• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں معذور بچوں کی تعداد 9کروڑ 90لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ ان کی معذوری کے باعث خدشہ ہے کہ یہ بچے کہیں تعلیم جیسے بنیادی حق سے محروم نہ رہ جائیں۔ اقوامِ متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف 2030ء میں ایک ہدف تمام انسانوں کے لیے معیاری اور مساوی تعلیم کا حصول بھی شامل ہے۔ البتہ، ایجوکیشن کمیشن 2016ء کی رپورٹ کے مطابق کم اور درمیانی آمدنی والے ملکوں میں 3کروڑ 25لاکھ معذور بچے اسکول سے باہر ہیں۔ ورلڈ رپورٹ آن ڈِس ایبلیٹی (2011ء) کے مطابق، دنیا کے ہر 20بچوں میں ایک معذور ہے۔

تعلیم ہر بچے کے مستقبل کو سنوارتی ہے، انھیں خودمختار طور طریقوں سے زندگی گزارنےکے علاوہ پیشہ ورانہ اور سماجی زندگی کے لیے تیار کرتی ہے۔ ہرچندکہ تعلیم ہر انسان کا بنیادی حق ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ وہ افراد جو کسی نہ کسی جسمانی یا ذہنی معذوری کا شکار ہیں، ان کی تعلیم کے حصول کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے پر توجہ نہیں دی جارہی۔ بہ الفاظِ دیگر، حکومتیں اور شعبہ تعلیم سے وابستہ افراد اور ادارے اپنے لوگوں کو ان کا بنیادی حق دینے میں ناکام ہورہے ہیں۔

معذور بچوں کے ساتھ امتیازی سلوک نہ صرف ایک سماجی ناانصافی ہے بلکہ یہ بنیادی انسانی حقوق کے ساتھ ایک گھناؤنا مذاق اور سنگین معاشی تشویش بھی ہے۔

انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن رپورٹ

انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق مختلف ممالک کی جانب سے معذور افراد کو اپنی افرادی قوت میں شامل کرنے میں ناکامی کی وجہ سے ان ملکوں کو اپنی سالانہ مجموعی پیداوار میں 3سے 7فیصد تک نقصان ہورہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق، دنیا میں تقریباً ایک ارب افراد کسی نہ کسی قسم کی معذوری کا شکار ہیں، جو دنیا کی مجموعی آبادی کا تقریباً 15فیصد بنتے ہیں اور ان میں سے 80فیصد افراد کام کرنے کی عمر کے ہیں۔ تاہم، اکثر معذور افراد کو باعزت روزگار کے مواقع دستیاب نہیں ہوتے۔ معذور افراد، خصوصاً معذور خواتین کو افرادی قوت کی مارکیٹ میں بڑے پیمانے پر رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

عالمی ادارہ صحت کیا کہتا ہے؟

جب تک جامع منصوبہ بندی کے ساتھ ایک ایسا منظم نظام وضع نہیں کیا جاتا، معذور افراد اور مجموعی معاشرے کی ترقی اور سیکھنے کا عمل شدید طور پر رکاوٹوں کا شکار رہے گا۔ ایسے ماحول میں بہت کم معذور افراد کو اعلیٰ تعلیم و تربیت حاصل کرنے کا موقع ملتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق، معذور بچوں کوکسی نہ کسی معاونت فراہم کرنے والے آلہ کی ضرورت ہوتی ہے، تاہم بدقسمتی سےمحض 5سے 15فی صد بچوں کی ان تک دسترس ہوپاتی ہے۔ 

مزید برآں، ورلڈ بلائنڈ یونین کے مطابق، کُلی یا جزوری طور پر بینائی سے محروم صرف ایک فی صد بچوں کو سیکھنے سکھانے کا مواد دستیاب ہوپاتا ہے۔ اس وجہ سے معذور افراد کے تعلیمی اداروں میں نہ صرف داخلہ کی شرح انتہائی کم ہے بلکہ ان کے ’ڈراپ آؤٹ‘ ہونے کی شرح بھی بہت زیادہ ہے۔ مجموعی طور پر اس کا ہمارے معاشروں اور معیشتوں پر جو اثر ہورہا ہے، اسے یا تو کم کرکے پیش کیا جاتا ہے یا پھر بالکل ہی نظرانداز کردیا جاتا ہے۔

ایسے میں حکومتوں اور ان کے ’ڈیویلپمنٹ پارٹنرز‘ کے لیے یہ بات انتہائی اہمیت اختیار کرگئی ہے کہ وہ اس ’تعلیمی بحران‘ سے نمٹنے کے لیے حکمتِ عملی بنائیں اور اس کے لیے وسائل مختص کریں۔ لائٹ فار دی ورلڈ نامی ادارے کے ڈائریکٹر، یٹنیبرش نگوسائی خود بھی جزوی طور پر آنکھوں کی بینائی سے محروم ہیں۔ 

ان کا ادارہ معذور افراد کے حقوق کے لیے کام کرتا ہے۔ نگوسائی کا تعلق افریقا کے غریب ملک ایتھوپیا سے ہے۔ ان کی والدہ ایک حوصلہ مند خاتون تھیں کہ انھوں نے اپنے بچے کو اس کی معذوری کے باعث معاشرے سے الگ تھلگ رکھنے کے بجائے اس کی تعلیم پر توجہ دی۔ اس کے نتیجے میں وہ قانون میں گریجویٹ کرنے میں کامیاب رہے۔ 

آج وہ معذور افراد اور خواتین کے لیے ایک طاقتور ادارہ چلاتے ہیں اور ان کی اپنی ایک خوبصورت فیملی ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’ترقی پذیر ملکوں میں کم لاگت اور ’تعلیم سب کے لیے‘والا نظام لاگو کرنے کا ایک ہی حل ہے کہ ملکی سطح پر تعلیم کا ایک ہی طریقہ نظام متعارف کرایا جائے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ معذور بچوں کے لیے علیحدہ تعلیمی اداروں کے بجائے، انھیں بھی روایتی تعلیمی اداروں میں نارمل بچوں کے ساتھ تعلیم دی جائے، جہاں وہ بہتر سماجی، تعلیمی، طبی اور معاشی نتائج دے سکیں گے‘‘۔ پاکستان میں مرکزی دھارے کے کسی اسکول میں تعلیم حاصل کرنے والے معذور بچے کے مقابلے میں، اسپیشل اسکول میں فی طالب علم لاگت 15گنا زائد ہے۔

سب کے لیے ایک تعلیمی نظام کے نفاذ سے خصوصاً اسکول جانے والی لڑکیوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوسکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا کے کئی پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک میں لڑکیوں کو گھر پر رہنے اور چھوٹے بہن بھائیوں یا معذور بہن بھائیوں کا خیال رکھنے کی ذمہ داری دی جاتی ہے۔ 

جب معذور بچوں کو مرکزی دھارے کے تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کیلئے بھیجا جائے گا تو اس کے نتیجے میں ان کی وہ بہنیں بھی اسکول جانے لگیں گی، جنھیں ان کی دیکھ بھال کے لیے گھر پر رہنا پڑتا ہے۔ معذور بچوں کے اسکول جاکر تعلیم حاصل کرنے سے ماؤں کی کارکردگی پر بھی مثبت اثر پڑتا ہے اور انھیں اضافی آمدنی کمانے کیلئے کچھ وقت مل جاتا ہے۔

معذور بچوں کو تعلیم سے دور رکھنا نہ صرف بنیادی حقوق اور سماجی انصاف کا مسئلہ ہے بلکہ یہ اقوامِ متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف 2030ء کے حصول کی راہ میں بھی بڑی رکاوٹ ہے۔ 2030ء میں ایک دہائی کا عرصہ رہ گیا ہے، تعلیم کے میدان میں پیچھے رہ جانے والوں کو اس زیور سے آراستہ کرنے کے لیے دنیا کو مالی وسائل اور سیاسی پختگی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ ’تعلیم سب کے لیے‘ کا ہدف سب کے لیے ایک حقیقت بن سکے۔

والدین اور اساتذہ کو چاہیے کہ ابتدا ہی سے بچوں کے ذہن میں یہ بات ڈالیں کہ انھیں معذورافراد سے احسن طریقے سے پیش آنا ہے کیونکہ معذور افراد بھی ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں۔ اگر اسکول میں کوئی ایسا طالب علم ہے جو جسمانی طور پرمعذور ہے تو دوسرے بچوں کو چاہیے کہ اس کی جسمانی خامی پر جملے نہ کسیں اور نہ ہی معذور شخص کو اس چیز کا احساس دلائیں۔

تازہ ترین