کسی بھی سیاسی جماعت اور اُس کی حکومت کا سب سے بڑا سہارا اور نعرہ عوام ہوتے ہیں۔ عوام میں دو قسمیں ہوتی ہیں ہیں ایک معروف اور دوسرے غیر معروف۔ غیر معروف سادہ لوح عوام ہوتے ہیں جو ووٹ دیتے ہیں اور معروف عوام وہ جہاندیدہ لوگ ہوتے ہیں جو اُن ووٹ دینے والوں کے ذہن بناتے ہیں۔ پی ٹی آئی کو ان دونوں قسم کے عوام میں شدید مقبولیت حاصل ہے اُس کی دو بڑی وجوہات ہیں ایک تو یہ کہ پی ٹی آئی کی متحرک سوشل میڈیا ٹیم نے غیرمعروف سادہ لوح عوام کو اپنے ساتھ ملایا دوسرے مشہور و معروف عوام کو پی ٹی آئی کی لیڈرشپ نے اپنے ساتھ لیکر چلنا شروع کیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پی ٹی آئی مختصر عرصے میں مقبول ترین سیاسی جماعت بن گئی۔ سوشل میڈیا پر غیر معروف عوام کی حد تک یہ کامیابی مریم نواز کو بھی ملی مگر پاکستان کی سب سے پرانی اور تجربہ کار سیاسی جماعت پیپلز پارٹی اِس معاملے میں صفر یا شاید صفر سے بھی پیچھے ہے حالانکہ اِس جماعت کی قیادت تو مکمل طور پر ایک نوجوان کے ہاتھ میں ہے جو کہ دنیا کی بہترین درسگاہ سے تعلیم یافتہ اور مستقبل پر نظر رکھنے والا ایک بہترین ذہن ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ بدترین کرپشن کے الزامات کا سامنا کرنے والی جماعت جس کے ایک موقع پر تقریباً تمام ہی بڑے جیل جا چکے تھے معروف اور غیرمعروف عوام کو اپنے ساتھ لیکر چلنے کے لیے جنگی بنیادوں پر فیصلے کرتی اور اُن پر عمل کرتی تاکہ کرپشن اور نااہل حکومت کے لگے الزامات کو ختم کیا جا سکتا مگر سندھ کی یہ بدقسمتی ہے کہ اُس پر برسوں سے حکومت کرنے والی جماعت ابھی تک تعلقاتِ عامہ کے معاملے میں کوئی موثر کارکردگی نہیں دکھا پائی۔ یقین کریں آج بھی پاکستان کی سیاست کا سب سے موثر نعرہ جئے بھٹو ہے مگر آپ اُسے عوام تک پہنچا نہیں پا رہے۔ اس تحریر کو پڑھنے کا وقت کسی وزیر کسی لیڈر کے پاس نہیں ہوگا کیونکہ وہ اس طرح کی سوچ رکھتے ہی نہیں کہ عوام کی ان دونوں قسموں کو ساتھ ملاکر آگے بڑھا جائے۔ پوری سندھ حکومت بس روزانہ کی بنیاد پر لگی آگ بجھانے میں لگی ہوئی ہے، کوئی ایسی پلاننگ نہیں جو لمبے عرصے کے لئے کی جارہی ہو۔ دراصل یہ سوچ آتی ہے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے سے اور بدقسمتی یہ ہے کہ اِس وقت سندھ حکومت کے وزیراعلیٰ اور شاید ایک دو وزیروں، مشیروں کو چھوڑ کر ماشاء اللّٰہ باقی سب شاید انگریزی زبان میں ایک خط بھی نہیں لکھ سکتے تو میڈیا یا سوشل میڈیا کی اہمیت کو کیا سمجھیں گے۔ دوسرے صوبوں میں اِس سے زیادہ بُرا حال ہے مگر یہاں مقصد صرف سندھ حکومت کے متعلق بات کرنا ہے اس لیے ہم اُن تک محدود ہیں۔ اِس تحریر کا مقصد کسی کی کوئی تضحیک کرنا نہیں ہے بلکہ PPPکی قیادت کو جگانا اور یہ سمجھانا مقصود ہے کہ حکومتوں کی کامیابی کے لیے عوام کی دونوں اقسام کو اپنے ساتھ انگیج کرنا کتنا ضروری ہے۔ میڈیا اور سوشل میڈیا پر منظم انداز میں بیانیہ بلند کرنا ضروری ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے تو اس مختصر عرصے میں زیادہ تر محاذ پر فتح ہی صرف اپنے بیانیے کو عوام کے ذہنوں میں بٹھا کر حاصل کر لی۔ صرف عمران خان کو ہی دیکھیں، اقتدار کے ایوانوں تک صرف اُن کا بیانیہ اُنہیں لے گیا۔ آج سندھ حکومت کے پاس اکثریت تو ہے مگر عوامی حمایت ویسی نہیں جیسی ہونا چاہئے تھی کیونکہ اکثریت نے جو ووٹ حاصل کیے ہیں وہ ذات، زبان اور قبیلے کی بنیاد پر کیے ہیں مگر دورِ جدید میں یہ سلسلہ زیادہ طویل عرصے تک نہیں چل سکتا کیونکہ سوشل میڈیا بہت تیزی سے اپنا اثر دکھا رہا ہے اور جلد ہی اُن گھروں تک پہنچ جائے گا جہاں سوشل میڈیا کا ابھی وجود بھی نہیں۔ موجودہ سندھ حکومت نے صحت، قانون اور بلدیات میں چند کام انتہائی بہترین کیے ہیں جس کا عوام کو بہت فائدہ ہے مگر اُس کی تشہیر کوئی نہیں اس لئے سندھ کے حکمرانوں کو اپنا انداز بدلنا ہوگا۔ ایک بڑی ورک فورس صرف بیانیہ کو عام کرنے کے لئے ترتیب دینا ہوگی۔ اسی طرح دنیا کی بڑی سیاسی جماعتیں کام کررہی ہیں۔ سوشل میڈیا اور میڈیا کی طاقت سے بھرپور فائدہ اٹھانا ہوگا ایک ذہین وزیراعلیٰ کو مشہور عوامی نمائندوں کے ساتھ بھی گھلنا ملنا ہوگا۔ لوگ اُن سے ملنا چاہتے ہیں اور اُن کے ساتھ مل کر سندھ کی بہتری کے لئے کام بھی کرنا چاہتے ہیں۔ عوام میں اثرورسوخ رکھنے والے لوگوں کو دوست بنانا ہوگا اور اُن کی شہرت سے سندھ کی بہتری کے لئے فائدہ اٹھانا ہوگا۔ یقین کریں یہ سب عوام کی بہتری کے لئے بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں مگر اپنے اور ان کے درمیان آپ نے اتنے فاصلے بڑھا دیے ہیں کہ کچھ نہ جاننے کی وجہ سے یہ آپ کا دفاع نہیں کر پاتے۔ یاد رکھیں اگر عوام دل سے آپ کے ساتھ نہیں تو پھر شہید محترمہ بینظیر بھٹو کے نعرے ’’جمہوریت سب سے بڑا انتقام‘‘ کے سب سے بڑے دشمن ہیں کیونکہ ووٹ تو ڈکٹیٹر بھی لے لیتا ہے مگر حقیقی عوامی نمائندہ وہی ہوتا ہے جو عوام کے دلوں پر راج کرتا ہو۔ فیصلہ کرنا آپ کا کام ہے۔