنے کام سے فل کمیٹیڈ فن کارہ رہی ہیں۔
ان کے حصے میں جس نوعیت کا بھی کردار آیا، انہوں نے اس کردار کو خود پر طاری کر کے پوری یکسوئی سے اسے ادا کرنے کی سعی کی۔ رقص کے شعبے میں وہ کمزور تھیں، لیکن رقاصہ کے کردار میں بھی جان لڑا کر کام کیا۔ جذباتی کرداروں میں روتے ہوئے کبھی کبھی ہوٹ بھی ہوئیں، لیکن اپنی اعلیٰ ڈرامائی پرفارمنس سے ویورز کو دلگداز اور اشکبار بھی کیا ۔ ’’پھڈے باز لڑکی کا رول ہو یا انقلابی بہو کا۔ ہارڈ ورکر جرنلسٹ کی تمثیل ہو یا خاتون وکیل کا کردار مظلوم ماں ہو یا پگلی لڑکی، وہ ہر کردار کی ادائیگی میں پوری طرح ڈوب جاتیں اور مخلص نظر آتیں۔
ہر فن کار کے کریڈیٹ پر بہت سا قابل ذکر کام ہوتا ہے، لیکن ان کے کسی ایک کام کو کسی خاص اہمیت اور امیتاز کے پیش نظر ’’ماسٹر پیس ورک‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ شبنم کے کریڈٹ پر بہت سے یاد گار اور دلوں میں نقش ہو جانےوالا کام ہے۔ لیکن کہیں اگر ماسٹر پیس تلاش کیا جائے تو بلا تشکیک حسن عسکری کی شاہ کار تخلیق ’’دوریاں‘‘ میں شبنم کے کام کو ان کی فنی زندگی کا سب سے بڑا افتخار، سب سے اعلی تمثیل نگاری کا نقطہ کمال قرار دے سکتے ہیں۔
شبنم کی حقیقی حریف بابرہ شریف کے میتھڈ آف ایکٹنگ پر بات کی جائے تو تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان کی طرز اداکاری میں فرسٹ لیڈی آف پاکستانی سلور اسکرین صبیحہ خانم کے اسٹائل کی جھلکیاں جا بہ جا نظر آتی رہیں۔ بالخصوص جب بابرہ نے اپنی فنی زندگی کا سب سے زیادہ مشکل اور چیلنجنگ رول فلم’’سلاخیں‘‘ کے لیے پلے کیا تو انہوں نے عابدہ کے روپ کو اک گناہ اور سہی کی ’’ممی‘‘ کی بوڑی لینگویج اور اسی طرز پر بس ایکسپریشنز کا استعمال کیا ۔
حتیٰ کے سگریٹ پینے کا انداز بھی انہی سے ایڈاپٹ کیا ۔ ناقدین کے نزدیک بابرہ شریف کی پرفارمنس میں شبنم کی بہ نسبت زیادہ ریالٹی اور زیادہ فطری پن پایا گیا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ باکس آفس پر شبنم کا جو تن تنہا نمبرون کا اسٹیشن تھا اس میں صرف اور صرف بابرہ ہی حصہ دار بنی، یعنی 70 کی دہائی میں صرف شبنم نمبرون تھیں، لیکن اسی کی دہائی میں ان کے اس اسٹیشن میں بابرہ شراکت دار ٹہریں، لیکن عوام میں مقبولیت اور پذیرائی کا جو اعزاز شبنم نے پایا، وہ اس سے زیادہ بلند پایہ ہیروئنز کو بھی نصیب نہ ہوسکا۔